مشکل کو سروں سے ٹالنے والا تو ہے مجھ کو مرے گھر میں پالنے والا تو ہے ہوں سیپ سمندروں میں اور ہوں خالی ہاتھ موتی مری سمت اچھالنے والا تو ہے آج مجھے سمز Simsکے شاندار مشاعرہ کا تذکرہ کرنا ہے مگر آغاز ایک خوبصورت حمدیہ شعر سے کرتے ہیں جو وہاں معروف کالم نگار اور طرحدار شاعرہ سعدیہ قریشی نے پڑھا: وہ پہلے خواب رکھتا ہے تہی آنکھوں کے کاسوں میں پھر اک دست کرم سے خواب کو تعبیر کرتا ہے اور ایک امیدواور آرزو سے بھرا ہوا اس کی غزل کا شعر: گیلی مٹی سے کسی خواب کا چہرہ گوندھے اک ہنر کار کوئی ڈھونڈ کے لایا جائے یقینا یہ ایک یادگار مشاعرہ تھاجسے اردو ادب کی عہد ساز شاعرہ ادا جعفری کے نام سے موسوم کیا گیا تھا۔ یہ اچھی بات ہے کہ سمز ہر سال مشاعرے کو کسی لیجنڈ شاعر کے نام پر یاد بناتا ہے۔ اصل میں یہاں کے پرنسپل ڈاکٹر محمود ایاز بہت ہی درد دل رکھنے والے اور سخن شناس ہیں اور پھر سونے پر سہاگہ یہ ‘ان کے دوست اور طلبا لٹریری سرکل کے روحِ رواں ڈاکٹر محمد امجد نے یہاں ادبی سرگرمیوں کی طرح ڈال دی اور سب کچھ دو آتشہ کر دیا۔ امجد تو خود بھی انشا پرداز ہیں محمود ایاز نے بہت سی محبت بھری باتیں کیں کہ وہ شعرا کرام کو بہت اونچی جگہ دیکھتے ہیں پھر وہ کہنے لگے کہ ان کی خدمات ہمہ وقت ان سخن سازوں کے لئے حاضر ہیں۔ اس پر دلچسپ صورت حال پیدا ہوئی کہ انہوں نے کہا کہ مصیبت یہ ہے کہ وہ سرجن ہیں اور اللہ نہ کرے کسی دوست کو سرجری کی ضرورت پڑے۔ مجھے وہ شعر یاد آگیا: دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لئے پھرتا ہوں کچھ علاج ان کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں آغاز میں شمع روشن کی گئی نامور شاعر عباس تابش کی صدارت تھی اور راقم ساتھ مہمان اور ساتھ ہی مزاح کے امام سید سلمان گیلانی تھے۔ ظاہر ہے میڈیکل کالج کے بچے ذہین اور فطین تو ہوتے ہیں۔ انہوں نے خوب خوب پروگرام کو سنوارا۔ ماہا بشارت‘ احمد زین‘ سیدہ فاطمہ‘ ہاشمی فہیم رمضان فہد ملک‘ علی حسین ‘ عمیر ارشد اور عدنان سید کے نام لکھنا میں ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ سب کے سب بہت ہی تہذیب اور شائستگی، سے اپنے مہمانوں کو عزت دے رہے تھے اور سامعین ایسے کہ آخری وقت تک پہلے تک نہیں اصل میں ان بچوں کی تربیت ڈاکٹر محمد امجد نے کی ہے کہ وہ دلگداز قسمت کے انداز رکھتے ہیں۔وہاں کے ڈاکٹرز کی نمائندگی ڈاکٹر نمرہ نے اپنے کلام سے کی: یہ محبت یہ عقیدت تو وفا ہے نمرہ تیرا ہر رنگ فضائوں میں بکھر جائے گا ظاہر ہے سب شاعروں کے اشعار شاید میں نہ لکھ پائوں۔ آغاز سے انجام تک سب شاعر ہی اچھے تھے۔ ڈاکٹر خالد انور نے اپنے کلام اور ترنم دونوں کی خوبصورتیوں سے حاضرین کی توجہ حاصل کی: یاد تجھ کو کیا جلا کے چراغ اور ماتم کیا بجھا کے چراغ روشنی کی سبیل کرتے ہیں کاغذوں پر بنا بنا کے چراغ ڈاکٹر احسن شہزاد اور ڈاکٹر خالد ادریس نے بھی خوب کلام سنایا۔ ایک نوجوان کفیل رانا بھی تھا ان سب نوجوانوں نے خوب داد سمیٹی۔ مشاعرہ اس وقت بنتا ہے جب سننے والے اچھے ہوں وگرنہ تو وہی منیر نیازی کی بات کہ بعض جگہ آپ کے سامنے خمیرے آٹے جیسے لوگ ہوتے ہیں بات واپس نہیں آتی۔ سمز کے مشاعرے میں پروفیسرز بھی تھے۔ اچھے شعر پر واہ واہ اور کمتر شعر پر ذرا سی خاموشی بھی سنائی دیتی تھی۔ ڈاکٹر فخر عباس نے بھی داد سمیٹی۔ میں نے دیکھا کہ اس کے ہاں ارتقاء موجود ہے وہ سنجیدہ بھی اچھا کہنے لگا ہے: مرے خدا اسے اس جرم کی سزا نہ ملے وہ بے وفا ہے اسے کوئی بے وفا نہ ملے ڈاکٹر طاہر شہیرنے بھی لوگوں کو خوب محظوظ کیا۔ وہ حسب حال کے لئے بھی لکھتا ہے اس کی نظم کنوارے کی فریاد‘ بہت پسند کی جاتی ہے۔ فرتاش سید قطر میں ہوتے تھے۔ بہت خوب کہتے ہیں جون ایلیا کے شاگرد خاص ہیں انہوں نے خوب رنگ جمایا۔ غم چہکنے لگا زندگی بجھ گئی عقل جاتی رہی عشق کے کھیل میں کیا تمہارا گیا میں تو مارا گیا جو پڑھا تھا کتابوں میں وہ اور تھا زندگی اور ہے میرا ایمان سارے کا سارا گیا میں تو مارا گیا فیصل آباد سے آئے ہوئے انجم سلیمی بھی اردو اور پنجابی میں خوب کہتے ہیں انہیں بھی خوب سنا گیا۔دو شعر دیکھ لیں: جانے والے تو کوئی رشتہ تو رہنے دیتا میں تجھے یاد بھی کرتا میں تجھے روتا بھی وہ تو دستک کہاں‘ سنتے نہیں آوازہ بھی مجھ سے دیوار بھی ناراض ہے دروازہ بھی اب دو شعر اپنے بھی لکھ ہی دوں کہ مجھے بھی طلبا پیار کرتے ہیں: کار فرہاد سے یہ کم تو نہیں جو ہم نے آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو تو رکے یا نہ رکے فیصلہ تجھ پر چھوڑا دل نے در کھول دیے ہیں تری آسانی کو سید سلمان گیلانی آئے تو پھر وہی تھے اور طلبا و طالبات۔ شاہ صاحب نے اب پرفارمنس بھی ساتھ شروع کر دی ہے لوگ ہنس ہنس کر اور تالیاں بجا بجا کر تھک جاتے ہیں: شوہر کے دل میں کیا ہے ہر بیوی جانتی ہے بیوی کا موڈ کیا ہے تھوڑے ہی جانتے ہیں بے زوجگی کے مارے کیا جانیں دکھ ہمارے جوڑوں کا درد کیا ہے جوڑے ہی جانتے ہیں اور آخر میں صاحب صدارت کے دو خوبصورت اشعار: یہ جو ہے پھول ہتھیلی پر اسے پھول نہ جان میرا دل جسم سے باہربھی تو ہو سکتا ہے دہائی دیتا رہے جو دہائی دیتا ہے کہ بادشاہ کو اونچا سنائی دیتا ہے