لاہور ، ملتان( وقائع نگار، اپنے خبر نگار سے ، سٹاف رپورٹر، صباح نیوز) گورنر ہاوس لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے ن لیگ اور پیپلزپارٹی صرف نعرے لگاتی ہیں، دونوں جماعتوں نے ضمنی انتخاب کیلئے اتحاد بھی کیا، اس کے باوجود عوام نے انھیں مسترد کر دیا۔یوسف رضا گیلانی کے بچے نیا فیصلہ کرنے والے ہیں، وہ اب ن لیگ کی طرف جا رہے ہیں۔بلاول پنجاب میں پارٹی کو بحال کر نا چاہتے ہیں تو یوسف رضا گیلانی جیسے لوگوں سے نجات حاصل کریں اور اعتزاز احسن جیسے لوگوں کی باتوں کو غور سے سنیں۔ ایک سوال کے جواب میں شاہ محمود نے کہا گرے لسٹ میں رہنے سے پاکستان کو کم از کم 10 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ہمیں گرے لسٹ سے نکالا جائے لیکن بھارت کی کوشش ہے ہمیں بلیک لسٹ میں دھکیلا جائے ۔ علاوہ ازیں لاہورمیں یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی کے کانووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود نے کہا بھارتی جارحیت کا جواب دینے سے دنیا کو پیغام مل گیا ، دنیا اب ایک بدلتا پاکستان دیکھ رہی ہے ،مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ بھی مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں ۔ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل طور پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے اور دنیا اب ایک بدلتا ہوا پاکستان دیکھ رہی ہے ۔پڑھے لکھے افراد کا بیرون ملک چلے جانا باعث تشویش ہے ۔ گریجوایٹ ہونے والے طلبہ کو دیکھ کر یقین ہوتا ہے کہ یہ نوجوان پاکستان کو وہ مقام دلوائیں گے جس کا خواب قائد اور علامہ اقبال نے دیکھا ہے ۔ نوجوانوں اور اٹھارہ سال کے جوانوں اور سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ سے تحریک انصاف کو اقتدار ملا ۔ دریں اثنا ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادوں سابق ایم این اے علی موسی گیلانی اور ایم پی اے علی حیدر گیلانی نے کہا کہ مفادات کے لئے پارٹی بدلنا شاہ محمود کا وتیرہ ہے ، پیپلز پارٹی چھوڑ کر کہیں نہیں جارہے ۔ پی پی 218 کے ضمنی انتخاب میں سرکاری مشینری اور وزرا نے مہم چلائی۔ شاہ محمود قریشی نے بے بنیاد الزامات لگائے ۔ موسی گیلانی نے کہا شاہ محمود قریشی مسلم لیگ ن کا حصہ تھے بعد میں ٹکٹ نہ ملنے پر انہوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی پھر پیپلز پارٹی بھی چھوڑ گئے اور تحریک انصاف میں چلے گئے ۔ علی حیدر گیلانی کا کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی کو اس مقام تک لانے میں میرے والدیوسف رضا گیلانی کا اہم کردار ہے ۔گیلانی خاندان 3دہائیوں سے پیپلز پارٹی کے ساتھ ہے جبکہ شاہ محمود اپنی گزشتہ تیس سال سیاست پر نظر دوڑائیں کہ انہوں نے کتنی جماعتیں تبدیل کی ہیں۔