سالانہ بجٹ میں عاید ٹیکسوں اور حکومت کی طرف سے محاصل وصولی یقینی بنانے کے بعض انتظامی فیصلوں کے خلاف تاجر تنظیموں نے ملک بھر میں ہڑتال کا اعلان کیا جس کے بعد ہفتہ کے روز کچھ علاقوں میں مکمل اور کچھ میں جزوی ہڑتال رہی۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی تاجر شخصیات کی موجودگی کے باعث لاہور کو اس ہڑتال میں خصوصی اہمیت حاصل تھی تاہم لاہور میں تاجر برادری دکانوں کو بند رکھنے کے فیصلے پر بٹی ہوئی نظر آئی۔ اکثر اہم مارکیٹوں میں کچھ دکانیں کھلی ہوئی اور کچھ بند نظر آئیں۔ اسلام آباد‘ فیصل آباد‘ ملتان‘ جنوبی پنجاب کے دیگر شہر کراچی‘ پشاور اور کوئٹہ میں بھی یہی رجحان سامنے آیا۔ میانوالی‘ تونسہ‘ نور پور تھل جیسے شہروں میں تاجروں نے ہڑتال کی کال کو مسترد کر دیا اور تمام مارکیٹیں کھلی رہیں۔ بجٹ 2019-20ء میں وفاقی حکومت نے ٹیکس محاصل میں 25فیصد اضافے کا ہدف متعین کیا۔ ایک ایسا ملک جہاں ایسے لوگوں کی تعداد لاکھوں میں ہو جو ارب پتی کہلاتے ہیں وہاں سالانہ 3400ارب روپے کا ٹیکس جمع ہونا اس لئے افسوسناک ہے کہ یہ ٹیکس جن 20لاکھ افراد سے وصول کیا جاتا ہے ان میں سے 12لاکھ تنخواہ دار ہیں۔ لاہور اور کراچی جیسے دو شہروں کی پڑتال کی جائے تو کم از کم بیس لاکھ ایسے کاروباری افراد مل جائیں گے جو ٹیکس ادا نہیں کر رہے یا پھر واجب رقم سے کم ٹیکس دے رہے ہیں۔ پشاور‘ کوئٹہ ‘ فیصل آباد‘ سرگودھا‘ حیدر آباد‘ سیالکوٹ‘ ملتان اور اسلام آباد میں جانے کتنے لاکھ افراد ہوں گے جو اب تک ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں ہوئے۔ جن شہروں اور علاقوں میں ہڑتال کی کامیابی کا تناسب زیادہ رہا وہاںتاجروں کی بڑی تعداد اپوزیشن کے پروپیگنڈہ سے متاثر ہوئی اس ہڑتال کو حکومت پر دبائو بڑھانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اخباری اطلاعات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بعض اپوزیشن رہنمائوں نے اس سلسلے میں اپنے ہم خیال تاجروں کو خصوصی ٹاسک تفویض کیا۔ کراچی کے تاجر حلقوں کی رائے میں ایک روزہ ہڑتال کے نتیجے میں تجارت کے شعبے کو 4ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا جبکہ پورے ملک میں ہڑتال کی وجہ سے ایک روز میں 50ارب روپے کا نقصان ہوا۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ ٹیکس نظام انتہائی پیچیدہ ہونے کی وجہ سے ان کے لئے کاروباری مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں 50ہزار روپے سے زائد کی خریداری پر خریدار کے شناختی کارڈ کا اندراج ایک نیا تنازع بن کر سامنے آیا۔ حکومتی ترجمان اور چیئرمین ایف بی آر جناب شبر زیدی تاجر تنظیموں سے ملاقات میں یہ واضح کرتے رہے ہیں پرچون کے کاروبار پر شناختی کارڈ اندراج کی شرط عائد نہیں کی گئی۔ ایسا صرف تھوک کے کاروبار کے لئے طے کیا گیا ہے۔ تاجر تنظیموں نے فیصل آباد میں جب نئے ٹیکس عائد کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا تو شبر زیدی نے دو ٹوک انداز میں بتایا کہ حکومت نے تاجروں پر کسی قسم کا نیا ٹیکس نافذ نہیں کیا اور اگر کوئی بتا دے کہ کون سا نیا ٹیکس نافذ کیا گیا ہے تو وہ اسے فوری طور پر ختم کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ انجمن تاجران پاکستان کا کہنا ہے کہ حکومت اعلیٰ پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے مالک چارٹرڈ اکائونٹنٹس کی موجودگی میں ان کا موقف سنے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں مختلف شہروں کی تاجر تنظیموں نے اسلام آباد کے لئے لانگ مارچ شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ دنیا کی ہر مذہب ریاست میں شہری کے بنیادی حقوق کا سوفیصد احترام کیا جاتا ہے۔ حق زندگی ‘ حق تعلیم‘ حق علاج‘ حق مکان اور حق انصاف ان میں اہم ہیں۔ ریاست آئندہ آنے والی نسلوں کی آزادی‘ معاشی تحفظ ‘خوشحالی اور شعوری تربیت پر سالانہ بھاری رقوم خرچ کرتی ہے۔ نئے ہسپتال بنتے ہیں۔ کھیلوںکے سٹیڈیم‘ کلب اور جمنیزیم تعمیر کئے جاتے ہیں۔ جدید علوم کے فروغ کے لئے کام کیا جاتا ہے۔ تحقیق کی ثقافت عام کی جاتی ہے اور محققین کی قدر افزائی کی جاتی ہے۔ باصلاحیت اور ذہین افراد کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور کھیل‘ ثقافت فنون لطیفہ ترقی کرتے ہیں۔ پاکستان کے کسی ہسپتال میں چلے جائیں عملہ پورا ہو گا نہ ضروری طبی آلات کی سہولت ہو گی۔ پولیس اور عدلیہ سے شکایات کی وجہ مالی وسائل کی کمی ہے جو دور ہو جائے تو ان کے نظام شفاف اور قابل بھروسہ ہو سکتے ہیں۔ ریاست ان تمام منصوبوں پر جو سرمایہ لگاتی ہے جن سے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور نئے نئے کاروبار ابھرنے لگتے ہیں۔ ریاست مالی وسائل برآمدات سے حاصل زرمبادلہ‘ بیرون ملک مقیم تارکین کی بھیجی ترسیلات زر اور اندرون ملک تجارت و کاربار سے وابستہ افراد کے ٹیکسوں سے جمع کرتی ہے۔ پاکستان کا سیاستدان‘ تاجر اور بااثر شخصیات بیرون ملک علاج‘ تعلیم اور شاپنگ کرنے جاتی ہیں۔ریاستی ادارے جب ان سے ٹیکس کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہ نظام کے پیچیدہ ہونے اور اپنے ساتھ زیادتی کا شور مچا تے ہیں۔ یہی ٹیکس سے انکاری طبقہ جب ریاستی سہولیات استعمال کرتا ہے تو اپنے لیے اس درجہ کی آسانی طلب کرتا ہے جو مغربی معاشروں میں دستیاب ہے۔ ٹیکس ادائیگی ہر پاکستانی کا بنیادی اور آئینی فریضہ ہے۔ جس طرح کسی قانونی ضابطے کی عدم تکمیل یا اس سے متعلق ذمہ داریوں کی عدم ادائیگی ایک جرم ہے اسی طرح ٹیکس ادائیگی سے انکار ایک جرم ہے۔ ملک کی سیاسی صورت حال کئی وجوہ کی بنا پر غیر مستحکم بنائی جا رہی ہے۔ سیاسی مقاصد کی تکمیل کی خاطر ریاستی مفادات کو دائو پر لگایا جانا اب عام ہو چکا ہے۔ تاجر برادری کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس طرح کی ہڑتال سے وہ اپنے ہاتھوں اپنی نسلوں کا مستقبل مخدوش بنا رہے ہیں۔ یقینا ٹیکس نظام کو آسان بنانے پر حکومت کو تاجروں کی تجاویز کا احترام کرنا چاہیے لیکن یہ قطعی نامناسب ہو گا کہ کاروباری طبقہ سیاسی کھیل کا حصہ بن جائے۔