یوم پاکستان کی پریڈ میں دوست ممالک کے وفود کی بھرپور شرکت سے پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات میں فروغ پاتی گرم جوشی ظاہر ہوئی ہے۔ چین، سعودی عرب، ترکی، آذربائیجان اور سری لنکن وفود نے مرکزی پریڈ میں شرکت کی۔ ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد پریڈ کے مہمان خصوصی تھے۔ وطن واپس روانہ ہوتے وقت جناب مہاتیر محمد نے پاکستان کو اہم مشورے دیئے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے احکامات کسی ملک کے معاشی حالات میں اصلاح کی بجائے بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی ملک کی قیادت بدعنوان ہو تو کرپشن سے نمٹنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پاکستان نے اپنے قیام کے فوری بعد عالمی سطح پر توجہ حاصل کر لی تھی۔ بھارت جسے ہندوستان کی قدیم تاریخ، ورثہ اور شناخت کی وراثت ملی تھی اس کے مقابلے میں کئی گنا چھوٹا نیا ملک اپنی بقا کے لیے جدوجہد کر رہا تھا۔ مستزاد یہ کہ چند ماہ کے بعد ہی بھارت نے جنگ شروع کر دی۔ پاکستان نے وسائل کی کمی اور بھارت سے حجم میں چھوٹی فوج ہونے کے باوجود بھرپور مقابلہ کیا۔ مقبوضہ کشمیر کے بہت سے علاقے آزاد کرا لیے گئے۔ پاکستان نے دوسری جنگ عظیم کے بعد تشکیل پانے والے نئے بین الاقوامی نظام میں اس وقت اہمیت اختیار کر لی جب اس نے سوویت یونین کی جگہ امریکہ کا اتحادی بننا پسند کیا۔ یورپ، امریکہ اور ایشیا میں سرد جنگ نے ایک تقسیم پیدا کی۔ امریکہ کے اتحادی ممالک سوویت بلاک کی جانب سے کارروائیوں سے سہمے رہتے تھے۔ پاکستان نے مغربی بلاک کی مدد کی اور اس مدد کے نتیجے میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا۔ پاکستان نے اسی دوران تامل عسکریت پسندوں سے پریشان دوست ملک سری لنکا کی مدد کی۔ خطے کے دو اہم مسلح تنازعات پاکستان کی مدد سے طے پائے۔ پاکستان کو عالمی فورمز پر بھارت کی مخالفت اور سازشوں کا ہمیشہ سامنا رہا مگر اس کے باوجود ہر بحران میں پاکستان سرخرو رہا۔ یقینا ذوالفقار علی بھٹو کی خارجہ پالیسی کی وجہ سے پاکستان مسلم دنیا کا لیڈر بن کر ابھرا۔ نائن الیون کے واقعات نے پاکستان کو نئے انداز کی آزمائش میں مبتلا کیا۔ کئی دوست ممالک حریف بن گئے، حریفوں کو سازشیں کامیاب کرنے کا موقع مل گیا اور پاکستان کو خطے میں عسکریت پسندی پھیلانے کا تنہا قصوروار قرار دیا جانے لگا۔ 2001ء سے 2019ء تک کا یہ سفر مشکلات سے بھرا ہوا تھا۔ اس دوران سیاسی سطح پر دانشمندانہ فیصلوں کا کال رہا۔ بھارت نے پہلے افغانستان پھر ایران اور اس کے بعد عرب امارات میں پاکستان کے مقابلے میں اثرورسوخ پیدا کر لیا۔ سابق حکومت نے چار برس تک ملک کو وزیر خارجہ کے بغیر چلایا۔ دنیا میں یہ تاثر گہرا ہوا کہ پاکستان سفارتی طور پر تنہا ہو چکا ہے۔ اس تاثر نے سفارتی و سیاسی مشکلات کے ساتھ ساتھ اقتصادی مسائل بھی دوچند کر دیئے۔ جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے نتائج نے پاکستان کے لیے امید پیدا کی۔ سب سے پہلا چیلنج سابق حکومتوں کے زمانے میں لیے گئے قرض کی واپسی تھا۔ زرمبادلہ کے ذخائر قرض اور سود کی واپسی میں خرچ ہو رہے تھے۔ برآمدات میں اضافہ نہیں ہو رہا تھا اور درآمدات بڑھتی جا رہی تھیں۔ یہ وہ صورتحال تھی جس کی طرف جناب مہاتیر محمد نے اشارہ کیا ہے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں جب معاشی مشکلات میں گھرے کسی ملک کے پاس ان سے رجوع کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔ پاکستان کی نئی حکومت کے رابطہ کرنے پر آئی ایم ایف نے حسب دستور سخت شرائط کے ساتھ قرض دینے پر رضا مندی ظاہر کی۔ وزیر اعظم عمران خان نے دانشمندی کا مظاہرہ کیا اور ایسے موقع پر ان دوست ممالک سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا جن سے تعلقات سرد مہری کا شکار ہو رہے تھے۔ برادر ملک سعودی عرب کے دو دوروں کے نتیجے میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پاکستان تشریف لائے اور 20ارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط کئے۔ متحدہ عرب امارات نے 3ارب ڈالر کا اکائونٹ پاکستان کو دیا۔ دیرینہ دوست چین نے بھی مدد کی۔ عالم اسلام کے دو بڑے رہنمائوں ترک صدر رجب طیب اردوان اور مہاتیر محمد سے مشاورت کی گئی۔ وزیر اعظم خود ملائیشیا گئے اور بزرگ مدبر مہاتیر محمد کو دورہ پاکستان کی دعوت دی۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے مدد لئے بغیر کامیاب معیشت کا ایسا ماڈل تیار کیا ہے جس کا انحصار کلی طور پر داخلی وسائل پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1998ء میں جب جاپان اور کوریا جیسی ایشیائی طاقتیں معاشی بحرانوں میں گھری ہوئی تھیں ملائیشیا بے فکر تھا۔ پاکستان کو ملائیشین ماڈل کی معیشت سے رہنمائی لینے کی ضرورت ہے۔ ایک اہم سٹریٹجک پوزیشن کے حامل ملک کے طور پر پاکستان کو عالمی سیاست میں مختلف کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ یہ کردار کئی بار عالمی اداروں کو پاکستان کے خلاف اقدامات پر تیار کر سکتا ہے۔ خصوصاً آئی ایم ایف میں امریکہ اور بھارت کے ووٹ زیادہ ہونے کی وجہ سے پاکستان سے ایسی اصلاحات کا مطالبہ کیا جاتا ہے جس سے عوام اور ریاست کا باہمی تعلق کمزور ہو۔ 23مارچ کی پریڈ میں دوست ممالک کی شرکت نے تعاون اور دوستی کے نئے راستوں کی نشاندہی کی ہے۔ دنیا کے سامنے پاکستان کا بیانیہ زیادہ معقول اور منطقی حیثیت میں آ رہا ہے۔ پاکستان مسلح تنازعات کو پرامن انداز میں طے کرنے کی بات کر رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششوں پر زور دے رہا ہے اور امن و استحکام کو معاشی ترقی کی بنیاد قرار دے رہا ہے۔ بین الاقوامی برادری پاکستان کے ساتھ مل کر عالمی امن کا خواب پورا کرنا چاہتی ہے۔23مارچ کی تقریبات میں دوست ممالک کی بھرپور شرکت نے ثابت کیا ہے کہ سفارتی اور سیاسی تنہائی ختم ہو رہی ہے اور پاکستان جلد معاشی مشکلات سے آزاد ہوا چاہتا ہے۔