25 جولائی کے عام الیکشن میں کیا ہوا تھا، سب کو پتہ ہے، گزشتہ روز کے ضمنی الیکشن نے اسی پر مہر لگائی ہے۔ سب سے خاص حلقے دو تھے اور دونوں لاہور کے تھے اگرچہ دونوں کی وجوہات الگ الگ تھیں۔ شاہد خاقان عباسی کی جیت اس لیے اہم تھی کہ نوازشریف کی تاحیات در تاحیات نااہلی کے بعد وہ مسلم لیگ کا نیا اقتداری چہرہ بن کر آئے تھے۔ انہیں دارالحکومت کی نشست سے موسمیاتی لہروں کے ذریعے ہروا دیا گیا تھا اور تحریک انصاف ان کی اسمبلی میں آمد سے خوفزدہ تھی، اب یہ خوف بڑی حد تک مستقل ہو گیا ہے۔ ایک حد تک ٹلنے کا امکان موجود ہے کہ غداری وغیرہ کے مقدمات میں تحریک انصاف کی امید بر آ سکتی ہے۔ ان کی اسمبلی میں آمد اس لیے بھی اہم ہے کہ مسلم لیگ کے پاس کوئی قائد نہیں ہے اور عباسی قائد نہ بنیں تب بھی قائد کی کمی خاصی حد تک پوری کردیں گے۔ مسلم لیگ کے پارلیمانی لیڈر شہبازشریف جیل میں ہیں لیکن وہ رہا ہو جائیں تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کی ایوان میں موجودگی عدم موجودگی برابر ہے۔ بطورحکمران وہ زبردست تھے، بطور سیاستدان تہی دست۔ بہرحال شاہد خاقان نے قیادت کا خلا پر کر دیا ہے۔ مسلم لیگ کے لیے اچھی خبر ہے۔ سعد رفیق کے حلقے کا الیکشن سب سے اہم تھا اور اس کی بھی دو وجہ تھیں۔ ایک چھوٹی وجہ یہ کہ مقابلے پر ہمایوں اختر صرف تحریک انصاف کے امیدوار ہی نہیں تھے، موسمیاتی لہروں کی عزت کا سوال بھی تھے۔ دوسری بڑی وجہ یہ کہ سعد رفیق، نوازشریف کے بعد، سب سے ناپسندیدہ، نہایت مغضوب، بے انتہا مقہور نام تھے۔ عجیب اتفاق کی بات ہے کہ جب سی پیک شروع ہوا تو اسی کالم میں لکھا تھا کہ اب نوازشریف کی خیر نہیں اور جب یہ خبر آئی کہ سعد رفیق نے ریلوے کی بوگیاں بڑھا دی ہیں، ڈبل ٹریک پر کام شروع کردیا ہے، خسارے میں کمی آئی ہے اور ایک دو برانچ لائنیں بھی بحال کرنے کا ارادہ ہے تو اسی کالم میں ان کی بھی خیر نہ ہونے کی خبر دے دی گئی تھی اور پھر وہی ہوا، نوازشریف کو نشان عبرت بنا دیا گیا اور سعد فریق نشاط عبرت بننے سے بس ایک ’’سوتر‘‘ کی کمی سے بچ گئے۔ الیکشن سے پہلے ان کے ساتھ کیا کیا نہیں ہوا۔ ادارہ جاتی غیظ و غضب کا بادل جس طرح ان پر رہ رہ کے برسا، وہ ماضی قریب کی نہیں ’’حال رواں‘‘ کی بات ہے اور اب بھی وہ سونامی کی زد میں ہیں۔ نیب میں ان پر مقدمہ ابھی چلا نہیں، چلتا بھی کیسے، ابھی ریفرنس تک نہیں بنا، الزامات کی بنا کچھ واضح شکل نہیں لیکن سننے میں آرہا ہے کہ ان کے لیے ’’سزائیں‘‘ پہلے ہی ’’لوح محفوظ‘‘ پر محفوظ کرلی گئی ہیں۔ انہوں نے جو الیکشن جیتا ہے تو ادارہ جاتی شیروں کے منہ سے نوالہ چھین کر جیتا ہے۔ پہلے تو ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈالا گیا، پھر خبریں چلائی گئیں کہ وہ آج کل میں گرفتار ہونے والے ہیں۔ ان افواہوں کے بعد بھلا کتنے لوگ انہیں ووٹ ڈالنے نکلتے؟ ووٹر کو یہ پکا ہو جائے کہ وہ جسے ووٹ دینے والے ہیں، وہ تو نمائندگی کے دن اسمبلی نہیں، جیل میں گزارے گا تو وہ اپنا ذہن چاہے نہ بدلے، پولنگ کے دن گھر سے نکلنے کا ارادہ ضرور بدل دیتا ہے۔ پھر ان کے ورکر گرفتار کرنے کی مہم چلی۔ پولنگ کی رات عجیب تماشا رہا۔ اس سے پہلے دن بھر ان کے کئی کارکن پکڑے جاتے رہے۔ رات کو جب 200 پولنگ سٹیشنوں پر وہ جیت چکے تو باقی کے 42 پولنگ سٹیشنوں کے نتائج روک لیے گئے لیکن سعد رفیق نے دو چار ہزار کارکن اکٹھے کرلیے اور سڑک پر جم گئے۔ موسمیاتی لہریں آخر بارہ بجے پلٹ گئیں اور ’’کڑوا گھونٹ‘‘ پی لیا اور لگ بھگ دس ہزار ووٹوں سے ان کی جیت کا اعلان کردیا گیا۔ ٭٭٭٭٭ یہ تو سب سے اہم حلقہ تھا، سب سے دلچسپ حلقہ کراچی کا تھا جہاں پی ٹی آئی کا امیدوار 35 ہزار ووٹ لے کر جیت گیا۔ یہ حلقہ ووٹوں کے اعتبار سے بہت بڑا ہے۔ چار لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ ووٹر اس حلقے میں ہیں۔ضمنی الیکشن میں اوسط پولنگ 30 تا 40 فیصد ہوتی ہے۔ 30 فیصد بھی مانے جائیں تو سوا لاکھ سے زیادہ ووٹر نکلنے چاہئیں۔ کراچی میں ضمنی الیکشن کے دوران بھی پولنگ پچاس فیصد رہتی ہے۔ یوں یہاں دو لاکھ سے زیادہ ووٹر نکلنے چاہئیں تھے لیکن تحریک انصاف کے 35 ہزار ووٹ لے کر جیتی۔ کیا لندن والے بھائی صاحب کے بائیکاٹ کی اپیل کا جادو اتنا طاقتور ہے؟ ویسے نئی حلقہ بندیوں میں یہ حلقہ خصوصی طور سے تحریک انصاف کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ ٭٭٭٭٭ دفتر خارجہ نے وضاحت کی ہے کہ ہم سی پیک پر کوئی نظر ثانی نہیں کر رہے۔ قطعی غیر ضروری وضاحت ہے۔ کسی نے بھی دفتر خارجہ پر نظرثانی کرنے کا الزام نہیں لگایا اور وہ نظرثانی کا مجاز ہی کب ہے۔ جو مجاز ہیں وہ نظرثانی کربھی چکے، اس کا اعلان بھی ہوگا۔ وزیراعظم کا بیان بلکہ بیانات غالباً دفتر خارجہ کی نظر سے نہیں گزرے۔ 2014ء سے جو کہانی شروع ہوئی تھی، اس کا خلاصہ آئی ایم ایف کے مطالبات میں سامنے آ گیا ہے۔ اس چار سالہ کھیل کے ضمنی مقاصد کئی تھے لیکن بنیادی مقاصد دو ہی تھے، ایک سی پیک کا خاتمہ، دوسرا اٹھارہویں ترمیم کا خاتمہ اور دونوں مطالبات آئی ایم ایف کے شرائط نامے میں سمو دیئے گئے ہیں۔ سی پیک پر تو اس نے براہ راست اشارہ دیا۔ 18 ویں ترمیم پر بالواسطہ۔ کہا کہ صوبوں کا مالیاتی حصہ کم کیا جائے۔ ہمارا اور ان کا ہدف ایک ہے، بس یہی ساری کہانی ہے۔ آئی ایم ایف اور امریکہ ہمارے ہی کہنے پر یہ نکتہ اٹھا رہے ہیں کہ سی پیک کی وجہ سے پاکستان کی مالیات دبائو میں ہے اور قرض ادائیگی میں مشکل اسی وجہ سے ہے۔ کتنا بڑا جھوٹ انہوں نے گھڑا ہے۔ چین کے قرضوں کی واپسی 2022ء سے ہونی ہے یعنی چار سال بعد، آئی ایم ایف کا پروگرام تین سال کے لیے ہے۔ ارے بھائی، تیر پہلے سیدھا کرلو، پھر چلائو۔ ٭٭٭٭٭ ویب اخبار ایشیا ٹائمز کی ایک دلچسپ تجزیاتی تحریر نظر سے گزری۔ خلاصہ یہ ہے کہ سابق حکومت کے دور میں ملکی ترقی کی شرح ستر سال میں سب سے زیادہ رہی، افراط زر پر قابو پایا گیا، تمام اشاریئے مثبت تھے۔ پھر اس حکومت کا دھڑن تختہ کیوں کیا گیا؟ تجزیہ تو اپنی جگہ، سوال پر لطف ہے۔ بھئی دھڑن تختہ اسی لیے تو کیا گیا کہ تمام اشاریئے مثبت کیوں ہیں۔ اسی حوالے سے بعض تجزیہ کاروں کی اس لعن طعن کا جواب بھی موجود ہے جو وہ موجودہ حکومت کی ’’تباہ کاری‘‘ پر کرتے ہیں اور اسے حکومت کی نااہلی قرار دیتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ عالمی شہرت یافتہ صحافی جمال خاشقجی کا مبینہ قتل سعودی عرب کے گلے پڑ گیا ہے۔ امریکہ اور ترکی کے پاس وہ ویڈیو آ گئی ہے جس میں جمال کو سعودی اہلکار تشدد کے بعد مشینی آرے سے ٹکڑے کر رہے ہیں اور جمال کی دردناک چیخوں سے قونصل خانہ لرز رہا ہے۔ یہ ویڈیو منظر عام پر نہیں لائی گئی ہے، صرف ترک اور امریکی مجاز حکام نے اسے دیکھا ہے۔ اس صحافی کے مبینہ قتل پر احتجاج کرنے والے پانچ عرب شہزادے بھی لاپتہ کر دیئے گئے ہیں۔ امریکی سینٹ کے بعض ارکان نے سعودی عرب پر پابندیاں لگانے کی تجویز دی ہے۔ اس پر تو شاید عمل نہ ہولیکن مغربی سرمایہ کاروں نے سعودیہ میں 23 اکتوبر سے ہونے والی سرمایہ کاری کانفرنس کا بائیکاٹ کر دیا ہے جو بڑا دھچکا ہے۔ سعودی سٹاک میں بھی مندا آ گیا ہے۔ ترکی سے سعودیہ کے تعلقات بھی ’’مثالی کشیدگی‘‘ کی سطح پر آ گئے ہیں۔