افغانستان میں بھارت کو سخت ہزیمت کا سامنا ہے اسی بناء پر وہ اُس نے پروپیگنڈہ کی توپوں کا رخ پاکستان کی طرف کیا ہو ا ہے مگر دنیا جانتی ہے کہ بھارت نے افغانستان کی سر زمین کو سالہا سال تک پاکستان کے خلاف استعمال کیا۔ پاکستانی قوم نے کل بھی ہر طرح کی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے مقابلہ کیا اور آج بھی مقابلے کیلئے تیار ہے۔ پچھلے دنوں یوم دفاع اور یوم فضائیہ جو ش و خروش کیساتھ منایا گیا اور پاک فوج کے کارناموں کو یاد کیا گیا۔ 7 ستمبر یوم فضائیہ ہے ۔ پاکستان کی فضائی افواج نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں جو کارنامے سر انجام دیئے ، یہ دن اسی کی یاد میں منایا جاتا ہے ۔ جنگ کی یادیں تازہ کرنا چاہتا ہوں ، اس کے ساتھ یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ 7 ستمبر یوم ختم نبوت بھی ہے کہ اس دن مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کے بعد اقلیتوں کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہئے تھا مگر اضافے کی بجائے کمی آئی ہے ، کیوں؟ اس صورتحال پر ارباب اختیار کو غور کرنا چاہئے کہ غیر مسلم اقلیتیں بھی پاکستان کی شہری ہیں اور ملک و قوم کیلئے ان کی خدمات بھی اہمیت کی حامل ہیں۔ یوم دفاع کے حوالے سے یاد آیا کہ ملک کے اہم ادارے پاک فوج میں اقلیتی افراد بھی خدمات سر انجام دیتے ہیں ، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاک فوج میں مذہب کی بنیاد پر فرق نہیں ، پاک فوج کے چند اہم عہدیداروں میں ونگ کمانڈر میرون لیزلی مڈل کوسٹ، اسکواڈرن ولیم ہارلے ، کائی زاد سپاری والا ، سیسل چوہدری ،رئیر ایڈمرل لیسلی فورمن ، ڈاکٹرکیلاش دلدادہ ، میجر ہر چرن سنگھ ، کیپٹن دانش، رئیل وائس مارشل مائیکل جون ،ائیر کموڈ نذیر لطیف ،اسکواڈرن لیڈر پیٹر کرسٹی نے پاک فوج میں بہت اعلیٰ خدمات سر انجام دیں ، اس کے علاوہ بہت سے نام ہیں ان کی بھی بہت خدمات ہیں ۔ پاک فوج کی جرأت، بہادری اور ڈسپلن کو پوری دنیا سمجھتی ہے۔ 1965ء کی جنگ کے حوالے سے کچھ یادیں تازہ کرنا چاہتا ہوں ، مگر اس سے پہلے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ خانپور سے آپ رحیم یارخان کی طرف جائیں تو8 کلومیٹر کے فاصلے پر دھریجہ نگر کے نام سے ایک قصبہ آتا ہے ، اس کی تاریخ صدیوں پرانی ہے، دھریجہ برادری کے لوگ سندھ کے حملہ آور حکمران ارغون سے لڑتے ہوئے یہاں پہنچے۔ پہلے اس بستی کا نام بستی دھریجہ تھا، آبادی بڑھنے پر دھریجہ نگر ہوا۔ یہی میری جنم بھومی اور میرا گھر ہے ۔دھریجہ نگر قدیم دینی مدرسے کے حوالے سے علم کا گہوارا مگر 1980ء کے عشرے تک بستی میں نہ سڑک نہ سولنگ اور نہ ہی کوئی سکول ۔ سیدھا سادہ دیہاتی ماحول ،میرے ابا حضور مسجد میں بچے پڑھاتے اور ساتھ ہی کریانہ کی ایک چھوٹی سی دکان کھول رکھی تھی ، میری عمر پانچ سال کے لگ بھگ ہو گی ۔ اپنے ابا حضور سے ملتانی قاعدے کا سبق پڑھتا اور ابا سئیں کے ساتھ دوکان پر بھی بیٹھتا ۔ ہماری دوکان سے زمیندار کے ٹو اور غریب لیمپ کا سگریٹ لیتے تھے ۔ ہمارے ایک قلمکار غلام یٰسین فخری تھے ۔ بستی کے ان پڑھ ان کو یٰسین فقری کے نام سے پکارتے ،وہ سگریٹ نہ لیتے مگر وہ ہم سے لیمپ کی خالی ڈبی لیکر اسے قینچی سے کاٹتے اور ڈبی پر طبع شدہ لیمپ یعنی لالٹین کی تصویر بکسوئے کے ساتھ جیب پر لگاتے اور فاطمہ جناح زندہ باد کہہ کر آگے چل پڑتے ۔ یہی ان کا روز کا معمول تھا ۔ مجھے کچھ علم نہ تھا ، دوسرے لوگوں کے پوچھنے پر میرے ابا حضور بتاتے کہ لالٹین محترمہ فاطمہ جناح کا انتخابی نشان ہے ۔ ایوب خان نے دھاندلی سے فاطمہ جناح کو ہرایا ہے ۔ ہمارے گائوں کے نامور صحافی اور سرائیکی رسالہ سچار کے ایڈیٹر غلام یاسین فخری محترمہ فاطمہ جناح کے حامی تھے اور ایوب خان کو سخت نہ پسند کرتے تھے۔ 1965ء کی جنگ کے بعد اُن کو کہا گیا کہ ایوب خان جیت گیا ہے اب تم فاطمہ جناح کا انتخابی نشان لالٹین اتار دو۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ جنگ ایوب خان نے نہیں بلکہ پاک فوج اور نور جہاں نے جیتی ہے۔ وہ نور جہاں کے ملی نغمے ’’اے پتر ہٹاں تے نی وکدے‘‘ سے بہت متاثر تھے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ’’یادِ ماضی عذاب ہے یا رب ، چھین لے مجھ سے حافظہ میرا ‘‘ کے مصداق مجھے یاد ہے کہ پاک بھارت جنگ کے دوران بھارتی طیارے آئے اور خانپور ریلوے اسٹیشن اور دوسری جگہوں پر بمباری کی مگر پاکستانی فوج کے طیاروں نے ان کو مار بھگایا ۔ ہماری بستی میں سخت دینی ماحول تھا ، میرے نانا حضور مولانا یار محمد دھریجہ جو درگاہ دین پور شریف کے بانی حضرت مولانا خلیفہ غلام محمد دین پوری کے مرید ، مولانا عبید اللہ سندھی کے ساتھی اور مولانا عبداللہ درخواستی کے ہم مکتب تھے ، بستی میں کسی کو ریڈیو نہ سننے دیتے ۔ ماماں خان محمد دھریجہ نے اپنی دکان پر کالے رنگ کی باڈی والا فلپس کمپنی کا ایک ریڈیو رکھا ہوا تھا ۔ ایک دن کہا گیا کہ جنگ شروع ہے ،صدر ایوب خان آج قوم سے خطاب کریں گے ۔ اس دن ماما ںخان محمد کی دوکان پر پوری بستی جمع تھی اور میرے نانا حضور جو ریڈیو کو حرام قرار دیتے اور ریڈیو نہ چلانے دیتے ، سب سے پہلے آئے بیٹھے تھے ۔ برادری کے سردار جام خان دھریجہ جن کا ایک وقار تھا اور وہ پبلک مقامات پر کم دکھائی دیتے، وہ بھی سب کے ساتھ بیٹھے تھے ۔ خطاب سے پہلے لوگ باتیں کر رہے تھے کہ ہندوستان نے لاہور پر حملہ کر دیا ہے ، اس وقت کم عمری کی وجہ سے مجھے تاریخ کا علم نہ تھا ،اب معلوم ہوتا ہے کہ غالباً 5 اور 6 ستمبر1965ء کی درمیانی رات کی بات تھی ۔ ایوب خان نے مختصر خطاب میں دشمن سے ہر محاذ پر جنگ کرنے کا اعلان کر دیا ۔ اس وقت بستی کے تمام افراد نے نعرہ تکبیر اللہ اکبر، پاکستان زندہ باد، پاک فوج زندہ باد کے نعرے بلند کئے ۔