عید کی چھٹیوں کے سلسلے میں اپنے گاؤں دھریجہ نگر میں تھا ، وہاں 14 اگست یوم آزادی کے حوالے سے تیاریاں ہو رہی تھیں ۔ دکانوں پر جھنڈیاں اور بچوں کے اسٹیکر بِک رہے تھے ۔ ملتان آیا ہوں تو پاکستان کے جھنڈوں کی بہار آئی ہوئی ہے ، بیرون بوہڑ گیٹ ، اردو بازار اور شاہین مارکیٹ کے علاقوں میں جھنڈیاں اور جھنڈے خوبصورت اسٹیکر اور پاکستانی شرٹس وغیرہ فروخت ہو رہے ہیں اور پرنٹنگ پریس دھڑا دھڑ جھنڈیاں چھاپ رہے ہیں ۔ اردو بازار کے نام کو دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ ملتان میں ایک سرائیکی بازار اور لاہور میں ایک پنجابی بازار بھی ہونا چاہئے ، یہ سوچ کر پھر اس خوف سے خاموش ہو گیا کہ کچھ لوگ فتویٰ نہ لگا دیں کہ یہ تو لسانی نام ہے ، حالانکہ جو فتویٰ لگا رہے ہوتے ہیں انکو اردو بازار ، اردو یونیورسٹی یا اردو کالج سے لسانیت والی کوئی بات نظر نہیں آتی ۔ خیر! یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا ، دھریجہ نگر میں معروف شاعر عاشق بزدار کے اعزاز میں تقریب کا اہتمام تھا ، عاشق بزدار کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو پھولوں سے لاد دیا گیا ۔ سرائیکی کانفرنس میں شاکر شجاع آبادی نہ آ سکے لیکن ان کی خوبصورت شاعری کا تذکرہ ہوتا رہا ۔ شاکر شجاع آبادی بھی پاکستان کا سرمایہ ہیں ، وہ جسمانی طور پر معذور ہیں مگر سوچ کے اعتبار سے ان کے جیسا توانا ذہن نہیں دیکھا ۔ ہم ان کے اعزاز میں بھی تقریب پذیرائی کا اہتمام کریں گے مگر کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت خود ان کے اعزاز میں پذیرائی کا اہتمام بھی کرے اور ان کے علاج کیلئے معاونت بھی ، یہ نہایت ضروری ہے کہ ان کا علاج بیرون ملک سرکاری خرچ پر کرایا جائے ۔ میں کالم کے آخر میں ان کے چند قطعے روزنامہ 92 کے قارئین کی خدمت میں پیش کروں گا، یہ قطعے ظلم ، جبر اور نا انصافی کے خلاف اعلان جنگ بھی ہیں ۔ دھریجہ نگر میں پولیس کی طرف سے نا انصافیوں کا تذکرہ ہوا اور کہا گیا کہ جو نا انصافیاں نواز شریف دور میں تھیں ، وہ آج عمران خان کے دور میں بھی جاری ہیں ۔ اس موقع پر رحیم یارخان میں گزشتہ سال صلاح الدین نامی شخص کے پولیس کے ہاتھوں قتل کا تذکرہ ہوا ، اور بتایا گیا کہ اس کے قاتل پولیس اہلکاروں کو سزا نہیں ملی ۔ اس واقعے کے سلسلے میں میں نے لکھا تھا کہ ’’ مبینہ ملزم ‘‘ صلاح الدین کے پاؤں میں کالے رنگ کی ٹوٹی پھوٹی ہوائی چپل تھی ، کپڑے میلے کچیلے تھے اور شکل صورت سے نہیں لگ رہا تھا کہ وہ بینک ڈکیت یا عادی مجرم ہے ۔ وہ جس بینک میں پکڑا گیا ‘ دور دراز کسی قصبے کا بینک نہیں بلکہ رحیم یارخان کا بنک ہے جو کہ شہر کے عین وسط میں واقع ہے ‘ جب لوگ اسے مار رہے تھے تو صحافی نے جب اس سے نام پوچھا تو اس نے بازو پر لکھا اپنا نام اور ایڈریس دکھایا ۔ سوال یہ ہے کہ یہ کیسا عادی مجرم ہے جو اپنی شناخت اپنے بازو پر کنندہ کئے ہوئے تھا ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پولیس نے اس نے نازک اعضاء پر تھڈے مار مار کر اسے قتل کیا اور اس طرح کا واقعہ پہلے بھی رحیم یارخان پولیس کے ہاتھوں ہو چکا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کام ڈی ایس پی سٹی عباس اختر کی سرپرستی میں ہوتا ہے ۔ اسی طرح کے تھڈوں سے سلیم ماچھی بھی فوت ہو چکا ہے ۔ شہباز شریف کے دور میں پولیس کے ذریعے ماورائے عدالت قتل کا چلن عام تھا ۔ رحیم یارخان میں بھی ڈی پی او سہیل ظفر چٹھہ کی نگرانی میں سینکڑوں افراد ماورائے عدالت قتل ہوئے اور ان میں سے 99.99 فیصد سرائیکی بولنے والوں کی تھی ۔ سوال یہ ہے کہ اگر ملزموں کو ماورائے عدالت قتل کرنا ہے تو پھر عدالتیں کس مرض کی دوا ہیں ۔ میں نے مزید لکھا تھا کہ کہا جا رہا ہے کہ حکومت بدلی ‘ افسر تبدیل ہوئے‘ وردی بدلی مگر پولیس کے رویے نہ بدلے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کے دور میں ملک سے اربوں لوٹنے والے ملزم جب پیشی پر آتے ہیں تو ان کی سکیورٹی بادشاہوں جیسی ہوتی ہے ، وہ وکٹری کا نشان بنا رہے ہوتے ہیں جبکہ اے ٹی ایم کارڈ چرانے کے جرم میں ملزم کو پولیس چوبیس گھنٹے کے اندر موت کی نیند سلا دیتی ہے ۔یہ کیسا ’’انصاف ‘‘ ہے ۔ بات صرف زرداری ‘ نواز شریف تک محدود نہیں ، یہاں ہزاروں تو کیا لاکھوں زرداری و نواز شریف موجود ہیں ۔ سرائیکی کی ایک کہاوت ہے کہ ’’ کاوڑ تے قانون ایہو جہی شئے ہے جو ڈاڈھے تے چڑدھی نی تے ہینڑیں توں لہندی نی ‘‘ ۔ اس کا مطلب ہے کہ غصہ اور قانون جو ایسی چیزیں ہیں جو طاقتور پر نہیں آتی جبکہ کمزور سے اُترتی نہیں ۔ کیا جرم صرف غریب کرتا ہے ؟ ہم اسی رحیم یارخان کو دیکھ لیں کہ یہاں ’’ ایسے ویسے کیسے کیسے ہو گئے اور کیسے کیسے ایسے ویسے ہو گئے ‘‘ ۔ پوچھا جائے کہ یہ دولت کہاں سے آئی ۔ جتنے بھی جرم ہو رہے ہیں ان کے سرپرست سردار ، جاگیردار، تمن دار اور سرمایہ دار اور آج کے نئے جاگیردار ، آباد کار ہیں تو سوال یہ ہے کہ کتنے بڑوں کو سزا ملی ؟ یا کتنے بڑے لوگ ہیں جن کو ماورائے عدالت پولیس نے قتل کیا ؟ اب میں ذکر کروں گا شاکر شجاع آبادی کی شاعری کا ، اس سلسلے میں دو قطعات پیش ہیں ۔ وضاحت کی اس لئے ضرورت نہیں کہ خوشبو اپنا تعارف آپ ہوتی ہے ۔ دغا باز کوں دلربا سمجھی بیٹھن بلا کوں ایہ بالاں دی ما سمجھی بیٹھن خدایا فرشتیں دا رب تی کے رہ ونج مسلمان بش کوں خدا سمجھی بیٹھن ٭٭٭٭٭ بکھ دے پھٹ کوں سیونڑ ڈیوو سکھ دا پانی پیونڑ ڈیوو اساں وی ہیں مخلوق خدا دی ظالم لوکو جیونڑ ڈیوو ٭٭٭٭٭