دنیا کشمیر کو بھول چکی تھی اور اقوام متحدہ بھی بات کو گول کر گیا تھالیکن جب کشمیر ی مسلمانوں نے اپنے خون جگر سے اس مسئلے کو زندہ کر دیا تو دلی نے کشمیریوں کی آواز کو دبانے کے لیے ریاستی جبر و تشدد کے بدترین حربے استعمال کرنا شروع کر دئیے کشمیر میں بد نام زمانہ ظالمانہ ایکٹ نافذ کر کے کشمیری مسلمانوں کے اجتماعی قتل کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ خانہ سوزی،عقوبت خانوں کے تشدد ، خواتین سے دست درازی ، چھاپوںاورگرفتاریوں کے ذریعے کشمیریوں کی نسل کشی کی مہم شروع کی گئی ۔ ایسے مشکل حالات میں پاکستان کے بہادر عوام کشمیریوں کی آوازبنے اورانہوںنے اپنے کشمیری بھائیوں کو تنہا چھوڑنے کی بجائے ان کی حمایت کا نعرہ مستانہ بلند کیا اور اسی نعرہ مستانہ کا نام ’’یوم یکجہتی کشمیر‘‘ہے ۔ یہ بات کسی شک اور شبہ سے بالا تر ہے کہ پاکستان اور کشمیر کے مابین جسم و جان کا رشتہ ہے اور یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر پر وقار اور باعزت زندگی گزار سکتے ہیں ۔ جہاں اس رشتے کی اساس میں دو قومی نظریہ کا عظیم فلسفہ موجود ہے وہاں پاکستان کی اقتصاد ی زندگی کشمیر سے پھوٹ پڑنے والے چشموں اور دریائوں کی رہین منت ہے ۔ تاریخ یہ باب رقم کر چکی ہے کہ اسلامیان پاکستان کا کشمیری مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی محض نعروں ، قراردادوں ، تقریروں تک محدود نہ رہا بلکہ پاکستانی قوم نے اپنے بہترین سپوت "جہا د کشمیر "میں شامل کر دئیے ۔مشہور مایہ ناز جہادی کمانڈر اکبر بھائی کی شرکت سے پاکستانی بیٹوں کی کشمیر آمد شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں مہمان مجاہدین کی شرکت سے کشمیر معرکہ آرائیوں سے گونج اٹھااور اس گونج کے نتیجے میں سرد خانے کی نذر کیا گیا کشمیر ایک بار پھر عالمی منظر پر چھا گیا۔دنیاوی لحاظ سے خوبصورت کیر ئیر ، پر آسائش زندگی اور اہل خانہ کا قرب یہ سب رعنائیاں ترک کر کے ملت کے یہ بیٹے کشمیر میں اپنی گردنیں کٹواتے رہے ۔سلام ہوان مائوں کو جنہوں نے اپنے جگر گوشوں کو "محمد بن قاسم" بننے کی ترغیب دی اور وہ تعلیمی اداروں ، سرکاری دفاتر اور کھیل کے میدانوں سے نکل کر وادی خو ن رنگ کشمیر میں داخل ہوتے چلے گئے ۔ انہیں مال و متاع سے غرض تھی نہ نام و نمود سے انہیں کشمیر کی داخلی سیاست سے دلچسپی تھی نہ ان کا مطمع نظر دنیا کا حصول تھا ۔ وہ گلہ گو خواتین کے سروں پر آنچل رکھنا چاہتے تھے یہ اپنے کشمیری نوجوانوں بھائیوں کی مدد اور انکا بھر پور تعاون چاہتے تھے یہ بھارتی فوجیوں کی گولیوں سے نہتے ہجو م کو بچا کر انہیں اپنے سینوں پر سہنا چاہتے تھے ۔ شومئی قسمت9/11 کے فوراً بعد پاکستان کے حکمران خوف زدہ کر دئیے گئے جس کے باعث 6جنوری 2004ء میں اعلانِ اسلام آباد کے ذریعے پرویز مشرف نے کشمیر پر نہ صر ف پس قدمی اختیار کی بلکہ انہوں نے غیر متوقع طور پر یہ تسلیم کر لیا کہ وہ آزاد کشمیر سے کسی کو بھی جموں و کشمیر میں داخل نہیں ہونے دینگے۔ بھارت کو جنگ بندی لائن پر خار دار باڑ لگانے کی بھی اجازت دے دی گئی جو عملاً اس بات کا برملا اعتراف تھا کہ پاکستانی حکمران مسئلہ کشمیر سے دستبردار ہو رہے ہیں بھار ت یہی چاہتا تھا کہ کوئی ایسی سبیل نکل آئے کہ جس سے تحریک مزاحمت کشمیر دم توڑ جائے ۔ المیہ یہ ہے کہ صرف پاکستانی حکمرانوں نے ہی کشمیر سے دستبرداری اختیار نہیں کی بلکہ پاکستان کے بعض مغرب مزاج دانشور تقسیم برصغیر کو سرے سے ایک غلطی قرار دینے لگے اور وہ ایڑی چوٹی کا زور اس پر لگا رہے ہیں کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان بین الاقوامی سرحد کا بھی خاتمہ ہوجانا چاہیے ۔ حالانکہ ان لوگوں کے علم میں ہے کہ لاکھوں جانیں قربان ہوئیں اور بھاری قیمت چکانے کے بعد پاکستان معرض وجود میں آیا ۔ پاکستانی حکمرانوں کی کشمیرپالیسی اور پاکستان میں موجود ڈالروں پر پلنے والی این جی او ز کے تیور دیکھ کر عوامی سطح پر پاکستان سے کشمیر تک مایوسی کی لہر نظر آرہی ہے ۔ جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے اس وقت سے مقبوضہ کشمیر کے عوام بھارت کے غیر آئینی وغیر قانونی تسلط کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں، کشمیریوںکی یہ جدوجہد آئینی بھی ہے اور عالمی سطح پر محکوم عوام کے حق خودارادیت کے اصولوں کے عین مطابق بھی۔ اب تک مقبوضہ کشمیر کے عوام کی بے مثال جدوجہد کے نتیجہ میں جہاں آج یہ مسئلہ زندہ ہے، وہیں کشمیری عوام اپنے حق خودارادیت سے کبھی بھی دستبردار نہیں ہوں گے۔ نریندرمودی اگرسمجھتا ہے کہ طاقت کے بہیمانہ استعمال اور دس لاکھ بھارتی قابض فوج کی موجودگی میں مقبوضہ کشمیر کے بہادر اور غیور عوام اپنی جدوجہد سے کنارا کش ہوجائیں،یہ غلط سوچ اوراپروچ ہے۔یہی سوچ واپروچ گانگریس کی حکومت بھی اپناچکی ہے لیکن دنیانے دیکھ لیاکہ کشمیری بھارت کی فوجی قوت کے سامنے سپرانازنہ ہوسکے۔ طاقت وتشدد کے استعمال سے کبھی بھی کسی قوم کو مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام نے اپنی موجودہ تحریک کے ذریعہ یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے بلکہ بہیمانہ طاقت کے استعمال کی وجہ سے بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنی اخلاقی، آئینی اور قانونی ساکھ ختم کر چکا ہے، اس ساکھ کو قائم رکھنے کے لئے وادی میں مخلوط حکومت کی سربراہ محبوبہ مفتی بھی اس مسئلہ کو حل کرنے میں ناکام نظر آہی ہیں، ہر چند کہ ان کی ہمدردیاں کشمیری عوام کے ساتھ ہیں، لیکن سیاسی مجبوریوں اور اقتدار کی چمک نے ان کے ضمیر کو بھی سلا دیا ہے۔تحریک آزادی کشمیر کو تیز تر کرنے کیلئے کشمیر کی لیڈر شپ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ گہرے ایمان،دقیق تنظیم اورپیہم جدوجہد کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا دیں۔ اب حیرانگی اور گم گشتگی کی تاریکی سے نکل کر ملت کشمیر کی از سر نو شیرازہ بندی اور صف بندی پر کمر بستہ ہونا از بس ضروری بن چکا ہے ۔ آج ہی یہ طے کرنا ہو گا کہ جب صورتحال یہ ہو کہ اہل پاکستان اپنے زخم بھول کرکشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں توخود کشمیریوں پر کشمیر کی آزادی کے لئے کتنی ذمہ داری بڑھ رہی ہے ۔آزادی کی نعمت سے بہر ور ہونے کیلئے اہل کشمیر کو مزید صبر و عزیمت اور بے پناہ جہد مشقت درکار ہے اہل کشمیر کو صاف بتانا ہو گا کہ انکی راہ میں پہلے کی طرح پھر بہت سی گھاٹیاں آئیں گی اور پھر ہوش ربا حالات کا انہیں سامنا کرنا ہوگا۔