5فروری کو پاکستان میں یوم یکجہتی کشمیر منایا گیا۔ ملک بھر میں ریلیاں جلسے اور جلوس منعقد ہوئے۔ ساری دنیا میں پاکستانی سفارت خانوں میں بھی سیمینار کئے گئے اور مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا۔حکومتی سطح پر بھی یوم یکجہتی کشمیر منایا گیا اور عوامی سطح پر بھی بھر پور جوش و خروش دیکھنے میں آیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے آزاد کشمیر کی سرزمین سے خطاب کرتے ہوئے کشمیر کے مسلمانوں کے لئے اپنی حمایت جاری کرنے کا اعادہ کیا اور بھارتی حکومت کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا: کہ طاقت کا استعمال کسی مسئلے کا حل نہیں ہے، وزیر اعظم نے کہا :کہ اگر بھارتی حکومت 5اگست کا اقدام واپس لے لے، تو پاکستان اور بھارت دونوں مل کر اس مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔ عمران خان نے ہمیشہ کی طرح یہ وعدہ کیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی تک ہر فورم پر اپنی آواز بلند کرتے رہیں گے۔ انہوں نے نریندرا مودی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :کہ نریندرا مودی ہندو توا کے فلسفے کے پرچار سے الیکشن تو جیت سکتا ہے لیکن یہ فلسفہ بھارت کی شکست و ریخت کی بنیاد بن جائے گا۔ وزیر اعظم نے کہا :کہ کشمیریوں کی منزل اب دور نہیں ہے اور اتنی قربانیوں کے بعد آزادی کشمیر کا سورج طلوع ہو کر رہے گا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی جلسے سے خطاب کیا اور درست طور پر یہ دعویٰ کیا،کہ موجودہ حکومت کی کاوشوں سے مسئلہ کشمیر آج عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے سرد خانے کی زینت بن چکا تھا لیکن آج انسانی حقوق کی تنظیمیں مغربی میڈیا اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل تک اس مسئلے کو پورے خطے کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں ۔ پاکستان اور بھارت کو بات چیت کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں، سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش بھی کی ہے۔ تاہم اس اہم موقع پر پاکستان کی سیاسی جماعتیں انتشار کا شکار نظر آئیں۔ کوٹلی کے جلسے میں وزیر اعظم عمران خان نے ایک طرف تو بھارت کو للکارا لیکن اس جلسے میں بھی وہ پی ڈی ایم کی جماعتوں کا ذکر کرنا نہ بھولے اور انہوں نے پی ڈی ایم کو بڑی سخت وارننگ دی کہ وہ کسی بھی صورت میں کرپشن کرنے والوں کو این آر او نہیں دیں گے، چاہے وہ الٹے لٹک جائیں۔ اس اہم موقع پر اگر وہ صرف کشمیر پر اپنی توجہ مرکوز کرتے تو کتنا اچھا ہوتا، اسی طرح پی ڈی ایم نے بھی قومی یکجہتی دکھانے کی بجائے اپنا علیحدہ جلسہ برپا کیا اور یہ فتویٰ صادر کیا کہ ناجائز حکومت کو کشمیریوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ مولانا نے یہ بھی فرمایا کہ مودی‘ عمران اور ٹرمپ نے مل کر مسئلہ کشمیر تبدیل کیا۔ انہوں نے حکم صادرفرمایا کہ پنجاب اور بنگال کی طرح کشمیر تقسیم نہیں ہو سکتا۔ یادش بخیر جب مولانا 10سال کے لئے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین تھے اور وفاقی وزیر کا درجہ رکھتے تھے۔ کشمیر کا ذکر خیر شازو نادر ہی کرتے تھے۔ کشمیر کے کاز کے لئے یہ جوش و خروش انہوں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دکھایا۔ مسئلہ کشمیر کو سرد خانے کی نظر کرنے میں مولانا کا حصہ بقدر حبثہ ہے۔ اب عمران خان کے بغض میں مولانا حکومت کے کسی مثبت اقدام کی حمایت کرنے پر بھی تیار نہیں ہیں۔ عمران خان کے طرز حکومت سے لاکھ اختلاف کریں لیکن یہ حقیقت ہے کہ جس شدومد سے عمران خان نے مسئلہ کشمیر کو ساری دنیا اور اقوام متحدہ میں اجاگر کیا ہے وہ اس سے پہلے کسی حکومت نے نہیں کیا۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں بھی جب وزیر اعظم بھارت پاکستان تشریف لائے، تو ان کی طبع نازک کا خیال کرتے ہوئے کشمیر ہائوس کے بورڈ تک اتار لئے گئے۔ اسی طرح جناب نواز شریف تو ہمیشہ بھارت سے دوستی کا دم بھرتے رہے ۔ نریندرا مودی‘ جندال اور اجیت دوول ان کی ذاتی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔اس چیز کا بھی خاص اہتمام کیا جاتا تھا کہ ان کے ذاتی مزاکرات کی بھنک کہیں افواج پاکستان کے کان میں نہ پڑ جائے۔ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے بھارتی دہشت گرد اور جاسوس کلبھوشن یادیو کا نام لینے سے بھی وہ کتراتے تھے کہ مبادا ان کے بھارتی دوست ناراض ہو جائیں ۔عمران خان نے تو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جس طرح بھارت کا اصل چہرہ پوری دنیا کو دکھایا تھا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اب بھی نواز شریف کی دختر فرماتی ہیں :کہ جہاں سقوط کشمیر کا ذکر آئے گا، عمران خان کٹہرے میں کھڑا ہو گا۔ خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خِرد۔ جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ یوم یکجہتی کشمیر کو پوری قومی یکجہتی سے منایا جاتا۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک پلیٹ فارم سے دشمن کو للکارتے اور آزادی کشمیر کا مقدمہ پیش کرتے ہوئے ہمارے اندرونی اختلاف جتنے بھی ہوں چند موضوعات ایسے ہونے چاہئیں جن پہ ہمارا قومی موقف سامنے آئے اور دشمن کو یہ موقع نہ دیا جائے کہ وہ ہمارے اندرونی اختلافات سے فائدہ اٹھا سکے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس ماحول کو تشکیل دینے میں اصل ذمہ داری حکومت وقت کی ہوتی ہے۔ جبکہ حکومت اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ پاک فوج کے ترجمان کی یقین دہانی کے باوجود کہ فوج کے کسی سیاسی جماعت سے بیک ڈور رابطے نہیں ہیں اور اسے سیاست میں نہ گھسیٹا جائے‘ پی ڈی ایم کی پوری کوشش ہے کہ فوج کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جائے۔ حیدر آباد کے جلسے میں مولانا نے جو زبان استعمال کی ہے وہ یقینا قابل مذمت ہے۔ وہ فوج سے تو معافی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن وہ اپنی اربوں روپے کی جائیداد کا حساب دینے پر قعطاً تیار نہیں ہیں اور نہ اپنی آمدنی کے ذرائع منکشف کرنے پر راضی۔ مولانا نے جنرل پرویز مشرف کو وردی کے ساتھ الیکشن لڑنے کی حمایت کی اور اس کا معاوضہ وصول کیا لیکن معافی پھر بھی فوج کو ہی مانگنی چاہیے۔ مولانا نے حکومت وقت اور احتساب کے اداروں کو بھی چیلنج کیا ہے کہ کوئی انہیں بلانے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ یہ ثابت کیا جائے کہ قانون کی طاقت سب سے بڑی ہے۔ غریب سرکاری ملازمین کے خلاف بے تحاشا طاقت استعمال کرنے کی بجائے اصل قانون شکنوں کا محاسبہ کیا جائے۔ اگر ن لیگ کے قبضہ گروپوں پر ہاتھ ڈالا جا سکتا تو دوسروں پر کیوں نہیں۔