فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ملک بھر سے چوٹی کے 500ٹیکس نادہندگان کی فہرستیں تیار کر لی ہیں۔ ٹیکس ایمنسٹی سکیم کی مہلت ختم ہونے کے بعد ان افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی جو اپنے اثاثے ظاہر کرنے پر آمادہ نہیں۔ ٹیکس ماہرین کا خیال ہے کہ ان چوٹی کے نادہندگان سے ان کے اثاثوں پر ٹیکس کی واجب رقم وصول کر لی جائے تو 500ارب روپے کے محصولات جمع ہو سکتے ہیں۔ اس امر میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ ٹیکس نظام کے معاملات طویل مدت سے بگاڑ کا شکار ہیں جس کی وجہ سے بعض افراد کو ٹیکس چوری یا ٹیکس بچانے کا موقع ملتا رہا ہے۔پاکستان ایسے مقام پر آ پہنچا ہے جہاں افراد کے لئے ریاست کے مطالبات پورے کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ یہ امر مضحکہ خیز ہے کہ اکیس کروڑ آبادی میں صرف 12لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ مطلب یہ کہ اکیس کروڑ افراد کی خوراک‘ رہائش حفاظت‘ تعلیم اور صحت کی سہولیات وغیرہ کا بار ان 12لاکھ افراد کے کندھوں پر ہے۔ دوسری جانب کوئی شاہراہ نہیں جس پر ٹریفک جام کا مسئلہ نہ ہو۔ ہر گھنٹے میں ہزاروں گاڑیاں ایک مقام سے گزرتی ہیں۔ لاہور جیسے شہر میں ہر روز سینکڑوں نئی گاڑیاں سڑکوں پر آ رہی ہیں۔ کراچی میں یہ معاملہ اور بھی سنگین ہے۔ پشاور‘کوئٹہ‘ فیصل آباد‘ راولپنڈی‘ سرگودھا ‘ حیدر آباد‘ ملتان ‘ غرض کوئی شہر ایسا نہیں جہاں کاروں اور لگژری گاڑیوں کا رش نہ ہو۔ رہائش کے علاقوں کا جائزہ لیں تو کچی آبادی کا درجہ رکھنے والے شہری علاقوں میں بھی پانچ چھ لاکھ روپے فی مرلہ سے کم زمین دستیاب نہیں۔ ہر قابل ذکر شہر میں ہزاروں نہیں لاکھوں پلاٹ اور مکانات پوش علاقوں میں ہیں۔ ان میں سے ہر پلاٹ کی قیمت کئی ملین اور مکان کی قدر کروڑوں روپے میں ہے۔ کاروباری اثاثوں کی قیمت کا آغاز ہی کروڑوں روپے سے ہوتا ہے۔ شہروں کے قدیم حصے اب رہائشی سے زیادہ کاروبار مراکز میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ہر دکان‘ کارخانہ‘ دفتر اور پلازہ کسی نہ کسی دولت مند کی ملکیت ہے۔ ایسے کاروباری مراکز‘ پوش مکانات اور موٹر گاڑیوں کے مالکان کی مجموعی تعداد پانچ کروڑ سے زیادہ ہو گی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ریاستی ٹیکس ادا کریں تو پاکستان سالانہ دس ہزار ارب روپے جمع کر سکتا ہے۔ مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ ہم صرف 3400ارب روپے کا ٹیکس جمع کر رہے ہیں۔ حالیہ بجٹ میں حکومت نے ٹیکس اہداف 5000ارب رکھے ہیں۔ کچھ اپوزیشن حلقوں کی طرف سے کہا جا رہاہے کہ ٹیکس اہداف میں 1500ارب روپے کے لگ بھگ کا اضافہ ناقابل حصول ہے۔ ٹیکس نظام کی خرابیوں سے ہر حکومت آگاہ رہی ہے۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ملک بھر میں 14ریجنل ٹیکس دفاتر میں ٹیکس عملہ شہریوں کو جعلی ٹیکس نوٹس بھیجتا ہے۔ نوٹس پر ایک لاکھ روپے کا ٹیکس تحریر ہوتا ہے۔ شہری پریشانی میں نوٹس پر دیے گئے اہلکار کے فون پر رابطہ کرتے ہیں تو ریاست سے بالا معاملات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ٹیکس اہلکار ٹیکس دہندہ سے مشورے اور رہنمائی کے نام پر پانچ ہزار وصول کرتا ہے۔ پھر دس ہزار سرکاری خزانے میں جمع کرانے کی ہدایت کر کے اسے ایک لاکھ روپے ٹیکس کی پریشانی سے بچا لیتا ہے۔ ٹیکس اہلکار ہر دولت مند اور کاروباری شخص کے مشیر بن کر ٹیکس چوری کے مشورے دیتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ کس طرح ریاستی قوانین سے بچ کر ٹیکس چوری کی جا سکتی ہے۔ یہ کلچر اس قدر مضبوط ہو چکا ہے کہ کوئی حکومت اس کی اصلاح کی جرات نہیں کرتی۔ ہر حکومت میں ایسے لوگ اہم عہدوں پر فائز ہوتے ہیں جو اس بدعنوان نظام سے مستفید ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں کون اصلاح احوال کی ذمہ داری اٹھائے۔ حالیہ دنوں حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ایف بی آر کو ہر شہری کے ڈیٹا تک رسائی دے دی گئی ہے۔ ایف بی آر ہر اس بنک اکائونٹ کی پڑتال کر رہی ہے جس میں پانچ لاکھ سے زاید رقم جمع ہے۔ یوٹیلیٹی بلز‘ گاڑیوں کی رجسٹریشن‘ پلاٹس اور مکانات کی رجسٹریشن‘ بیرون ملک سفراور دیگر ذرائع سے معلومات جمع کی جا رہی ہے۔ اگرچہ شہری شکائت کر رہے ہیں کہ پانچ سو روپے کے عوض ڈیٹا کی پڑتال کے دوران انہیں درست معلومات تک رسائی میں مشکلات آ رہی ہیں۔ بعض افراد کے نام پر ایسی گاڑیاں اور اثاثے بھی سامنے آنے کی شکایت ہے جو کسی دوسرے کی ملکیت ہیں۔ ریکارڈ میں کئی نقائص سامنے آ رہے ہیں۔ اس سے پانچ کروڑ ٹیکس کے قابل شہریوںمیں یہ تاثر پیدا ہونے کا خدشہ ہے کہ حکومت اور ایف بی آر مطلوبہ استعداد اور تیاری کے بغیر ٹیکس اہداف پورا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ملک معاشی مشکلات سے دوچار ہے۔ ہم خارجہ تعلقات میں قرض کو بنیادی اہمیت دینے لگے ہیں۔ پاکستان ہر دوست ملک سے قرض لینے کا خواہاں ہے۔ یہ احتیاج طویل اہمیت کے تعلقات کو صحت مند نہیں رہنے دیتی۔ ہمیں اپنی ضروریات کو اپنے وسائل سے پورا کرنا ہو گا۔ جو طبقات پاکستان کے ریاستی نظام سے فائدہ اٹھا کر خوشحال ہوئے ہیں‘ جو آسودہ اور صاحب ثروت ہیں انہیں جان لینا چاہیے کہ دنیا کی ہر ریاست اپنے شہریوں سے ٹیکس وصول کرتی ہے۔ سرمایہ دارانہ معیشت میں سرمایہ کاروں کوبے تحاشہ مراعات حاصل ہیں لیکن ساتھ ہی ان پر ذمہ داری بھی عائد کی گئی ہے کہ وہ بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے جمہوری ریاست کو مدد فراہم کریں گے۔ اس پس منظر کے ساتھ اگر ارب پتی افراد ریاستی ضابطوں کا احترام نہیں کرتے تو ان کے خلاف کارروائی حق بجانب ہو گی۔