ذرا سوچیے آپ ایک دن میں کہاں کہاں ٹیکس دیتے ہیں۔ آپ صبح سو کر اٹھے، لائیٹ آن کی ، بجلی پہ ٹیکس ادا کیا، باتھ روم گئے ، نلکا کھولا تو پانی پہ ٹیکس ادا کیا، صابن استعمال کیا تو صابن پہ ٹیکس دیا، دانت صاف کیے تو برش اور ٹوتھ پیسٹ پر ٹیکس دیا، شیو بنائی تو ریزر ،شیونگ فوم اور آفٹر شیو لوشن پہ ٹیکس دیا۔ آفس جانے کے لیے جو کپڑے اور جوتے آپ نے پہنے اس پر 17 فیصد کے حساب سے سیلز ٹیکس آپ ادا کر چکے ہیں۔ ناشتے کی میز پر بیٹھے تو انڈے بریڈ ، گھی اور آٹے پر ٹیکس ، چائے کی پتی ،دودھ کے ڈبے اور چینی پر ٹیکس۔ ناشتہ بنانے کے لیے جو گیس چولہے میں استعمال ہوئی اس پہ بھی ٹیکس۔ گھر سے نکلنے کے لیے موٹر سائیکل یا گاڑی اسٹارٹ کی جو بھاری ٹیکس ادا کر کے آپ نے خریدی ہے۔ سڑک پہ آئے تو ٹول ٹیکس ،پیٹرول پمپ پہ آئے تو ہر ایک لیٹر پہ 46 روپے کے حساب سے ٹیکس ، پانی کی ایک بوتل خریدی اس پہ ٹیکس ۔ غور کیجئے گھر سے نکل کر دفتر پہنچنے تک آپ 27قسم کے ٹیکس ادا کر چکے ہیں۔ پھر کاروبار کی جگہ پر بیٹھ کر جو ٹیکس ادا کرتے ہیں وہ ہیں ود ہولڈنگ ٹیکس، انکم ٹیکس، گین ٹیکس، کنزنپشن ٹیکس، سروسز ٹیکس ، سیلز ٹیکس، یہ ٹیکس ، وہ ٹیکس۔ سارا د ن دفتر میں ٹیکس بھرنے کے بعد گھر کے لیے نکلنے سے پہلے اگر دوستوں کے ساتھ غلطی سے ریسٹورنٹ جانے کا پروگرام بن گیا تو شروع ہو گا ٹیکسز کا ایک نیا سلسلہ۔ آپ نے کھانے کے لیے چند چیزیں منگوا لیں۔ روٹی ، پانی ، سالن اور تمام طرح کی چیزوں پر الگ الگ ٹیکس دینے کے بعد جب بل آیا تو کُل رقم پر 17 فیصدمزید ٹیکس الگ ۔سینما دیکھنے چلے گئے تو سینما پر بھی ٹیکس ، بھارتی نہیں اپنی پاکستانی فلمیں دیکھنے پر بھی ٹیکس۔ گھر کا رخ کیا تو بیوی کو فون کر لیا ، یہ جاننے کے لیے کہ گھر آتے ہوئے کسی چیز کی ضرورت تو نہیں۔ اس مقصد کے لیے جو فون استعمال کیا اس پر بھاری ٹیکس تو آپ پہلے ادا کر ہی چکے ہیں اب اسے استعمال کرنے کا بھی ٹیکس۔ ہر کال پہ ٹیکس ، ہر بار ٹیکس۔ ڈیڑھ روپیہ فی منٹ جمع ٹیکس۔اگر بیوی نے اشیائے ضروریہ کی ایک فہرست آپ کو تھما دی تو چلیے شروع ہوا ٹیکس ادائیگی کا ایک نیا سلسلہ۔آپ ایک میڈیکل اسٹور پہ گئے کچھ ادویات خریدیں، ٹیکس دیا، بچے کے ڈائپرز خریدے ٹیکس دیا، دودھ لیا ٹیکس دیا، بریڈ اور بسکٹ خریدے ٹیکس دیا۔ گھر پہنچنے تک د ن بھر میں آپ ستر جگہ پر ٹیکس ادا کر چکے ہوں گے۔ ذرا غور کیجئے جس گھر میں آپ رہتے ہیںیہ پلاٹ خریدتے وقت آپ نے سرکار کو بھاری ٹیکس ادا کیا تھا۔ صرف پلاٹ خریدتے اور رجسٹری کراتے ہوئے ہی آپ نے ٹیکس ادا نہیں کیا تھا بلکہ ادائیگی کرتے وقت جو وِد ہولڈنگ ٹیکس بنک سے کٹا تھا وہ الگ اور اسٹامپ پیپر کی مد میں جو سرکار کو پیسے گئے تھے وہ الگ۔ پھر آیا تعمیر کا مرحلہ ۔بجلی کا کنکشن لگواتے ہوئے کنکشن حاصل کرنے کا ٹیکس، پانی اور گیس کے میٹر لگواتے ہوئے میٹر لگوانے کا ٹیکس۔ پھر سیمینٹ خریدا ٹیکس دیا، سریا خریدا ٹیکس دیا۔ ٹائیلیں خریدیں ٹیکس دیا، بجلی کے تار خریدے ٹیکس دیا، سوئچ بورڈز لگائے ٹیکس دیا۔ تعمیرات سے وابستہ درجنوں چیزوں پر الگ الگ ٹیکس دینے کے بعد جب گھر بن گیا تو اب ہر سال جو ٹیکس باقاعدگی سے شروع ہوا وہ ہے پراپرٹی ٹیکس۔ کون کہتا ہے کہ ہم ٹیکس نہیں دیتے ۔ گھر میں رکھی اشیاء جیسے کہ فریج ، اے سی، گیزر، ٹی وی ،پنکھے، مائیکرویو اوون اور واشنگ مشین جیسی لگثری آئیٹمز پر تو آپ ٹیکس ادا کرتے ہی ہیں مگر تصور کیجئے کہ ہمیں اتنی طرح کا ٹیکس ادا کرنے کے بعد جو سہولیات سرکار سے ملتی ہیں اس میں پینے کا صاف پانی تک شامل نہیں۔ یوں پینے کے پانی پر بھی ہمیں الگ ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ذرا غور کیجئے ہم اتنا ٹیکس کیوں ادا کرتے ہیں ؟ تاکہ ہمیں صحت ، تعلیم، جان و مال کا تحفظ ، سفری سہولتیں، سڑکیںاور ریلوے کا بہتر نظام دستیاب ہو سکے۔ اتنی طرح کا ٹیکس ادا کرنے کے بعد جو چیز ہمیں سرکار کی طرف سے سب سے پہلے ملنی چاہیے وہ جان و مال کا تحفظ اور انصاف ہے ۔ لیکن میں وثوق سے کہتا ہوں کہ ہمارے تھانے اور پولیس کا نظام بحیثیت مجموئی مظلوم کو انصاف کی فراہمی میں بری طرح ناکام ہے ۔ پولیس اور پولیس اسٹیشنز ظالم کا ساتھ دیتے ہیں کیوں کہ وہ طاقتور ہوتا ہے ۔ سرکار کے اسکول میں تعلیم کا نظام ناقص ہونے کے باعث مجھے تعلیم خریدنی پڑتی ہے، سرکار کے اسپتال میں صحت دستیاب نہ ہونے کے باعث مجھے نجی اسپتالوں سے صحت خریدنا پڑتی ہے ۔ سرکار سے تحفظ حاصل نہ ہونے کے باعث مجھے ذاتی سیکیورٹی گارڈز رکھنا پڑتے ہیں۔ سرکار کا پانی صاف نہ ہونے کے باعث مجھے پانی خریدنا پڑتا ہے ۔ سرکار کی سڑکیں ٹھیک نہ ہونے کے باعث میں حادثے میں مر جاتا ہوں ۔ آپ غور کریں میں پہلے ٹیکس ادا کر کے سرکار کی سروسز خریدتا ہوں ، پھر وہ سروسز معیاری نہ ہونے کے باعث سروسز تبدیل کر لیتا ہوں مگر سرکار کی فیس بلا تعطل ادا کرتا رہتا ہوں۔یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ آپ رہنے کے لیے ایک گھر کرائے پر لیں اس کے لیے ماہانہ بھاری کرایہ بھی ادا کرنے لگیں لیکن کچھ عرصے بعد آپ کو اندازہ ہو کہ یہ گھر بوسیدہ ہے اور رہنے کے قابل نہیں ، آپ دوسرا گھر کرائے پر لے لیں مگر پہلے والے کو مسلسل ادائیگی کرتے رہیں یا زبردستی آپ سے لی جاتی رہے ۔ سرکار بھی یہی کر رہی ہے ہم سے پرانے گھر کے پیسے تو باقاعدگی سے وصول کرتی ہے مگر سہولیات کے لیے ہمیں دوسرے گھر کا راستہ دکھاتی ہے۔ اس تحریر کا مقصد ٹیکس ادا کرنے والوں کو ٹیکس کی ادائیگی سے روکنا ہرگز نہیں بلکہ سرکار سے درخواست کرنا ہے کہ بھاری ٹیکسز کی عوض ہلکی پھلکی چند سہولیات مل جائیں تو نوازش ہو گی ورنہ ٹیکس تو مجبورا ہم ادا کرتے ہی رہیں گے۔