آج 27 مئی ہے ۔ ’’ یوم شہادتِ حضرت علی علیہ السلام اور کل 28 مئی کو ’’ یوم تکبیر‘‘ ۔ دونوں دِن اہل پاکستان اور بیرون مُلک مقیم ’’فرزندان و دُخترانِ پاکستان ‘‘عزتِ و احترام اور جوش و خروش سے منائیں گے۔ عربی زبان میں مولاؔ کے معنی ہیں ۔’’ آقا، سردار اور رفیق‘‘ اور مولا علی ؑ کے پیرو کار کو ’’ مولائی‘‘ ۔ کہا جاتا ہے ۔ ’’عاشقِ رسولؐ ، مصورِ پاکستان‘‘ علاّمہ محمد اقبالؒ نے اپنے بارے میں بتایا تھا کہ … بغض ، اصحابِ ثلاثہ سے ،نہیں اقبالؒ کو! دِق مگر ، اِک خارجی ؔسے ، آ کے ،مولاؔئی ہُوا! قیامِ پاکستان سے قبل ایک صحافی نے قائداعظمؒ سے پوچھا کہ ’’ آپ شیعہ ہیں یا سُنی؟‘‘ ۔ قائداعظمؒ نے کہا کہ ’’ مَیں تو، ایک عام مسلمان ہُوں البتہ حضرت علی ؑ کا یومِ ؔولادت اور یوم ؔشہادت ہم سب مسلمان مِل کر مناتے ہیں‘‘ ۔قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں بھی علاّمہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے عقیدت مندان ’’ آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ اور بعد ازاں تحریک پاکستان سیاسی جماعتوں کے جلسوں میں یہ تین نعرے لگائے کرتے تھے … نعرۂ تکبیر ۔ جواب میں ۔ اللہ اُکبر! نعرہ رسالتؐ۔ جواب میں ۔ یا رسولؐ اللہ ! نعرۂ حیدری ؑ۔ جواب میں ۔ یا علی ؑ ! معزز قارئین!۔ میرے آبائو اجداد کا تعلق بھارت کے صوبہ راجستھان کے شہر اجمیر سے تھا۔ اُنہوں نے مولا علی ؑ کے ایک فرزند ’’نائب رسول ؐ فی الہند ، خواجہ غریب نواز حضرت مُعین اُلدّین چشتی ؒ‘‘ کے دست ِمبارک پر اسلام قبول کِیا تھا۔ ہندوستان سے ہجرت کے بعد ، ہمارا خاندان میرے والد صاحب تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان کی قیادت میں پاک پنجاب کے شہر سرگودھا میں آباد ہُوا۔ وہ مجھے میلاد شریف کی محفلوں میں لے جایا کرتے تھے ۔ مَیں نے 1956ء میں میٹرک پاس کِیا اور اردو میں نعت لکھی جو، لائل پور کے ایک روزنامہ میں شائع ہُوئی۔ 1960ء میں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں بی۔ اے ۔ فائنل کا طالبعلم تھا جب ، مَیں نے مسلک صحافت اختیار کِیا اور باقاعدہ اردو اور پنجابی میں شاعری شروع کردِی ۔ پھر مجھے خواجہ غریب نوازؒ کے یہ اشعار سمجھنے کا موقع مِلا… شاہ ہَست حُسین ؑ، پادشاہ ہَست حُسین ؑ! دِیں ہَست حُسین ؑ ، دِیں پناہ ہَست حُسین ؑ! سَردَاد ، نَداد دَست ، در دَستِ یزید! حقّا کہ بِنائے لا اِلہ ہَست حُسین ؑ! یعنی۔ ’’ہمارے ( اصل) شاہ اور بادشاہ حضرت امام حُسین ؑ ہیں۔ دِینِ اسلام اور دِین کی پناہ بھی امام حُسین ؑ ہی ہیں (آپؑ نے دِین کی بقا کے لئے ) اپنا سر قلم کروالیا لیکن خلافت کے نام پر یزید کی ملوکیت اور خاندانی بادشاہت کو قبول نہیں کِیا‘‘۔ مَیں 1969ء میں لاہور شفٹ ہوگیا ۔ یکم نومبر 1971ء کو مَیں نے لاہور سے اپنا ہفت روزہ ’’ پنجاب‘‘ اور 11 جولائی 1973ء کو روزنامہ ’’ سیاست‘‘ جاری کِیا۔ 1980ء کے اوائل میں خواب میں ،خواجہ غریب نوازؒ ،میرے گھر تشریف لائے ۔ آپؒ نے میری طرف مُسکرا کر دیکھا ۔ جب مَیں نے اُٹھ کر اُن کی خدمت میں سلام عرض کِیا تو ،وہ مُسکراتے ہُوئے غائب ہوگئے ۔ میری آنکھ کُھل گئی۔ مَیں نے اشارے سے اپنی اہلیہ مرحومہ (نجمہ اثر چوہان) کو جگایا اور اُن سے پانی مانگا۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’ہمارے بیڈ روم میں تو خُوشبو پھیلی ہوئی ہے؟ ‘‘۔ پھر خواجہ غریب نوازؒ کی برکت سے میرے لئے ،مختلف صدور اور وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے کئی غیر ملکی دوروں کے دروازے کُھل گئے ۔ 1983ء میں مَیں نے خواب میں دیکھا کہ ’’ مَیں پیدل چل رہا تھا ۔ راستے میں خشک دریا آگیا ۔ مَیں نے خشک دریا پر قدم رکھا ۔ مٹی گیلی تھی ۔ پھر پتہ چلا کہ ’’یہ تو دلدل ہے ؟‘‘ ۔ مَیں گھبرا گیا ، میرا جسم دلدل میں دھنس رہا تھا کہ اچانک ، میرے مُنہ سے ’’یاعلی ؑ !‘‘ کا نعرہ بلند ہُوا ۔ مجھے محسوس ہوا کہ کسی "Crane" نے مجھے دلدل سے نکال کر دوسرے کنارے پر اُتار دِیا۔ مجھے کسی غیبی آواز نے کہا کہ ’’ تُم پر مولا علی ؑ کا سایہ شفقت ہے !‘‘۔ معزز قارئین!۔ مولا علی ؑ کے سایۂ شفقت میں مجھے، ستمبر 1991ء میں صدر ِ پاکستان غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے اُن کے ساتھ خانۂ کعبہ کے اندر داخل ہونے کی سعادت حاصل ہُوئی، پھر مَیں نے نعت لکھی ۔ جس کے تین شعر یوں ہیں… یوں ضَو فِشاں ہے ، ہر طرف ، کردار آپؐ کا! ارض و سماء ، ہے حلقۂ انوار ، آپؐ کا! …O… مخلُوقِ کائنات ہو یا خالقِ عظِیم! مِدحت سَرا ہے ، ہر کوئی سرکار آپؐ کا! …O… مولا علی ؑ و زَہراس، حسنؑ اور حُسین ؑ سے! عرشِ برِیںسے کم نہیں ، گھر بار آپؐ کا! 2007ء میں میری پنجابی نعت کے دو بند یوں ہیں … سَرچشمہ ، حُسن و جمال ، دا! کِسے ڈِٹھّا نہ ، اوسؐ دے نال دا! ربّ گھلّیا ، نبیؐ ، کمال دا! مَیں غُلام ، اوسؐ دی ، آل ؑ دا! …O… بُوہا ؔعِلم دا ، تے مہاؔبلی! اُوؐہدا جانِشین ، علی ؑ وَؔلی! جیہڑا ، ڈِگدیاں نُوں، سنبھال دا! مَیں غُلام ، اوسؐ دی ، آل ؑ دا! معزز قارئین !۔ مَیں نے ہندو راجپوتوں کی قدیم تاریخ پڑھی تو، مجھے معلوم ہُوا کہ ’’ ہزاروں سال پہلے بھارت کے صوبہ ہریانہ ؔکے شہر ’’ کورو کشیتر‘‘ میں ایک ہی داد کی اولاد کوروئوؔں اور پانڈووؔئوں میں جنگِ عظیم ’’ مہا بھارت‘‘ ہُوئی ۔ دورانِ جنگ ’’ وِشنو دیوتا‘‘ کے اوتار شری کرشن جیؔ نے پانڈو ہیرو ارجنؔ کو جو اُپدیشؔ ( خُطبہ ) دِیا وہ ، مُقدّس کتاب ’’گیتا ‘‘ کہلائی ۔ ارجنؔ ۔ شری کرشن جی ؔکا ۔ پھوپھی زاد ؔ، اُن کی بہن سُبھادرا ؔ کا خاوند، اور شاگرد ؔتھا ۔ شری کرشن جیؔ نے اپنے اُپدیش ؔمیں ارجن کے لئے ’’ ستِھتّ پرتگیہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی/ ہے ۔ بہت زیادہ عالم و فاضل اور بہت زیادہ بہادر اور جنگ جُو شخص کو ’’ ستِھتّ پرتگیہ‘ ‘ کہا جاتا ہے ۔ سرکارِ دو عالمؐ کے چچا زاد ، داماد اور شاگرد ’’ باب اُلعلم‘‘ اور ’’ اسد اللہ ‘‘ ( اللہ تعالیٰ کے شیر ) کہلانے والے مولا علی ؑ جیسا ’’ ستِھتّ پرتگیہ‘ ‘ تاریخِ اسلام میں اور کون ہوگا ؟۔مَیں نے اپنے پنجابی جریدہ ’’ چانن‘‘ لاہور کے اکتوبر 2011ء کے شمارے میں مولا علی ؑ کی پنجابی زبان میں منقبت شائع کی ، جس کا مطلع اور دو بند یوں تھے/ ہیں … نبی ؐ آکھیا سی ، وَلیاں دا وَلی ؑ مولا! جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علی ؑ مولا! …O… لوکھی آکھدے نیں ، شیر تَینوں یزداں دا! سارے نعریاں توں وڈّا ، نعرہ تیرے ناں دا! تیرے جیہا نئیں کوئی ، مہابلی مولاؑ! جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علی ؑ مولا! …O… واہ! نہج اُلبلاغہ ، دِیاں لوآں! سارے باغاں وِچّ ، اوس دِیاں خوشبواں! پُھلّ پُھلّ مولاؑ ، کلی کلی مولاؑ! جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علی ؑ مولا! معزز قارئین!۔ وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے دوسرے دَور ( 1996ء میں ) مَیں نے ایک خبر پڑھی کہ ’’ مولا علی ؑ کے ایک فرزند ’’ تحریکِ نفاذِ جعفریہ‘‘ کے سربراہ آغا حامد علی شاہ صاحب موسوی نے وزیراعظم صاحبہ کی دعوت پر اُن کے دربار میں جانے سے انکار کردِیا ہے‘‘۔ مَیں نے اپنے ایک سرگودھوی صحافی دوست برادرِ عزیز سیّد رضا کاظمی سے رابطہ کِیا تو، اُنہوں نے راولپنڈی کی علی مسجد میں میری ملاقات آغاحامد علی شاہ صاحب سے کروا دِی۔ چند سال بعد دوسری ملاقات ہُوئی اور تیسری ملاقات 20 جنوری 2016ء کو ہُوئی۔ یہ میری سُستی کے باعث نہیں بلکہ میرے والد صاحب نے مجھے سمجھایا تھا کہ ’’ درویشوں کا بہت قیمتی ہوتا ہے ‘‘۔ 20 جنوری کی ملاقات میں میرے ساتھ میرا اسلام آبادی داماد معظم ریاض چودھری بھی تھا اور آغا جی کی طرف سے کرنل (ر) سخاوت علی کاظمی اور شہاب مہدی رضوی کے علاوہ آغا صاحب کے دونوں قانون دان بیٹے سیّد محمد مرتضیٰ موسوی ، اور سیّد علی رُوح اُلعباس موسوی بھی تھے ۔ آغا صاحب نے مجھے بتایا تھا کہ ’’ مَیں چاہتا ہُوں کہ میرے دونوں بیٹے وُکلاء کی حیثیت سے علاّمہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کی طرح قوم کی خدمت کریں !‘‘۔ زندہ باد قائداعظمؒ !۔