ویسے تو ماشاء اللہ پاکستان کو مختلف اداروں کے حوالے سے ایسے ایسے حسن کارکردگی کے نہیں حسن کرپشن کے تمغے مل چکے ہیں کہ ان کی مثال نہیں ملتی۔ کیا سٹیل ملز‘ کیا موجودہ پی آئی اے اور اب شنید ہے کہ یہ ’’تھرکول‘‘ منصوبہ بھی مخدوش ہورہا ہے۔ ڈاکٹر ثمر مبارک کی یہ دریافت بھی سنتے ہیں کہ ثمر آور نہیں اور اربوں روپے اس گٹر میں بہا دیئے گئے ہیں۔ صحرائے تھر کے سفر کے دوران مجھے اس منصوبے کے کچھ شواہد دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ ایک نیا شہر آباد ہورہا تھا اور صحرا میں ایک ایسی شاندار شاہراہ تعمیر ہو چکی تھی جس پر بوقت ضرورت ہوائی جہاز اتر سکتے تھے۔ ہمیں نوید سنائی گئی تھی کہ شاید دنیا بھر میں کوئلے اور معدنیات کے اتنے ذخیرے نہیں جتنے تھر کی ریت تلے دفن ہیں اور جب یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچے گا تو اے پاکستانیو تمہاری تقدیر بدل جائے گی۔ اتنی بجلی پیدا ہو گی کہ ہم دنیا بھر کو ایکسپورٹ کردیں گے‘ تب بھی اتنی بچ رہے گی کہ پاکستانیو وہ تمہیں مفت سپلائی کی جائے گی۔ یہ تھے تھرکول کے خواب اور سراب۔ بہرحال یہ تو تھے جملہ ہائے معترضہ جبکہ میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا تھا کہ پاکستان میں ایک اور شعبہ بھی ایسا ہے جس میں ہم شدید پھسڈی ہیں۔ اس پورے خطے میں ہم اس شعبے میں نااہلی کے چیمپئن ہیں اور وہ ہے غیر ملکی ادب اور تحقیق کے ترجمے کا شعبہ۔ آپ ترکی کے کسی بک سٹور میں چلے جائیں ہزاروں کی تعداد میں غیر ملکی کتابوں کے تراجم ترکی زبان میں دستیاب۔ پوری عرب دنیا میں یورپ‘ امریکہ‘ جاپان وغیرہ میں جتنی بھی کتب شائع ہورہی ہیں فوری طور پر عربی میں ترجمہ کر کے کتابوں کے شیلفوں کی زینت بن جاتی ہیں۔ یہی صورت حال ایران میں بھی ہے۔ اس خطے کی سب سے تہذیب یافتہ اور پڑھی لکھی قوم۔ دنیا بھر کا ادب فارسی میں منتقل ہوتا جاتا ہے۔ چین کے سنکیانگ صوبے میں بھی مقامی ایغورر زبان میں ادب کے بڑے بڑے کلاسیک ترجمہ شدہ میسر ہیں اور میں قدرے شرمندہ ہوا جب میں نے ویت نام کے شہر ہنوئی کی ایک بک سٹریٹ میں امریکہ اور یورپ میں شائع ہونے والی اہم کتابوں کے تراجم ویت نامی زبان میں دیکھے۔ یعنی کسی ترک‘ عرب‘ ایرانی‘ ویت نامی کو حاجت ہی نہیں ہے کہ وہ انگریزی‘ فرانسیسی یا ہسپانوی وغیرہ سیکھے۔ سب کچھ ان کی زبان میں ترجمہ شدہ موجود ہے۔ ہم ان خطوں کے واحد ملک ہیں جہاں سرے سے ترجمے کی روایت ہی موجود نہیں۔ چند ایک نایاب دانے ہیں جنہوں نے ترجمے کو ہرزجاں بنایا اور ان میں محمد سلیم الرحمن سرفہرست ہیں۔ پھر شاہد حمید ہیں جنہوں نے روس سے براہ راست ’’وار اینڈ پیس‘‘ کا ترجمہ کیا اور مظفر غفار ہیں جنہوں نے پنجابی کے تقریباً تمام شعراء کا اردو اور انگریزی میں ترجمہ کیا۔ میں نے ماسکو یونیورسٹی میں جتنے بھی لیکچر دیئے ان سب میں ان دو حضرات کا تفصیلی تذکرہ کیا بلکہ مظفر غفار کی ’’بلھے شاہ‘‘ کی دو جلدیں یونیورسٹی کی لائبریری کو پاکستان کی جانب سے تحفے میں پیش کیں۔ اچھا صاحبو مجھے ابھی ابھی خیال آیا ہے کہ میں نے غیر ملکی ادب کے تراجم کے سلسلے میں عرب قوم کا بھی تذکرہ کیا ہے تو ذرا ریکارڈ درست کرلیجئے کہ عربوں سے مراد عراقی‘ شامی‘ لبنانی‘ مصری وغیرہ ہیں‘ سعودی عرب ہرگز نہیں ہے۔ انہیں ان پڑھنے لکھنے والے بیہودہ مشاغل سے کچھ سروکار نہیں‘ ایک تو انہیں ان دنوں یمن کے بچوں کو ہلاک کرنے سے کچھ فرصت نہیں اور اس کے علاوہ ایک جمال نامی صحافی کے ٹکڑے کرنے سے فراغت نہیں۔ جن دنوں سلجوق جدہ میں تعینات تھا تو میں نے فرمائش کی کہ مجھے جدہ کے سب سے بڑے بک سٹور میں لے چلو اور اس سٹور میں سٹیشنری کا سامان زیادہ تھا اور کتابیں کم۔ زیادہ تر مصر میں شائع شدہ ایک مخصوص عقیدے کی مذہبی کتابیں نمائش پر تھیں اور یا پھر کچھ تیسرے درجے کے امریکی ناول تھے۔ بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے نہ صرف جدہ بلکہ سعودی عرب میں روزگار کے سلسلے میں طویل قیام کیا‘ وہ مجھ سے بہتر جانتے ہوں گے۔ عین ممکن ہے کہ سعودی عرب کے بک سٹورز میں بین الاقوامی ادب کی فراوانی ہو جس تک میری رسائی نہ ہو سکی۔ میں برادر حسین احمد پراچہ سے درخواست کروں گا کہ وہ ایک مدت طائف میں معلم رہے ہیں‘ طائف میں میرے رہنما تھے اور مجھے ان کی دعوت کے ذائقے اب تک یاد ہیں۔ وہ اس معاملے میں بھی میری رہنمائی فرمائیں گے۔ اچھا اب اگر اردو میں دنیا بھر میں جو کچھ قابل ذکر تصنیف کیا جارہا ہے ہم تک ترجمہ شدہ نہیں پہنچ سکتا تو اس دوران ہم کیوں نہ دنیا کی مختلف زبانوں کے انگریزی تراجم اور انگریزی میں تحریر کردہ اہم کتابوں کے کچھ حوالے دریافت کرلیں۔ اس سے بہتوں کا تو نہیں کچھ کا بھلا ہو جائے گا۔ یعنی کربھلا سو ہو بھلا۔ میرے سامنے آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر مارٹن گڈمین کی تحقیق کردہ ضخیم کتاب ’’اسے ہسٹری آف جوڈا ازم‘‘ یعنی ’’یہودیت کی تاریخ‘‘ ہے۔ میں بہت دن اس کی بھول بھلیوں میں صرف اس لیے کھویا رہا کہ آخر کار ہم مسلمان کسی حد تک یہودیوں کے سوتیلے بھائی ہیں اور ہم بھی دین ابراہیمی کے پیروکار ہیں تو ذرا دیکھتے ہیں کہ ان کے اور ہمارے ڈانڈے کہاں کہاں ملتے ہیں۔ میں نے یہودیت کی اس تاریخ کو سرسری پڑھا کہ یہ بہت ثقیل اور میرے لیے اکثر اوقات ناقابل فہم تھا۔ ویسے میری ذاتی رائے میں کیرن آمسٹرانگ کی ’’اے ہسٹری آف گاڈ‘‘ اس کی نسبت کہیں بلند پایہ تحقیق ہے۔ آپ اسے بے شک پڑھئے لیکن اگر آپ مذہبوں کے درمیان تقابل کے ایک طالب علم ہیں تو پھر اسے ضرور پڑھئیے‘ بے شک سر میں درد کی شدت ناقابل برداشت ہو جائے۔ فریڈریکو گارسیا لور کی شاعری اور سیاست کے بارے میں سارہ آویو کی کتاب ’’پوئٹ ان سپین‘‘ کے بارے میں‘ میں نے الگ سے دو تفصیلی کالم تحریر کئے تھے جن میں لورکا کی شاعری کے اردو مزاج بھی پیش کئے تھے۔ لورکا ایک شاعر کی حیثیت سے اور اپنے مورش کلچر پر نازاں ہونے کی وجہ سے مجھے بہت عزیز ہے۔ ’’اندلس میں اجنبی‘‘ میں جگہ جگہ اسکی شاعری کی سحر طرازی کے بیانئے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ’’ڈی ونچی کوڈ‘‘ نام کا ایک کسی حد تک جاسوسی ناول ڈان برائون نام کے کسی تب غیر معروف ناول نگار کا شائع ہوا تھا اور اس نے بقول کسے تھرتھلی مچا دی تھی اور کل جہان میں مچا دی تھی۔ اس ناول کی بنیاد پر ہالی وڈ میں فلم بنی اور وہ بھی بہت دیکھی گئی۔ بعدازاں ڈان برائون نے عجیب مذہبی اور خیالاتی منصوبوں سے دو تین مزید ناول تحریر کئے اور ان میں سے ایک میں وہ ثابت کرتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کے ہاں اولاد بھی ہوئی تھی اور ان کی آل کی ایک آخری نشانی سکاٹ لینڈ کے کسی قلعے میں آج بھی موجود ہے۔ اسی ڈان برائون کا ’’تازہ ناول ’’اورجن‘‘ نام کا منظر عام پر آیا ہے۔ اس کی دلچسپی میں کچھ شک نہیں۔ اس کی تاریخی حقیقت میں شک ہی شک ہیں لیکن ڈان برائون کہانی کی بنت کا ماسٹر ہے۔ وہ فریب کے ہنر کا جادوگر ہے۔ پڑھنے والے کو سرابوں سے باندھ کے رکھ دیتا ہے۔ ’’اورجن‘‘ کی کہانی بارسلونا کے مشہور عالم کیتھڈرل جسے گار دی اپنے جینئن نے تخلیق کیا اس کے گرد گھومتی ہے اور جب میں بھی اس کیتھڈرل میں داخل ہوا تھا تو اس کی طرز تعمیر نے مجھے بھی گھما دیا تھا۔ یہ عمارت نہیں‘ خوابوں اور سرابوں کے دھندلکوں میں کبھی ظاہر ہوتی اور کبھی روپوش ہوتی‘ سانس لیتی ہوئی ایک محبوبہ تعمیر ہے۔ کارلو گڈ کا تصنیف کردہ ناول ’’درد کی شدت کا تجربہ‘‘ یا ’’وے ایکسپرینس آف پین‘‘ میری سمجھ میں کم کم آیا تو آپ کی سمجھ میں آنا مشکل ہے۔ البتہ سمون شورز بارٹ کا ناول ’’وے برج بی یانڈ‘‘ میرے لیے کسی ایسی دنیا کی کہانی تھی جس سے میں آشنا نہ تھا۔ یہ بہت اثر انگیز ناول فرانس کے زیرنگیں ایک جزیرے کے سیاہ فام کی درد کی داستان ہے۔ شاید آپ چلی کے ہر دل عزیز کمیونسٹ لیڈر آلینڈے کے نام سے آگاہ ہوں جس نے جمہوری انداز میں ایک الیکشن جیتا۔ چلی کے عوام نے صرف اسے انتخاب کیا اور جونہی اس نے معدنیاتی کانوں پر امریکی اجارہ داری پر ہاتھ ڈالا تو سی آئی اے نے فوری طور پر ایک فوجی انقلاب کا بندوبست کیا۔ آلینڈے ہلاک کردیاگیا اور اس کی جگہ ایک جنرل حکمران ہوگیا اور سی آئی نے اعتراف کیا کہ ہاں ہم نے آلینڈے کو قتل کروایا تھا۔ آپ جانئے امریکی جمہوریت ویزہ کا نام جپتے ہیں لیکن اسے دوسرے ملکوں کے لیے سخت مضر جانتے ہیں‘ بہت الرجک ہیں۔ ماضی میں سی آئی نے مصدق کی ایرانی عوام کی انتخاب کردہ حکومت گرا کر اپنے شاہ جی کو پھر سے تخت پر بٹھا دیا۔ پیٹرس لومبا کو مروا دیا اور صدام حسین اور قذافی تو ابھی کل کے قصے ہیں۔ آلینڈے کے بارے میں اتنی تفصیل صرف اس کے بیان کی گئی کہ چلی کی ایک حال مقیم امریکہ ناول نگار نے جوکہ آلینڈے کی دور پار کی رشتے دار ہے’’ان وے مڈسٹ آف ونٹر‘‘ نام کا ناول لکھا ہے اور اس کا نام ازابیل آلینڈے ہے۔ یہ کوئی خیال انگیز ناول نہیں‘ ایک نیم جاسوسی قصہ ہے کہ کیسے ایک کار کی ڈکی میں ایک عورت کی منجمد لاش پڑی ہے اور کیسے ایک جوڑا اس سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ (جاری) چلی سے ہم منتقل ہوتے ہیں۔ مصر کے التحریر چوک میں جہاں ایک ’’عرب بہار‘‘ جنم لے رہی ہے۔ لوگ آمریت اور بادشاہت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ دانیا کمال کا ناول ’’سگرٹ نمبر سات‘‘ اسی التحریر چوک کے گرد گھومتا ہے۔ ناول بہت معمولی ہے لیکن ’’عرب سپرنگ‘‘ کا موضوع بہت بڑا ہے۔ دانیا اگر مسلمان ہیں تو ہم ان پر بے جا فخر کرسکتے ہیں اگر نہیں تو کھسماں نوں کھائے۔