کائنات کا رب فرمارہا ہے: ’’ برابر نہیں ہوتااندھا اور دیکھنے والا۔ نہ برابر ہوتا ہے اندھیرا اور اُجالا‘‘۔ایک ہوتی ہے بصارت اور ایک ہوتی ہے بصیرت۔ سیاست پر ہر کس و ناکس بحث میں مصروف ہے۔ واقعات پر بھی اور شخصیات پر بھی۔ معلومات پر بھی اور نتائج پر بھی۔ گرد خاصی اُڑ رہی ہے۔ عرض کرتا رہتا ہوں پاکستان ایک ڈیپ سٹیٹ ہے۔ یہ بھی کہ جو ہور رہا ہوتا ہے اس کے دھاگے کہیں اور ہوتے ہیں۔ اس وقت ہمارے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر ہمارے بھائی لوگ کیا بحث کر رہے ہیں؟ اسد عمر کو کیوں نکالا؟ پہلے کیوں نہ نکالا؟ اب کیوں نکالا؟ کیا فواد چودھری کا متبادل فردوس عاشق اعوان ایک درست فیصلہ ہے؟ وزیر اعظم ہائوس میں وہ کون سا قلیل گروپ ہے جو اس قدر مؤثر ہے؟ کیا پنجاب اور خیبرپختونخواہ بھی تبدیلیوں کی زد میں ہیں؟ عثمان بزدار کو کون تحفظ دے رہا ہے؟ کیا انہیں ہٹانے سے قاف اور نون کے ستارے آپس میں مل سکتے ہیں؟ چودھری پرویز الٰہی اور گورنر محمد سرور آپس میں کیوں رنجیدہ ہیں؟ کیا طارق بشیر چیمہ کی جگہ مونس الٰہی لینے والے ہیں؟ کیا حمزہ شہباز اور مونس الٰہی میں پس پردہ پیغام رسانی چل رہی ہے؟ پنجاب میں کون سا نیا ’’گورننس ماڈل‘‘ متعارف کروایا جارہا ہے جس سے کسی بڑی ٹوٹ پھوٹ سے بچ کر گورننس کو بہتر بنایا جاسکتا ہے؟ کیا پنجاب کے نئے چیف سیکرٹری اور مرکز کے پرنسپل سیکرٹری مل کر پنجاب کے تمام ’’وار لارڈز‘‘ کو مطمئن کرسکیں گے؟ پنجاب کے پولیٹکل پریشر ککر میں کیا پک رہا ہے؟ کیامرکزی کابینہ میں تبدیلیوں اور نئی تعیناتیوں نے عمران خان کو سیاسی طور پر کمزور کردیا ہے؟ چودھری غلام سرور دُکھی کیوں ہیں؟ اعجاز شاہ اتنے طاقتور کیوں ثابت ہوئے کہ من پسند وزارت لینے میں کامیاب ہوگئے؟ کیا حفیظ شیخ اور ان جیسے دوسرے غیرمنتخب اور غیر سیاسی چہرے عمران خان کو من چاہے یا ان سے قریب تر نتائج دے سکیں گے؟؟ یہ سارے مباحث سکرین اور اخبار کی رونق بڑھانے کے لیے اچھے ہیں بلکہ بہت اچھے ہیں۔ مگر یہ سب نتائج ہیں، وجوہات نہیں ہیں۔ بات زلف کی نہیں، صاحب بات رُخسار کی ہے۔ ڈیپ سٹیٹ ایسی ہی ہوتی ہے۔ آپ کو ایوب خان، ضیاء الحق اور اپنے سُریلے مشرف صاحب کا بنیادی جمہوریتوں والا ماڈل تو یاد ہوگا۔ ایوب خان سے جنرل مشرف تک سب نے گراس روڈ جمہوریت کی اپنی اپنی کاوشیں کیں۔ جنرل ایوب اس میں مکمل کامیاب رہے۔ جنرل ضیاء اور جنرل مشرف نے ایک ایسی سیاسی ڈش تیار کی جس میں پارلیمانی اور صدارتی نظام میں بنیادی جمہوریتوں کو ہلکی آنچ پر پکا کر ایک نیا Hotch Potch تیار کیا گیا۔ ایسے نظام میں طاقتور صدر بھی ہوتا ہے اور ’’خود مختار‘‘ پارلیمنٹ بھی۔قائد ایوان وزیر اعظم بھی اور عوام کی دھڑکنوں سے قریب تر ایسے ’’مقامی‘‘ بھی جو ہورڈنگز پر لکھتے پائے جاتے ہیں ’’قدم بڑھائو ۔۔۔۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘۔ ایسے ہی ’’مقامی‘‘ ہوتے ہیں جن کے متعلق ہر بینر پر لکھا ہوتا ہے ’’ہم چودھری… کے ممنون ہیں کہ انہوں نے علاقے کے ٹیوب ویل کو دوبارہ چالو کرادیا‘‘۔ کلف لگے شلوار کرتے، باڈی گارڈ ز اور ہائی روف گاڑیوں والے مقامی سیاستدان ہر علاقے میں دُمبی سٹی کی طرح برآمد ہوتے ہیں۔ بات دور نکل گئی۔ مگر جب اس ٹائپ کی Hotch Potch جمہوریت پر سے شخصیاتی چھتری ہٹی تو چھائوپ دھوپ میں بدل گئی۔ جنرل ضیاء الحق سے جنرل مشرف تک ایک خاص ماڈل کی جمہوریت چلتی رہی۔ بعد والے ماڈل کو کچھ نے ’’کیانی ڈاکٹرائن‘‘ بھی کہا مگر اس سارے منظر میں پیپلز پارٹی والے اور نون والے ایک واردات کر گئے۔ 2010ء میں وہ آٹھویں ترمیم پاس کرواگئے۔ پارلیمانی نما صدارتی نظام یا صدارتی نما پارلیمانی نظام کو مکمل پارلیمانی نظام بناگئے۔ اگر میری یادداشت دھوکا نہیں دے رہی تو یہ 1973ء کے آئین میں بھی تھا مگر جنرل ضیاء الحق کی آٹھویں ترمیم اسے کھا گئی۔ آٹھویں ترمیم کی رو سے اس پاکستان کے صدر کے پر مکمل طور پر کاٹ دیئے گئے جو ضیاء الحق اور غلام اسحاق خان کا پاکستان تھا۔ تمام اختیارات وہیں منتقل ہوگئے جہاں 1973ء میں تھے۔ اس ترمیم نے معاشی اور انتظامی اختیارات صوبوں کے حوالے کر دیئے۔ یہ توقع کی گئی کہ صوبے انہیں بنیادی جمہوریتوں کے حوالے کردیں گے۔ مگر یہ نہ ہوسکاـ؟ کیوں؟ کیونکہ سیاستدانوں کی موجودہ نسل صرف کرپٹ ہی نہیں ، اپنے ہاتھ سے اختیارات منتقل کرتے ہوئے اسے ’’دمہ‘‘ لاحق ہوجاتا ہے۔ مرکزی حکومت کو ڈیفنس اور قرض دونوں کے اخراجات ہینڈل کرنا خاصا مشکل لگ رہا ہے۔ نون اور پیپلز پارٹی نے یہ کر تو دیا، اب مرکزی حکومت ایک خاص آئینی طریقے کے بغیر صوبوں کے حصے میں سے اپنا حصہ طلب نہیں کرسکتی۔ ٹاپ پر مرکزی حکومت اور اس کے شدید معاشی مسائل ہیں۔ باٹم پر عوام کو ملنے والی مقامی سہولتوں کے لیے فنڈز کی عدم دستیابی ہے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لیے یہ صورتحال خاصی تشویش ناک ہے، بے چینی اور پریشانی کا سبب بھی۔ 1973ء کا پاکستان ایک اور پاکستان تھا۔ 2019ء کا پاکستان ایک بالکل بدلا ہوا پاکستان ہے۔ میڈیا، سیاست، عدالت ، فوج، عوام اور حکومت سب کچھ بدل گیا ہے۔ اس بالکل بدلے ہوئے تناظر میں ذوالفقار علی بھٹو جیسا سیاستدان بھی ہوتا تو اس کے پسینے چھوٹ جاتے۔ بے نظیر اور نواز شریف کا ذکر نہیں۔ بات اس وقت عمران خان کی ہے۔ کرکٹر سے وزیر اعظم تک کا سفر یہ بتاتا ہے کہ وہ پُر عزم ہے۔ مگر میکائولی کی سیاست جیسے کھیل کی نزاکتوں سے آشنا نہیں ہے۔ اس کے دامن میں بنام سیاست کوئی بیش قیمت ہیرا نہیں بلکہ سب کھوٹے سکے ہیں۔ اس سے وابستہ اُمیدیں دم توڑنے کو ہیں۔ آئی ایم ایف اور فیصلہ ساز قوتیں اس سے جو توقعات رکھتی ہیں وہ پوری نہ کرسکے گا۔ کچھ دیر اور ۔۔۔ کٹھن ہے راہ گذر تھوڑی دور اور۔ یہ چانکیہ اور میکائولی کی سیاست کا میدان ہے۔ یہ برطانیہ کا پارلیمانی نظام بھی نہیں ہے اور امریکہ کا صدارتی نظام بھی۔ یہ اپنی طرز کا شاید واحد ملک ہے جو اسلامی بھی ہے، صدارتی بھی، پارلیمانی بھی ، جہاں پارلیمنٹ بھی ہے، الیکشن بھی، جمہوریت بھی، میڈیا بھی، عدلیہ بھی، سپیکر بھی اور گورنر بھی۔ مختلف سمتوں میں ٹکراتے ہوئے پولیٹیکل ایکٹرز اور سسٹم بھی۔ سیاسی تبدیلیوں کا بازار گرم ہے۔ اک ہنگامے پر موقوف ہے گھر کی رونق۔ تیسری دنیا میں کرشمہ ساز راہنما عوام کو خواب دکھاتے ہیں۔ ان کی تعبیروں کو پانے کا وعدہ کرتے ہیں۔ مگر اقتدار کے ایوانوں میں غلام گردشیں بھی ہیں اور جادوگریاں بھی، سرگوشیاں بھی اور سازشیں بھی۔ ان کربناک حقیقتوں میں خواب ٹوٹ جاتے ہیں، وعدے بکھر جاتے ہیں اور مسکراہٹیں زخمی ہوجاتی ہیں۔ بات اسد عمر کی ہے نہ بزدار کی ۔۔۔ بات نہ فواد چودھری کی ہے یا فردوس عاشق اعوان کی۔ بات اعجاز شاہ کی بھی نہیں ۔۔۔ بات زلف کی نہیں ۔۔۔ صاحب ۔۔۔ یہ بات رُخسار کی ہے۔