اسلام آباد سے سینٹ انتخابات کی جنرل نشست سے سابق وزیرِ اعظم یوسف رضاگیلانی کی جیت ہرگز سادہ معاملہ نہیں ہے۔یہ ایک نشست کی جیت حکومت کے لیے پیچیدہ نوعیت کے چیلنجزکا دروازہ کھو ل کر رکھ دے گی۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جیسے ہی یہ اعلان ہوا کہ یوسف رضا گیلانی نے ایک سو اُنہتر ووٹ حاصل کیے ،تو ساتھ ہی نئے انتخابات کی بحث جنم لے اُٹھی۔گویا حکومت ایک نشست پر شکست کے بوجھ کو سہنے پر اس قدر کمزور ثابت ہوئی کہ اس کے خلاف نئی فضا قائم ہوتی چلی گئی۔ آخرحکومت اس قدر کمزور کیوںکہ ایک نشست پر شکست کا بوجھ سہارنے سے معذورہو؟اس پہلو پر پی ٹی آئی حکومت اور وزیرِ اعظم عمران خان کو بہت سنجیدہ غوروفکر کی ضرورت ہے۔ یہ کون لوگ تھے ،جنھوں نے اپنا ووٹ یوسف رضاگیلانی کی جھولی میں ڈالا؟ پی ٹی آئی کومذکورہ سوال سے زیادہ اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اِن ووٹرز نے ایسا کیوں کیا؟ اگر وزیرِ اعظم عمران خان یہ راز ، ووٹرزنے ایسا کیوں کیا؟پا لیتے ہیںتو پی ٹی آئی کے لیے اپنے اقتدار کی مُدت کو مکمل کرنا سہل ہوسکتا ہے اور اگلے انتخابات میں بھی آسانی پیدا ہوسکتی ہے۔ مخالف پلڑے میں ووٹ ڈال کر اپنی جماعت اور پی ٹی آئی کی حکومت کو ندامت کے گڑھے میںکیوں اُتارا گیا؟ دوہزار اَٹھارہ کے عام انتخابات سے سینٹ انتخابات تک ،وزیرِ اعظم عمران خان کا اندازِ سیاست یہ واضح کرتا ہے کہ جو لوگ اپنا حلقہ ٔانتخاب رکھتے ہیں ،وہ شاید وزیرِ اعظم کے لیے زیادہ اہم نہیں ہیں۔اس کی مثال وزیرِ اعظم کی کابینہ کی دی جاسکتی ہے ،جس میں ایسے لوگ اہم ہیں ،جو حلقہ ٔ انتخاب نہیں رکھتے۔کیامنتخب اور غیر منتخب لوگ یکساں ہوسکتے ہیں؟ ہرگذ نہیں،اُن کے سوچنے اور عمل کرنے کا انداز ایک جیسا نہیں ہوسکتا۔ اُن کی وابستگیاں بھی ایک جیسی نہیں ہو سکتیں ۔ حلقہ ٔانتخاب رکھنے والے لوگوں پر ایک طرح سے عوام کی ذمہ داری ہوتی ہے ،اگرچہ وہ اس ذمہ داری کے احساس سے نابلد ہی کیوں نہ ہوں ،لیکن وزیرِ اعظم کی کچن کابینہ میں غیر سیاسی لوگ اپنا ایسا کوئی اسٹیک نہیں رکھتے ،جیسا حلقہ ٔ انتخاب والے رکھتے ہیں۔ غیر سیاسی لوگ جذباتی ہوتے ہیں ،یہ صورتِ حال کے معروضی پہلو اور امکانات سے آگاہی نہیں رکھتے ،یہ بلند بانگ دعوئوں اور مخالف لوگوں پر کیچڑ اُچھالنے کے عمل کو سیاسی کامیابی کے لیے ضروری سمجھتے ہیں ،چونکہ یہ وزیرِ اعظم کے قریب ہوتے ہیں تو یہ خود کو بہت اہم اور فیصلہ ساز گردانتے ہیں ، نتیجہ جس کا یہ نکلتا ہے کہ وزیرِ اعظم سیاسی حرکیات کو بھانپنے سے معذور رہتے ہیں ۔کیا شہبازگِل اور ندیم افضل چَن کے سوچنے اور چیزوں کے بارے نکتہ نظر رکھنے کا معیار یا زوایہ نگاہ یکساں ہو سکتا ہے؟کیا ندیم افضل چَن جیسے سیاسی ورکر غیر سیاسی سوچ رکھنے والے لوگوں کے ساتھ زیادہ عرصہ تک رہ سکتے ہیں ؟ برداشت کی ایک سطح تک تو معاملہ چلتا ہے ، مگر پھر سیاسی و غیر سیاسی سوچ رکھنے والوں کے راستے جُدا ہوجاتے ہیں۔اسلام آباد کی جنرل نشست پر مقابلے کو سیاسی و غیر سیاسی افراد کے مابین مقابلے کے طورپر بھی دیکھاجانا چاہیے۔ سیاسی محاذ پر آنے والے چیلنجز کا مقابلہ سیاسی سطح پر کیاجاتا ہے۔ اِن چیلنجزکو سیاسی ٹیم ہی سمجھ سکتی اور ان سے نمٹ سکتی ہے۔ جو حکومت دوہزاراَٹھارہ میں سیاسی جوڑ توڑ کے نتیجے میں قائم ہوئی اور جن لوگوں کی کوششوں سے ایسا ممکن ہوا،وہ لوگ آج پی ٹی آئی سے یا تو دُور ہو چکے ہیں ۔ سیاسی معاملات کوسیاسی سطح پر سلجھانے کی صلاحیت رکھنے والے جہانگیر ترین کی جب پارٹی کو ضرورت نہ رہی تو پھر پیچھے کیا رہ جاتا ہے؟ اگر سینٹ انتخابات کے دوران پی ٹی آئی کو جہانگیر ترین میسر ہوتے اور وزیرِ اعظم کی کچن کابینہ میں سیاسی لوگ اہم سمجھے جاتے تو اسلام آباد کی سیٹ کانتیجہ مختلف ہوسکتا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے اقتدار کے اس عرصہ میں پارلیمنٹ میں اپنی حاضری کو کتنا یقینی بنایا؟اپنے کتنے ایم این ایز سے ملاقاتیں کیں؟پھر وزیرِ اعظم کی جانب سے حلقہ ٔ انتخاب رکھنے والوں میں بھی امتیاز کا روّیہ روا رکھا گیا۔ فیصل واوڈا وزیرِ اعظم کے قریب رہتے ہیں ،جبکہ بعض ایم این ایز اور پارٹی کے اہم لوگ ملاقات کو ترستے رہتے ہیں ۔ سینٹ انتخابات میں ٹکٹ کی تقسیم نے دوسری پارٹیوں کی نسبت پی ٹی آئی کے اندر توڑ پھوڑ زیادہ تھی ۔علاوہ ازیں وزیرِ اعظم کے ہاں پائے جانے والے تضادات بھی مخالف سیاسی پارٹیوں کے بیانیہ کو مضبوط کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ جب وزیرِ اعظم نے سینٹ انتخابات میں کسی اُمیدوار کی کامیابی کے پیچھے پیسے کی کارفرمائی کے تاثر کو قائم کروانے اور سیاسی و سماجی حلقوں میں اپنا پیغام پہنچانے میں کامیابی سمیٹی تو ساتھ ہی انتہائی مالدار لوگوں کو سینٹ کے ٹکٹ جاری کردیے۔ سماجی سطح پر جب ایسے لوگوں کے انتخا ب پر بحث اُٹھی تو وزیرِ اعظم کی جانب سے سینٹ انتخابات میں کامیابی کے لیے پیسے کی کارفرمائی کا تاثر کمزور پڑتا چلا گیا ۔ اس تضاد نے حزبِ اختلاف کی پارٹیوں کے لیے سپیس پیدا کردیا۔ دوہزار تیرہ کے انتخابات کے بعد عمران خان کی بدولت ملکی تاریخ میں پہلی بار بھرپورطریقے سے دھاندلی ایک قومی مسئلہ بن کر سامنے آئی تھی،لیکن ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں دھاندلی کو مسئلے کے طورپر اُس طرح نہیں لیا گیا ،جیسے پہلے لیا جاتا تھا۔ یہ تضادات جب عمران خان کو روایتی طرز کے سیاست دان کے رُوپ میں سامنے لاتے ہیں تو حلقۂ انتخاب رکھنے والے لوگ بہت دُو رکی سوچ میں پڑجاتے ہیں۔ حلقہ ٔ انتخاب رکھنے والے لوگوں کی کئی سیاسی مجبوریاں ہوتی ہیں ،کئی کمٹمنٹس ہوتی ہیں اور متعدد ضرورتیں ہوتی ہیں ،ہماری سیاست کا ڈھب ایسا ہی ہے اور اس سے مفر ممکن نہیں ۔ لہٰذا جب ایسے لوگوں کو پارٹی اور حکومت کے اندر کوئی ریلیف نہیں ملتا تو وہ اپنی رائے اور وابستگی میں تبدیلی لانے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ یوں ہم ایسے لوگوں کو مکمل طورپر قصورواراور بے وفا نہیں قراردے سکتے۔