بڑھا دیتی ہیں عمروں کو نہ جانے یہ کتابیں کیوں میں چھوٹا تھا مگر سر پر کئی صدیوں کا سایہ تھا اگرچہ سعد رستے میں بڑے دلکش جزیرے تھے مجھے ہر حال میں لیکن سمندر پار جانا تھا یہ ان دنوں کی باتیں ہیں جب ہم ہوائوں میں اڑتے پھرتے تھے تتلیوں کی طرح، مہکتے تھے پھولوں کی طرح اور آوارہ تھے ہوائوں کی طرح۔ ہمارے لمس سے موسم بدلتے تھے۔ ہوتا ہے یہ زمانہ ،کہ جس کے بارے میں ورڈز ورتھ کہتا ہے کہ وہ ہلکی کشتیوں کی طرح پانی کی سطح سے اوپر لہروں پر تیرے تھے۔ آسمانی بجلی کی طرح کبھی اس پہاڑی پر چمکتے تو کبھی اس پہاڑی پر۔ بس یہ دور تھا جب ایک ایک انگ میں زندگی بے تاب اور بے چین نظر آتی تھی۔ یہ قدرت کی عطا ہے کہ جب کسی پر پہلی افق رنگ سرخی اترتی ہے ساری فضا شرمانے لگتی ہے: مسکراتے ہوئے اسے دیکھا باور آیا کہ زندگی کیا ہے آج اس زندگی کا ایک رنگ میں آپ کو دکھانا چاہتا ہوں کہ جس کے بارے میں ادا جعفری نے کہا تھا،رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے۔سچ میں ایسا ہوتا کہ آپ کا احساس مہکنے لگتا ہے۔ چلیے میں آپ کو ایک ایسے شاعر دوست سے ملاتا ہوں جس کے ہاں رنگ جھلملاتے ہیں، خوشبو مہکتی ہے اور لفظ باتیں کرتے ہیں۔ وہ عمر میں مجھ سے کافی بڑے تھے مگر ان سے دوستی ہوگئی۔ نام ان کا تھا اظہار شاہین۔ کیوں نہ ان کو چھونے سے پہلے ان کے دو اشعار آپ کی نذر کردوں: وہ پھولوں سے ہوا جاتا ہے خوشبو میں لکڑی سے دھواں بننے لگا ہوں تمہارے نقش بنتے جا رہے ہیں تمہارا شہر آتا جارہا ہے آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ انہوں نے باون سال کی عمر میں شاعری شروع کی۔ ’’نیک پروین‘‘ فلم کی کہانی انہوں نے لکھی تھی۔ تیس کے قریب فلموں کے ڈائیلاگ بھی۔ پھر یکایک وہ شاعری کی طرف آئے جیسے کہ انہیں یہ صلاحیت کھینچ کر شہر سخن میں لے آئی۔ دھرم پورہ میںوہ رہتے تھے۔ صدر میں ہونے والے مشاعرے جس میں شہزاد احمد بھی شامل ہوتے۔ ہمارے لیے مرکز کی حیثیت رکھتے تھے۔ احسان اللہ ثاقب، اظہر درانی، انور ملک، رشک خلیلی، بشیر رزمی، انجم رومانی اور ایسے ہی کئی پیارے لوگ ان شاعروں میں ہوئے۔ دلچسپ بات یہ کہ اظہار شاہین میرے پاس اردو بازار والے دفتر میں اکثر آتے اور ہم اکٹھے چائے پیتے اور گپ شپ کرتے۔ ایک روز باتوں باتوں میں انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ آپریٹر رہے اور ان پر غربت میں ایسا وقت بھی آیا کہ جب حرام حلال ہو جایا کرتا ہے مگر انہوں نے کبھی رشوت نہیں لی۔ بس اسی لمحے وہ ہمارے دل میں اتر گئے اور میں دل و جان سے ان کا احترام کرنے لگا۔ ویسے بھی وہ محبت ہی محبت تھے۔ ایک شعر تو ان کا اتنا مقبول ہوا کہ بس: تم کسی راستے سے آ جانا میرے چاروں طرف محبت ہے قدرت نے انہیں گیارہ بیٹے عطا کئے تھے اور کمال یہ کہ وہ بچے آپس میں جھگڑتے تھے کہ والد کو وہ اپنے پاس رکھے گا۔ یہ سب حلال روزی کا کمال تھا۔ ویسے بھی میں نے انہیں ہمیشہ مطمئن اور مسکراتے ہوئے دیکھا۔ وہ قانع اور منکسرالمزاج تھے۔ ان کا ایک شعر ان کی معیشت کا پتہ دے جاتا تھا: کھلونوں کی دکانو راستہ دو میرے بچے گزرنا چاہتے ہیں ان کا شعری مجموعہ ’’دیور میں در‘‘ آیا اور پھر اس کے بعد ’’ہوا کے پر‘‘ چھپا تو شہزاد احمد کہنے لگے اب تیسرا مجموعہ ’’مصطفی کھر‘‘ آئے گا۔ دیوار میں در کا ایک شعر تو جیسے مجھ کو کہا گیا: اتنا تجھ کو ڈھونڈا ہے آنکھیں بھر گئیں چہروں سے ہوا کے پر کا دیباچہ میں نے تحریر کیا بلکہ اس کے بعد آنے والے مجموعوں کے دیباچے بھی میں نے لکھے۔ ایک کا وزیر آغا صاحب نے۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ وہ کہتے کہ مجھے اصل میں سعداللہ شاہ نے سمجھا ہے۔ اس میں کیا شک کہ میں ان کی شخصیت اور شاعری بہت توجہ سے دیکھتا۔ مشاعروں میں بھی وہ سب کو کھل کر داد دیتے۔ ان کا اپنا انداز تھا۔ کہتے ’’پھر سنیں گے، پھر سننا چاہیں گے‘‘ کمال ہے بھئی وغیرہ وغیرہ۔ اچھا شعر جیسے انہیں لڑ جاتا تھا۔ ان میں جدت اور نیا پن تھا۔ وہ خود کہتے ہیں: اپنے ہونے کا پتہ دے کوئی شیشہ کہیں گرا دے ان کے اشعار کے تیور دیکھئے: کوہساروں کا فیض ہے ورنہ کون دیتا ہے دوسری آواز دیکھ مجھے مجبور نہ کر چپ رہنے دے ہو سکتا ہے دکھ پہنچے تجھے لہجے سے چھوڑ آیا ہوں شہر سے باہر پیشانی جھک کر آنا پڑتا تھا دروزے سے ان کی طویل حمد ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی۔ ان کی وصیت کے مطابق اس کا دیباچہ بھی میں نے تحریر کیا۔ ان کو میاں میر کے قبرستان میں دفن کیا گیا تھا۔ ان کی شاعری ہمیشہ ان کی مسکراہٹ کی طرح مہکتی رہے گی۔ وہ اکثر صبح کی تازگی اور شام کی اداسی کی طرح یاد آتے ہیں: تجھ میں صبحوں کی آسودگی مجھ میں شاموں کا نقصان ہے ایک پتہ گرا پیڑ سے ٹوٹنا کتنا آسان ہے