23مارچ کو ہر سال یوم قراردادِ پاکستان کی مناسبت سے اہم تقریبات منعقد ہوتی ہیں ، گزشتہ سال کورونا کے باعث تقریبات نہ ہو سکیں ،پورا سال گزرنے کے باوجود کورونا کے اثرات اب بھی باقی ہیں جس کے باعث اس سال بھی محدود تقریبات ہوئیں ۔دُعا ہے کہ خداوند کریم پوری دنیا کو کورونا عذاب سے نجات دلائے۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ 23 مارچ اہل وطن کیلئے قومی اہمیت کا حامل دن ہے۔ اسی دن لاہور میں علیحدہ وطن کیلئے قرارداد منظور کی گئی جوکہ بعد میں قرارداد پاکستان کے نام سے موسوم ہوئی ۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ قومی تہوار تجدید عہد کے طور پر منائے جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں سب کچھ رسمی طور پر ہوتا ہے۔ اگر ہم نے ہر سال قرارداد کے مقاصد پر غور کیا ہوتا اور عمل کی کوئی صورت نکالی ہوتی تو آج پاکستان دو لخت نہ ہوتااور ہم اپنے ہی گھر میں بد ترین دہشت گردی کا شکار نہ ہوتے ۔ آج فتویٰ فروشوں کا کاروبار مندا ہوا ہے تو پاکستان کے حقیقی محب وطن افراد کی طرف سے سوالات اُبھر کر سامنے آ رہے ہیں جن کے جوابات پوری دنیا کے غیر جانبدار مبصرین کے ساتھ ساتھ ہر محب وطن پاکستانی کی ضرورت بھی ہیں کہ اس سے پاکستان کی تاریخ کو درست سمت دینے میں مدد ملے گی۔ اگر خدانخواستہ سابقہ ادوار کی طرح سوال گندم جواب چنا آتا رہا تو یہ کسی بھی لحاظ سے پیارے وطن پاکستان کی خدمت نہ ہو گی ۔ 23مارچ 1940 ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسویں اجلاس ہوا جس کی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح نے کی، اس اجلاس میں قرارداد منظور کی گئی ۔ جگہ پر یادگار بنانے کا فیصلہ ہوا۔ 1960 ء میں ’’ پاکستان ڈے میموریل کمیٹی ‘‘ قائم کی گئی ، بائیس رکنی اس کمیٹی میں معروف صوفی شاعر صوفی غلام مصطفی تبسم بھی شامل تھے، یادگار کو روسی نژاد ترک مسلمان مرات خان نے بنایا، اس کی بلند ی196 فٹ ہے، مینار پاکستان پر 19 تختیاں نصب ہیں، اردو ، انگریزی زبان میں قرارداد لاہور کا متن درج ہے، اس میں خودمختار ریاستوں کے الفاظ شامل ہیں ۔ ان ریاستوں کا مطلب صوبے تھے مگر بدقسمتی سے ماضی میں صوبوں کو اختیارات اور خود مختاری تو کیا دینا تھی صوبے ختم کر کے ون یونٹ بنایا گیا ۔ لاہور میں بنائی جانیوالی یادگار کے لفط ’’ یادگار ‘‘ پر اعتراض ہوا کہ یادگار تو ختم ہو جانے والی چیز کی ہوتی ہے ، پاکستان زندہ ہے، اس کی یادگار بنانا کونسی دانشمندی ہے ؟اعتراض کے بعد اس کو ’’ مینار پاکستان ‘‘ کا نام دیا گیا لیکن اکثر آج بھی اسے یادگار ہی کہتے ہیں، جب یادگار بنائی جا رہی تھی تو بنگالی سیاستدانوں کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اگر لاہور میں مسلم لیگ کے ایک اجلاس کی یادگار بنائی جا رہی ہے اور کثیر سرمایہ خرچ کیا جا رہا ہے تو اس طرح کی ایک یادگار مشرقی پاکستان میں بھی بنائی جائے جہاں 1906 ء میں مسلم لیگ کی بنیاد ڈالی گئی لیکن ان کی بات کسی نے نہ سنی ۔ سندھ سے بھی یہ آواز آئی کہ قرارداد لاہور سے قبل سئیں جی ایم سید نے سندھ اسمبلی سے تین سال قبل متفقہ طور پر قرارداد منظورکرائی لیکن اس کی کوئی یادگار نہیں بنائی گئی ۔ یوم قرارداد پاکستان کے موقع پر جہاں قوم کو یکجہتی کی ضرورت ہے وہاں دہشت گردی ، انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے ثقافتی پاکستان کی ضرورت ہے۔ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں بسنے والے تمام لوگوں کو برابر حقوق ملیں۔ ہمسایہ ملک بھارت میں 188 زبانیں اور ساڑھے پانچ سو بولیاں بولی جاتی ہیں۔ ان میں سے بڑی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ حاصل ہے۔ اسی طرح پاکستان میں 76 کے قریب زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہیں یہاں بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ زبانیں جو نصابی اہلیت کے حامل ہیں انہیں قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے۔ یوم پاکستان کے موقع پر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سابقہ غلطیوں کو پھر سے نہ دہرائیں۔ قیام پاکستان کے وقت اردو کو قومی زبان قرار دینے کے منفی نتائج سامنے آئے اور ہم مشرقی پاکستان سے بھی محروم ہوئے۔ اب اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم حقائق کو تسلیم کریں اور پاکستانی زبانوں کو اُن کے حقوق دیں۔ اردو کے ساتھ ساتھ پاکستانی علاقائی زبانوں کی تدریس بھی اس کی حق دار ہے۔ پاکستانی زبانوں پنجابی، سرائیکی، سندھی، پشتو، پوٹھو ہاری، ہندکو، بلتی شینا، پروشسکی، پہاڑی، دری، کوہستانی، کشمیری، گوجری، بلوچی اور براہوی وغیرہ کے تدریسی پہلو کو پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا۔ کسی بھی تہذیبی اور ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنے کے لئے مقامی زبانوں کو محفوظ کرنا ضروری قرار دیا جاتا ہے۔ سندھی کے بعد اب پشتو کسی حد تک عمومی تدریس نصاب کا حصہ بنی ہیں۔ بلوچی، سرائیکی اور کشمیری پنجابی اور سرائیکی کہیں کہیں خاص تدریس میں شامل ہیں۔ باقی علاقائی زبانوں کے سیکھنے اور سکھانے کے حوالے سے کافی مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ بہت سی علاقائی زبانیں صرف بول چال کا حصہ ہیں اور ان کا رسم الخط اور بنیادی گرامر کا کہیں وجود نہیں ملتا جو کہ ان کی بقاء کے لئے خطرناک ہے۔ علاقائی زبانوں کی ثقافت بھی خطرے میں ہے کہ ہمارے دیہی علاقوں سے شہروں میں ہجرت کرنے والے لوگ زیادہ تر اردو انگریزی کا سہارا لیتے ہیں اور ان کی آنے والی نسلیں اپنی علاقائی زبان اور ثقافت کو نہیں سیکھ پاتیں۔ اس طرح ایک زبان موت کاشکار ہو جاتی ہے۔ کیونکہ قوم اور زبان کا جام و مینا جیسا ساتھ ہوتا ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ انحطاط پذیر ہو تو دوسری منفی اثرات سے محفوظ رہ سکے کیونکہ زبان بھی دوسرے کوائف و مظاہر کی طرح اس قوم کے اخلاقی، معاشرتی، ثقافتی اور عرفانی انحطاط کی ترجمان ہوتی ہے۔آخر میں یہ سرائیکی وسیب کے لوگوں کی پاکستان کیلئے بہت خدمات ہیں وسیب کے لوگ مایوس نہیں ہیں۔ وہ نئی صبح اور نئی سحر کا انتظار کر رہے ہیں ۔ امید ہے کہ سرائیکی وسیب کے لوگوں کو ان کی شناخت اور ان کا صوبہ ضرور ملے گا کہ یہ سرائیکی وسیب کے کروڑوں افراد ہی نہیں پاکستان کی ضرورت بھی ہے ۔