پھر چشم نیم وا سے ترا خواب دیکھنا پھر اس کے بعد خود کو تہہ آب دیکھنا ٹوٹا ہے دل کا آئینہ اپنی نگاہ سے اب کیا شکست ذات کے اسباب دیکھنا جناب ہم ہی عمران خان کے حامی تھے اور اب تک ہیں۔ مقصد یہ کہ ہم اس کے ناقد ضرور ہیں مگر اس کی شخصیت میں جو دیانت اور کچھ کر گزرنے کی امنگ اور ترنگ‘ اس کے ہم قائل ہیں۔ مایوسی تو ویسے ہی کفر ہے۔ اس وقت میں عمران خان کو ڈفنڈ کرنے نہیں بیٹھا۔ بس یونہی بیٹھے بٹھائے ایک دلچسپ صورت حال کا ذکر کرنے کو جی چاہا‘ ہوا یوں کہ بیگم صاحبہ کو بیماری کا شبہ ہوا۔ تو گنڈیریاں چوسنے کا ڈاکٹر نے کہا اور ساتھ ہی ٹینڈے گوشت کھانے کا۔ یہ ٹینڈے اگرچہ انتہائی مفید سبزی ہے اور اکثر بیماروں کو کھانا پڑتی ہے مگر ہم بچپن میں جب فائدے مند اور نقصان دہ سے آشنا نہیں تھے‘ ٹینڈے دیکھ کر ناک منہ چڑھاتے تھے سالن میں سے بوٹیاں کھا کر ٹینڈے چھوڑ دیتے۔ دوسری یاد یہ ہے کہ ہمارے ساتھ ایک لڑکا فٹ بال کھیلتا تھا تو سب اسے گول مٹول ہونے کے باعث ٹینڈا کہتے تھے۔ پتہ نہیں اسے ٹینڈا پکار کر سب کو ایک راحت سی کیوں محسوس ہوتی تھی۔ بڑے ہوئے تو گڑھی شاہو کے ایک محلے میں ایک آدمی کو سب محلے والے ٹینڈا کہتے تھے اور وہ بندہ مست ملنگ سا تھا سب سے روپیہ مانگتا مگر وہ روپیہ کو پتہ کہتا۔ میری بھتیجی اپنی ماں سے پوچھنے لگی کہ پاگل کو ٹینڈا کیوں کہتے ہیں۔ میں بازار سے ٹینڈے خریدنے گیا تو پتہ چلا کہ 260روپے کلو ہیں۔ میں تو حیرت زدہ ہی رہ گیا کہ ہم نے تو کبھی ٹینڈوں کو اہمیت ہی نہیں دی سب سے سستی سبزی یہی ہوا کرتی تھی یا پھر شلجم جنہیں گونگلو بھی کہا جاتا ہے اور وہ اتنے پیدا ہوتے تھے بیلوں اور مویشیوں کو ڈال دیے جاتے اس کے سستے ہونے کا ثبوت ہمارے دوست زاہد فخری کی ’’کدی تے پیکے جا نی بیگم‘‘ نظم ہے جس میں وہ کہتا ہے: ٹینڈے کھا کھا اک گئے آں پھر وی نکو نک گئے آں یعنی روز ہی ٹینڈے‘ کوئی حد ہوتی ہے۔ یقینا یہ سستے ہونے کے باعث ہی روز پکتے ہونگے مجھے یاد آیا کہ میرے دادا جان کو شوگر تھی تو روزانہ کریلے پکنے شروع ہوئے تو ایک دن میرے دادی جان پھٹ پڑے کہنے لگیں’’شاہ جی!بس کرو کریلیاں نوں۔ اج کریلیاں دی تیرہ تاریخ ہو گئی اے ہن تے کن وی بولن لگ پئے نیں‘‘ یعنی کریلوں کی 13تاریخ ہو گئی ہے اور کان بولنے لگے ہیں۔دوسری نسبت ٹینڈوں کے ساتھ بیگم کی بھی بن گئی کہ بیگم کے لئے ہی تو ہم ٹینڈے خرید رہے تھے لیکن فرق یہی کہ زاہد فخری کے زمانے میں سستے تھے مگر اب کے تو بہت گراں ہیں۔ ویسے تو ساری سبزیاں ہی مہنگی ہیں حتیٰ کہ آلو بھی گرانی کی طرف جا رہے ہیں۔ اگر آلو مہنگے ہو گئے تو مارے گئے کہ یہ کئی چیزوں میں پڑ جاتے ہیں۔ پچھلے دور میں تو یہ اتنے بہتات میں پیدا ہوئے کہ کسانوں نے ٹرالیوں کی ٹرالیاں نہر میں ڈال دی کہ ان کی مال برداری کا خرچہ بھی پورا نہیں ہو رہا تھا۔ بعض اوقات ہاتھ سے کمایا ہوا کھونا پڑ جاتا ہے۔ پیچھے گنے کے ساتھ بھی ایسا ہوا کہ ٹرالیوں میں پڑا پڑا وزن کھو بیٹھا اور بعض جگہ سوکھ گیا۔ چلیے خوشی بھی ہوئی کہ اس دور میں ٹینڈے کی بھی سنی گئی مگر فواد چودھری کو تبدیل کر دیا گیا آپ اس سے کوئی مناسبت تلاش نہ کیجیے بس یونہی بات سے بات نکل آئی ہے۔ یوں تو اسد عمر بھی اپنی وقعت کھو بیٹھے مگر کمال یہ کہ ان کے چہرے پہ ذرا سی بھی شرمندگی نہیں ہے جیسے کہ انہیں اپنے انجام کا بخوبی علم تھا۔ ان کو کیا سب کو علم تھا۔ انہوں نے اپنا چوغہ جھاڑا اور چلتے بنے۔ اب چلے ہوئے کارتوس پھر چلائے جائیں گے۔ لیکن غریبوں کو ان سے کیا کہ وہ تو ٹینڈے کے بارے میں سوچتے ہیں کہ اب وہ پائو کے حساب سے بکتے ہیں۔ میرا خیال ہے ٹینڈوں کے مہنگا ہونے کا باعث شاید ڈاکٹر ہیں کہ وہ ہر مریض کو ٹینڈے کھانے کا ضرور کہتے ہیں۔ ہم بھی تو ٹینڈے دوائی سمجھ کر کھاتے تھے ہمیں تو مفید کہہ کر نیم کا پانی بھی پلا دیا جاتا تھا ؎ تیری وفا سے کیا ہو تلافی کہ دہر میں تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے یقینا ٹینڈے کدو کی قسم سے ہے کدو تو بے حد مفید ہے جب کدو میں چنے کی دال پڑتی ہے تو کیا مزے دار سالن تیار ہوتا ہے۔ بہرحال ہم نے آج صرف ٹینڈا کہانی لکھنے کا سوچا تھا ہم بچپن میں آندھی آنے پر گایا کرتے تھے’’بھانڈے ٹینڈے سانبھ لو ہنیری آئی ہے‘‘ پتہ نہیں یہاں ٹینڈا مہمل استعمال ہوا یا کیا ہے۔ ویسے بھی آپ بھی کہتے ہونگے کہ میں سبزیوں کی زبان میں بات کرنے لگا۔ بھائی جان اب تو گورنر چودھری سرور بھی ایسی ہی ڈکشن استعمال کر رہے ہیں کہتے ہیں ’’اگر سب کچھ جہانگیر ترین ہیں تو ہم آلو چنے بیچنے نہیں آئے‘‘ وہ یوں بھی کہہ سکتے تھے کہ ہم کوئی ٹینڈے کدو بے بیچنے نہیں آئے۔ ویسے تو پی ٹی آئی کے اصحاب کریلے کی طرح بھی ہیں کریلا بھی ایسا کہ جو نیم چڑھا ہو۔ مجھے یہ کالم لکھتے ہوئے اپنے ایک بزرگ شاعر پھل آگروی بھی یاد آئے۔ وہ جب بھی مشاعرے میں آتے تو ان کی ٹوپی کے ساتھ کیلے اور سنگترے وغیرہ لٹکے ہوتے اور آکر وہ حاضرین میں کنوں وغیرہ تقسیم کرتے ان کے کلام میں بھی پھلوں کا ذکر ہوتا انتہائی معصوم اور منفرد وہ وثیقہ نویس تھے شادی انہوں نے شیخ رشید کی طرح کی نہیں تھی۔ مجرد زندگی گزاری اور اپنے سے انداز میں۔ چلیے ان کو یاد کرنے کا بہانہ ہاتھ آ گیا اللہ ان کی مغفرت کرے۔ میاں محمد کا ایک شعر بھی اسی مناسبت سے آ گیا: گئی جوانی آیا بڑھاپا جاگ پئیاں سب پیڑاں ہن کس کم محمد بخشا سونف جوبن ہریڑاں میاں محمد کی کیا بات ہے وہ تو ہم جیسوں کو اپنی اوقات بھی یاد دلاتے رہتے ہیں: کوئی آکھے اینوں پیڑ تکے دی تے کوئی آکھے چک اصلی گل محمد بخشا اندروں گئی اے مک چلیے میاں محمد کے ایک اور شعر کے ساتھ کالم تمام کرتے ہیں: کھاوے اتے کھائیے نہ ‘ نئیںتے کھا کے ویکھ بن بلائے جائیے نہ نئیں تے جاکے ویکھ