یوکرائن دنیا کے خوبصورت ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ رقبے کے لحاظ سے یہ یورپ کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ دارالحکومت ،کِیو، کے بیچوں بیچ ایک بہت بڑا دریا گزرتا ہے جو کیو کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ دوسرے شہروں میں تو پارک ہوتے ہیں لیکن کیو کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ شہر ایک پارک میں واقع ہے۔ دریائے ڈینپرو کو سیاحوں اور مقامی آبادی کی دلچسپی کے لئے نہایت خوبصورتی سے استعمال کیا گیا ہے۔ اس دریا میں ایک سمندر کی طرح جہاز رانی ہوتی ہے اور اس کے کنارے پر اعلیٰ پائے کے ریستوران اور کیفے بنائے گئے ہیں ۔کئی ریستوران بحری جہازوں کے اندر بنائے گئے ہیں جو سیاحوں کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ۔ ایک جگہ پر تو اس دریا کی چوڑائی اتنی زیادہ ہے کہ اسے Kyiv Seaکہا جاتا ہے اور اس کے کنارے پر چلتے ہوئے اس کے سمندر ہونے کا ہی گمان ہوتا ہے۔ اس دریا کا پانی اتنا صاف اور شفاف ہے کہ حیرت ہوتی ہے ،خاص طور پر پاکستانی لوگوں کو جو اس کا مقابلہ اپنے دریائوں سے کرتے ہیں۔ پاکستانی نوجوانوں کو یہ جان کر شاید حیرت ہو کہ آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے پاکستان کے دریا اور نہریں بھی صاف شفاف ہوا کرتی تھیں۔ نہروں کے پانی کو پینے کے قابل سمجھا جاتا تھا اور محکمہ انہار کے اہلکار یہ بات یقینی بناتے تھے کہ کوئی نہر اور دریا کے پانی کو آلودہ نہ کر سکے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے نومبر 2018ء سے نومبر 2020ء تک یوکرائن میں سفیر کی حیثیت سے پاکستان کی نمائندگی کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران پاکستان کی فارن سروس کو بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میں بلا خوف تردید یہ کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کی موجودہ فارن پالیسی بہترین خطوط پر چل رہی ہے۔ ترقی پذیر ملک ہونے کے باوجود پاکستان کے سفارتکاروں کا ایک اپنا تشخص ہے اور انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اپنی مالی مشکلات کے باوجود پاکستان نے کسی حد تک Reciprocityکا اصول اپنایا ہوا ہے۔ بڑے عرصے کے بعد پاکستان نے عرب ممالک کو بھی اپنے آزاد ہونے کا احساس دلایا ہے۔ وقتی طور پر شاید پاکستان کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے لیکن دور اندیشی کا یہی تقاضا ہے کہ ہم اپنے قومی مفاد کو ترجیح دیں اور دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ Reciprocityکی بنیاد پر تعلقات قائم کریں۔ ہمارے سامنے کی بات ہے کہ ہم نے امریکہ کی شدید ترین خوشامد کرنے کے باوجود ہمیشہ Do moreکے احکامات سنے۔ خدا کا شکر ہے کہ آج ہم نسبتاً آزادی کے ساتھ اپنے دوستوں کا چنائو کرتے ہیں اور Do Moreکے الفاظ بھی کافی عرصے سے نہیں سنائی دیے۔ یوکرائن کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اچھے ہیں لیکن بہتری کی کافی گنجائش موجود ہے۔ پاکستان کی پالیسی کی ایک کمزوری یہ ہے کہ ہم نئے دوستوں کی تلاش کم ہی کرتے ہیں ہمیں دنیا کی بڑی طاقتوں اوراپنے ہمسایوں سے فرصت ہی نہیں ملتی کہ ہم نئے امکانات کی تلاش کر سکیں۔ اگرچہ نعرے بہت لگائے جاتے ہیں ۔ہم نئی منڈیاں تلاش کر رہے ہیں اور اب ہم دور دراز کے ممالک میں اپنی برآمدات بڑھائیں گے۔ لیکن عملی طور پر اس سمت میں کام ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ صرف خطوط لکھ دینے سے تو برآمدات میں اضافہ نہیں ہو سکتا۔ مثال کے طور پر پچھلے دو سال میں دفتر خارجہ کے کسی بھی سطح کے افسر نے یوکرائن کا دورہ نہیں کیا اور اگر بڑی سطح کے وفود کا دیکھا جائے تو پچھلے دس سال سے کسی بڑے وفد نے یوکرائن کا دورہ نہیں کیا۔ جہاں تک ان دوروں کی ضرورت کا تعلق ہے تو قارئین کو حیرانگی ہو گی کہ کوئی دس بارہ معاہدے ڈرافٹ کی صورت میں ہمارے دفتر خارجہ میں منظوری کے منتظر ہیں اور اتنے ہی ڈرافٹ معاہدے یوکرائن کے دفتر خارجہ کی توجہ کے منتظر ہیں۔ جب تک دونوں طرف سے وفود کا تبادلہ نہیں ہو گا اور ان معاہدوں کو حتمی صورت نہیں دی جائے گی برآمدات و درآمدات کا سلسلہ بڑھ نہیں سکتا۔ جب تک حکومتی معاہدے کاروباری لوگوں کی آمدو رفت اور ادائیگی کے طریقوں کو آسان نہیں بناتے اس وقت تک کاروبار کی توقع رکھنا خام خیالی ہی ہو سکتی ہے۔ دفتر خارجہ کے بعض حلقوں میں یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ شاید یوکرائن کے ساتھ تعلقات بڑھانے سے روس کے ساتھ ہمارے بڑھتے ہوئے تعلقات متاثر ہوں گے۔ میری ناقص رائے میں آج کل کے ماحول میں یہ تاثر بالکل غلط ہے۔ اگر یوکرائن سے ٹینک اور دیگر دفاعی سامان خریدنے پر ہمارے تعلقات متاثر نہیں ہوتے تو یوکرائن کو چاول اور کپڑا برآمد کرنے میں روس کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ یوکرائن پاکستان کے لئے چاول‘ کپڑے ،کینو اور آم کی برآمد کے لئے ایک بڑی منڈی بن سکتا ہے جبکہ پاکستان یوکرائن سے سٹیل‘کھانے کا تیل‘ گندم اور ہر طرح کی مشینری مناسب داموں خرید سکتا ہے۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب ہم دونوں ممالک کے درمیان ویزہ اور ٹیکس سے متعلق معاملات کو معاہدوں کے ذریعے حتمی شکل دیں اور وہ اسی وقت ممکن ہو گا جب ہمارے درمیان وفود کی آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہو گا ایک بات خاصی حوصلہ افزا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی کاروبار جاری و ساری ہے۔ دفاعی وفود کا تبادلہ بھی معمول کی کارروائی ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس کاروبار کو وسعت دیں اور اس کے لئے لازم ہے کہ ہم دفتر خارجہ کی سطح پر وفود کا تبادلہ کریں اور جو معاہدات سرد خانے میں پڑے ہوئے ہیں انہیں جلد از جلد پایہ تکمیل تو پہنچائیں تاکہ پاکستان کے عام تاجر آسانی سے یوکرائن جا سکیں اور اپنے لئے برآمدات کی نئی منڈی تلاش کر سکیں۔ تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھی یوکرائن ایک اچھی اور سستی جگہ ہے۔ یوکرائن سے میڈیکل کی ڈگری حاصل کرنا شاید پاکستان کی نسبت سستا ہے۔ پاکستان کے تقریباً چار سو طالب علم یوکرائن میں زیر تعلیم ہیں۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ انڈیا کے طلباء کی تعداد تقریباً بارہ ہزار ہے۔ اس وجہ سے انڈیا کا اثرونفوذ بڑھ رہا ہے۔ اگر ہمارا دفتر خارجہ ویزہ کا معاہدہ مکمل کر سکے تو ہمارے طلباء کی تعداد بھی ہزاروں تک پہنچ سکتی ہے۔ اس سے نہ صرف ہمارے میڈیکل کالجوں پر دبائو کم ہو گا بلکہ ہزاروں طلباء پاکستان کی نسبت کم فیس میں ڈاکٹر بن سکیں گے۔ موجودہ صورت حال میں ہمارے بہت سے طلباء یوکرائن میں پاکستانی ایجنٹوں کی معرفت جاتے ہیں اور یہ ایجنٹ انہیں دھوکہ دیتے ہیں ، انہیں مالی مشکلات کا شکار کر دیتے ہیں۔ اگر یہی کام حکومتی سطح پر کیا جائے تو یہ عام طلباء کے لئے بڑا سودمند ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہزاروں طلباء جو یہاں کے میڈیکل کالجوں میں چند نمبروں سے داخلہ حاصل نہیں کر سکتے وہ یوکرائن سے تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اور اپنے ملک واپس آ کر ملک کی خدمت کر سکتے ہیں یا پاکستان کے لیئے قیمتی زرمبادلہ کما سکتے ہیں۔ روزنامہ 92نیوز کے لئے یہ میرا پہلا ہے۔ انشاء اللہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا رہوں گا۔