دو سال سے پاکستان میں یوم تکبیر اس شان و شوکت سے نہیں منایا جاتا جس کا یہ دن حقدار ہے۔ قومی تاریخ میں 28مئی( 1998ء )ہر لحاظ سے قابل فخر اور یادگار دن ہے‘1971ء میں بھارت نے پاکستان کو دولخت کر کے قوم کو احساس جرم میں مبتلا کیا‘ سقوط ڈھاکہ کی خفت مٹانے کے لئے قوم کو اٹھائیس سال انتظار کرنا پڑا‘ بلا شبہ ایٹمی پروگرام کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو نے کیا‘ ایک قوم پرست رہنما کے طور پر وہ ایٹمی پروگرام کو ملکی دفاع کا ضامن سمجھتے تھے‘ ڈاکٹر عبدالقدیر خان انہی کی دعوت پر پاکستان آئے اور پاکستان اٹامک انرجی میں برسہا برس سے تنخواہیں بٹورنے والے سائنس دانوں کی رہنمائی کی جو 1974ء میں پوکھران دھماکوں کے بعد پاکستان کے پرجوش وزیر اعظم بھٹو کے دیے ہوئے ٹاسک کو پورا کرنا تو درکنار دو اڑہائی سال تک آغاز کار نہ کر سکے۔ ایٹمی پروگرام میں نتیجہ خیز پیش رفت اور تکمیل فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کا کارنامہ ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے علاوہ ہمارے دانشور قوم کو ہمیشہ یہ باور کراتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا دبائو برداشت کیا‘ ایٹمی پروگرام پر سودے بازی نہ کی‘ بجا مگر اس دبائو کی نوعیت کیا ہو گی جس کو جوانمردی سے برداشت کر کے ایک فوجی آمر نے ایٹم بم بنایا اور اس تیز رفتاری اور رازداری سے کہ کسی کو قبل از وقت کانوں کان خبر نہ ہوئی‘ ایک شخص جو ایٹم بم بنانے کا ارادہ رکھتا ہے اور دوسرا شخص جو بنے بنائے ایٹم بم کے تجربات پر مُصر ہے ‘وہ ہمارے سیاستدانوں اور دانشوروں کی رائے میں دبائو اس لئے برداشت کر گیا کہ منتخب حکمران تھا اور عوام کے اعتماد و پشت پناہی سے لیس مگر جس نے واقعتاً یہ کارنامہ انجام دیا اس کا کہیں ذکر ہی نہیں‘ دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ کوئی فوجی آمر دبائو کا مقابلہ نہ کر پاتا مگر یہ اسی طرح کی دروغ گوئی ہے جس طرح سیاسی حکمرانوں کی کرپشن‘ اقربا پروری اور دوست نوازی کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ معاملہ آمریت یا جمہوریت کا ہے ہی نہیں‘ قومی مفاد کے تحفظ اور عوامی خواہشات کی تکمیل کا ہے‘ مستند معلومات کی بنا پر میں اس نقطہ نظر کا حامی نہیں کہ میاں نواز شریف ایٹمی تجربات کے حق میں نہ تھے‘ ایٹمی سائنس دانوں‘ فوج اور صحافیوں کے دبائو پر انہوں نے یہ فیصلہ کیا۔امریکی صدر بل کلنٹن میاں نواز شریف سے رابطے میں تھے اور انہوں نے اپنی کتاب میں پاکستان کے تجربات کا ذمہ دارمیاں نواز شریف کوقرار دیا‘ سید مشاہد حسین غالباً دوشنبے میں میاں صاحب کی ہدایات کا ذکر کرتے ہیں جو انہوں نے ایٹمی سائنس دانوں کے علاوہ وزارت خارجہ کو جاری کیں۔مجھے یقین ہے کہ 1998ء میں جو بھی حکمران ہوتا درپیش صورتحال میں ایٹمی تجربات کا فیصلہ کرتا کہ ملکی دفاع و سلامتی کے علاوہ قومی غیرت و وقار اور آئندہ نسلوں کے تحفظ کا معاملہ تھا‘ ہمارے سول اور فوجی حکمرانوں سے پہاڑ جیسی غلطیاں صادر ہوئیں‘ قوم نے اس کا خمیازہ بھگتا مگر بعض معاملات میں تمام حکمرانوں نے بھارت تو خیر کس باغ کی مولی ہے‘ امریکہ سے بھی ٹکر لی‘ مزاحمت اور حکم عدولی کا راستہ اختیار کیا‘ عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ تعلقات‘ ایٹمی پروگرام‘ میزائل پروگرام‘ سی ٹی بی ٹی پر دستخطوں ‘ عراق میں فوج بھیجنے اور افغانستان میں فوج کشی کے ذریعے امریکہ کی بھر پور مدد کے معاملے پر ایوب خاں سے لے کر جنرل پرویز مشرف اور ذوالفقار علی بھٹو سے نواز شریف اور میر ظفر اللہ جمالی تک ہر سول اور فوجی حکمران نے امریکی دبائو کا مقابلہ کیا اور کبھی پیٹھ نہیں دکھائی‘ فوج ہر حکمران کی پشت پر رہی اور قوم کا اجتماعی جذبہ زاد راہ بنا‘ جنرل پرویز مشرف کو امریکیوں نے دوغلا قرار دیا تو قومی مفادات کے تحفظ کی بنا پر ورنہ اس نے ذاتی طور پرسپر پاور کا کیا بگاڑا تھا۔ ہمارے لئے پریشان کن بات یہ ہونی چاہیے کہ جس حمیّت‘عزیمت‘ استقامت اور قوم پرستی کا مظاہرہ ہماری اسٹیبلشمنٹ اور حکمران اشرافیہ نے قومی سلامتی کے معاملے میں کیا‘ امریکہ اور مغرب کے بھر پور دبائو کی مزاحمت کی اور پاکستان کو ناقابل تسخیر بنایا‘باقی معاملات میں وہ اس کا عشر عشیر کیوں نہ کر سکی‘ عزم اور حوصلے کی بنا پر ایٹمی اور میزائل پروگرام پروان چڑھا‘ چین اور عرب ممالک سے ہمارے تعلقات مضبوط ہوئے‘ افغانستان میں ہم نے اپنے مفادات کا تحفظ کیا اور بھارت کی بالادستی کسی شعبے میں تسلیم نہ کی۔ سماجی ترقی‘ اقتصادی و معاشی استحکام اور قومی کردار کی تشکیل میں ہم بُری طرح ناکام ہوئے‘ غیروں کے دریوزہ گر اور نالائق و ناکام۔سٹیٹ آف دی آرٹ ایٹمی اور میزائل پروگرام کو خالصتاً اپنے وسائل اور مہارت کی بنا پر پایہ تکمیل کو پہنچانے والی قوم الیکٹرانکس‘ طبی آلات اور روز مرہ استعمال کی بعض دوسری اشیا کے لئے امریکہ و یورپ اور چین کے علاوہ دیرینہ دشمن بھارت کی محتاج ہے۔ کبھی آلو باہر سے درآمد کرنے پڑتے ہیں‘گاہے ‘ٹماٹر‘ زرعی ملک میں لکڑی تک جنوبی افریقہ اور ملائشیا سے آ رہی ہے اور کوئی شرمندہ نہیں‘ ان دنوں پی ٹی وی پر ترکی ڈرامہ ارطغرل کے چرچے ہیں‘ بارہویں صدی کے کرداروں پر مشتمل اس تاریخی ڈرامے پر بعض دوست معترض ہیں کہ یہ مقامی ثقافت کے فروغ میں مددگار نہیں‘مگر گزشتہ دو تین عشروں سے بھارت کی ثقافتی یلغار پر انہیں کوئی اعتراض تھا نہ اقتصادی ‘ معاشی اور سماجی شعبے میں شرمناک غیر ملکی انحصار پر ندامت ‘نوجوان نسل اپنی تہذیب و تمدن‘ مذہب اور تاریخ سے بیگانہ ہونے لگی‘ اپنے ماضی سے لاعلم‘ حال پر شرمندہ اور مستقبل سے مایوس مگر کسی کو احساس نہ ہوا‘ ایک فوجی آمر نے ایٹمی ہیرو عبدالقدیر سے سرعام معافی منگوائی کسی نے اُف تک نہ کی کہ نوجوان نسل کو اپنے ہیرو کی قدروقیمت معلوم نہ تھی۔ ایک ٹی وی شو میں ماضی کی معروف نوجوان اداکارہ سے کمپیئر نے پوچھا کہ آپ اپنے ساتھ بیٹھے مہمان سے واقف ہیں؟ جواب نفی میں تھا‘ ڈاکٹر عبداقدیر خان ساتھ تشریف فرما تھے‘ انہی محترمہ سے کسی پھٹیچر بھارتی اداکار کے بارے میں پوچھا جاتا تو فی الفور اس کا اور چھور بیان کر دیتیں۔ ایٹمی پروگرام کے سبب پاکستان بھارتی جارحیت اور بالادستی سے محفوظ ہے‘ ایٹمی پروگرام کا کریڈٹ ذوالفقار علی بھٹو‘ عبدالقدیر خان‘ جنرل ضیاء الحق‘ میاں نواز شریف‘ غلام اسحق خان اور دیگر نامور و گمنام ہیروز کو جاتا ہے ۔عمران خان کے دور حکومت میں یوم تکبیر سے لاتعلقی اور چشم پوشی ہر لحاظ سے افسوسناک ہے کسی بھی حکمران کو اتنا تنگدل نہیں ہونا چاہیے۔ جموں و کشمیر میں بھارتی لاک ڈائون اور پاکستان کے خلاف بھارتی عزائم بالخصوص فالس فلیگ آپریشن کے خدشات کی بنا پر ایٹمی پروگرام کی اہمیت و افادیت دو چند ہے اور یوم تکبیر کو یاد رکھنا قومی ضرورت۔یہ افتخار کا ایسا لمحہ تھا جسے کوئی غیرت مند قوم بھلا سکتی ہے نہ اس کے حکمرانوں کو بھولنا چاہیے۔ ارطغرل ڈرامے کی پاکستان میں نمائش سے عام شہری اس خوش گمانی میں مبتلا ہیں کہ عمران خان پاکستان کے غیور عوام کو اپنے شاندار اور قابل فخر ماضی سے جوڑ کر مستقبل میں کامرانی کا راستہ ہموار کرنا چاہتے ہیں‘ یوم تکبیر ہمارے ماضی کا تابناک دن ہے‘ جسے یاد نہ رکھنا نادانی ہے‘ آمریت اور جمہوریت کی بحث عبث ہے اور قوم کو کنفیوژ کرنے کی مجرمانہ کوشش۔ حکمران کوئی بھی ہوتا تیار ایٹمی ہتھیاروں کا تجربہ ضرور کرتا کہ یہ قوم کی خواہش تھی‘ وقت کی ضرورت اور حالات کا تقاضا۔