ارشادِرب العزت ہے ۔ترجمہ:بے شک (حضرت) عیسیٰ (علیہ السلام) کی مثال اللہ کے نزدیک آدم( علیہ السلام) کی سی ہے ، جسے اُس نے مٹی سے بنایا پھر(اِسے ) فرمایا:’ہوجا‘ وُہ ہوگیا۔ (اُمّت کی تنبیہ کے لئے فرمایا)یہ تمہارے رب کی طرف سے حق ہے ،پس شک کرنے والوں میں سے نہ ہوجانا۔پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)کے پاس علم آجانے کے بعد جو شخص عیسیٰ(علیہ السلام ) کے معاملے میں آپ سے جھگڑا کرے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)فرمادیں کہ آجائو ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں، پھر ہم مُباہلہ (یعنی گڑگڑا کر دعا ) کرتے ہیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجتے ہیں۔(آل عمران: 59تا61) حضورنبی ٔکریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت اقدس میں9ہجری میں نجران (یمن) سے عیسائی عُلما کا وفد مدینہ منورہ میں حاضر ہوا اور آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہونے کے بارے میں بحث شروع کی۔ حافظ عمادالدین (ابن کثیر) دمشقی اپنی تفسیر میں اِن آیات کے تحت بہت تفصیل سے اور متعدد طرق سے اُن روایات کو بیان کرتے ہیں ، ابن اسحاق اپنی سیرت کی کتاب میں لکھتے ہیں کہ نجران کے عیسائیوں نے بطور وفد حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں اپنے ( 60) ساٹھ آدمی بھیجے تھے جن میں (14)چودہ اُن کے سردار تھے جن کے نام یہ ہیں ،’’عاقب ‘‘جس کالقب عبدالمسیح تھا’’سید ‘‘جس کالقب ایہم تھا ،’’ ابوحارثہ بن علقمہ‘‘ جو بکر بن وائل کا بھائی تھا اور’’ اوث بن حارث ‘‘،زید،قیس، یزید،اور اُس کے دولڑکے اور خویلد،عمرو،خالد،عبداللہ اور محسن یہ (14)چودہ سردار تھے پھر اِن میں دو بڑے سردار تھے ۔’’عاقب‘‘ جوامیر قوم اور عقل مند سمجھا جاتا تھا اور صاحبِ مشورہ تھا اور اس کی رائے پر یہ لوگ مطمئن ہوتے تھے ’’ سید‘‘ جو ان کا بڑا پادری تھا اور بڑ ا عالم بھی سمجھا جاتا تھا یہ بنو بکر بن وائل کے عرب قبیلے میں سے تھا لیکن نصرانی بن گیا تھا اور رومیوں کے ہاں اس کی بڑی آؤ بھگت تھی اس کے لئے انہوں نے بڑے بڑے گرجے بنا دیئے تھے اور اس کے دین کی مضبوطی دیکھ کر اس کی بہت خاطر مدارت اور خدمت و عزت کرتے رہتے تھے یہ شخص حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان و صفات سے واقف تھا اور اُن کی کتابوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صفات ِ کاملہ کے تذکرے پڑھ چکا تھا ۔دل سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نبوت کا قائل تھا مگر نصرانیوں (عیسائیوں ) میں جو اس کی تعظیم و تکریم تھی اور وہاں جو جاہ و منصب اُسے حاصل تھا اُس کے چھن جانے کے خوف سے راہِ حق کی طرف نہیں آتا تھا ۔غرض یہ وفد مدینہ منورہ میں رسول ِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں حاضرہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُس وقت نمازِ عصر سے فارغ ہوکر بیٹھے ہی تھے کہ یہ لوگ نفیس ریشمی پوشاکیں پہنے ہوئے اور خوب صورت نرم چادریں اوڑھے ہوئے تھے ۔ ایسے معلوم ہوتا تھا ،جیسے بنو حارث بن کعب کے خاندان کے لوگ ہوں ۔ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم کہتے ہیں کہ اِن کے بعد اِن جیسا شان وشوکت والا وفد کوئی نہیں آیا ۔اُن کی عبادت کا وقت ہوا تو اُنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اجازت سے مشرق کی طرف مُنہ کرکے مسجد ِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں اپنے طریق پر نماز ادا کرلی ۔اپنی عبادت سے فراغت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے اُن کی گفتگو شروع ہوئی ۔اُدھر سے بولنے والے یہ تین شخص تھے ،حارثہ بن علقمہ عاقب یعنی عبد المسیح اور سید (ایہم) یہ گوشاہی مذہب (عیسائیت) پر تھے مگر باہم کچھ اُمور میں اختلاف کرلیتے تھے ۔حضرت ِ عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت ان کے تین خیال تھے 1۔یعنی وُہ خود خدا ہے ۔2۔خدا تعالیٰ کا بیٹا ہے ۔3۔یا تین میں سے تیسرا ہے (معاذاللہ ،اللہ تعالیٰ اِن کے اِس ناپاک قول سے مبّرا ہے اور وہ بہت ہی بلند و بالا ہے ) ۔ جب جنابِ رسول ِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے نجران کے عیسائی علما ء کو مُباہلے کی دعوت دی اور یہ آیت اُنہیں سُنائی تو اُنہوں نے مہلت مانگی پھر وہ تنہائی میں جمع ہوئے اور یہودیوں (بنو نضیراور بنو قریظہ) سے بھی مشورہ کیا تو اُنہوں نے کہا عیسائیو!تم پہچان چکے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سچے رسول ہیں اگر تم نے اِن سے مباہلہ کیا تو سب ہلاک ہوجائو گے ۔ اگر اپنا دین بچانا چاہتے ہوتو مُباہلہ نہ کرو گھر لوٹ جائو ،یہ وہی نبی ہیں جن کی خبر توریت میں ہے ،یہ مشورہ کرنے کے بعد یہ لوگ وقتِ مقرّرہ پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمتِ اقدس میں پہنچے ۔اُدھر نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس طرح تشریف لائے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی گود میں سیدنا اما م حسین علیہ السلام اور دستِ مبارک حضرت امام حسنِ مجتبیٰ علیہ السلام نے تھاما ہوا ہے اور حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا و حضرت مولا علی المرتضیٰ علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پیچھے ہیں اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُن سے فرمارہے ہیں کہ جب میں بددُعا کروں توتم سب آمین کہنا۔ یہ گویا پنجتن ِ پاک تھے ۔اُدھر عیسائیوں کے سردار نے اِن حضرات کو دیکھ کر کہا کہ اے عیسائیو! میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے پہاڑ ہٹانے کو کہیں تو اللہ تعالیٰ اِن کی دُعا سے پہاڑکو اپنی جگہ سے ہٹا دے گا ۔خدا کے لئے اِن سے مباہلہ نہ کرو ،ورنہ قیامت تک روئے زمین پر کوئی نصرانی باقی نہ رہے گا۔چنانچہ وہ معذرت خواہ ہوکر جزیہ دینا قبول کرکے واپس چلے جاتے ہیں ،جِسے رحمۃللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے شانِ رحمت کے سبب سے قبول فرمالیا۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:مجھے اپنے پروردگار کی قسم نجران والوں پر عذاب قریب آگیا تھا اگر وہ مُباہلہ کرتے توبندر،سؤر بن جاتے اور اُن کا جنگل آگ سے بھڑک اُٹھتا اور نجران کے چرند پرند تک نیست ونابود ہوجاتے ،بلکہ ایک سال کے اندر اندر روئے زمین پر کوئی بھی عیسائی زندہ نہ رہتا ۔تفسیر کبیر میں ہے اِس واقعہ کے بعد ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی چادر مبارک میں لے کر اِن نفوس ِ قدسیہ کو دُعا کی تھی،’’یا اللہ یہ میرے اہلِ بیت ہیں اُنہیں خوب پاک فرمادے۔