امریکہ میں ہمارا تیسرا پڑائو ٹیکساس کے شہر ڈیلس میں تھا۔ ڈینور سے ڈیلس جاتے ہوئے ہمیں ہوسٹن سے کینکٹڈ فلائٹ لینا تھی ہوسٹن ایئر پورٹ پر چند گھنٹوں کا ٹرانزٹ تھا۔ ٹیکساس اور ہوسٹن کے ساتھ ہی جو تیسرا نام ذہن میں آیا وہ کم نصیب عافیہ صدیقی کا تھا۔ کیونکہ وہ ہوسٹن کی جیل میں جبر مسلسل کی سزا کاٹ رہی ہیں۔ دل پر ایک عجیب سا بوجھ اور اداسی سی چھا گئی اور اپنی اور اپنے ملک کی بے بسی کا شدید احساس ہوا۔ عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی ہر آنے والی حکومت سے امید لگاتی ہیں کہ عافیہ کی رہائی کے لئے کچھ کریں گے لیکن سال پر سال گزرتے جاتے ہیں۔ حکومتیں آتی اور جاتیں رہیں اور اب پی ٹی آئی حکومت میں ہے۔ عمران خان نے ہمیشہ عافیہ صدیقی کی رہائی کا معاملہ اٹھایا اور اسے اپنے منشور کا حصہ بنایا۔ واشنگٹن ڈی سی میں پاکستان کے سفارت خانے کے دورے کے موقع پر اس وقت امریکہ میں پاکستان کے سفیر علی جہانگیر صدیقی سے اس حوالے سے بھی سوال و جواب ہوئے کہ کیا نئی حکومت کے آنے سے عافیہ کی رہائی کا معاملہ کچھ آگے بڑھا ہے اور مزید اس حوالے سے کیا اقدامات ہو رہے ہیں۔سفیر صاحب نے کہا کہ یہ بہت تکلیف دہ ایشو ہے اور میں دل سے اس درد کو محسوس کرتا ہوں ہم ہمہ وقت اس پر کام کر رہے ہیں لیکن کیا ڈویلپمنٹ ہے اس پرمیں آپ کو نہیں بتاسکتا۔ بہت سی باتیں کانفیڈنشل ہوتی ہیں لیکن ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔ ٹیکساس کے شمال میں ڈیلس شہر آباد ہے۔ یہ ایک بڑا شہر ہے جو یہاں کی کاروباری اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ ہم 13دسمبر کی شام ڈیلس پہنچے اور 18دسمبر کی صبح یہاں سے فلوریڈا کے لئے روانہ ہو گئے یوں چار ورکنگ ڈیز ہم نے ڈیلس میں گزارے۔ ڈیلس میں ہم نے ایک الیکٹرانک میڈیا این بی سی فائیو اور پرنٹ میڈیا کے ادارے ڈیلس مورننگ نیوز اور ڈیلس بزنس جرنل کا مطالعاتی دورہ کیا۔ اس کے علاوہ خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والے دو اور اداروں میں گئے۔ ان میں سے ایک ادارے کا نام ڈیلس الائنس فار ویمن ان میڈیا فائونڈیشن تھا اور دوسرے ادارے کا نام ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ پہلا ادارہ الیکٹرانک میڈیا میں اپنا کیریئر بنانے کی خواہش مند خواتین کو آگے بڑھنے کے لیے نیٹ ورکنگ کی سہولت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی میدان میں مالی سپورٹ بھی دیتا ہے۔ دوسرا ادارہ ٹرننگ پوائنٹ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کی قانونی امداد کرنے کے علاوہ ان کی مکمل بحالی کے لئے کام کرتا ہے جس میں ایسی خواتین کی نفسیاتی اور جذباتی صحت کی بحالی کے لئے اقدامات کرتا ہے اور اس وقت تک ایسی خواتین کا سہارا بنتا ہے جب تک وہ زندگی کی طرف بالکل نارمل انداز میں واپس نہ آ جائیں۔ ٹرننگ پوائنٹ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر وینڈی ہنہ(wendy Hanna)سے ملنے ہم ڈیلس کی ایک معروف شاہراہ واقع ان کے دفتر گئے جو 42ویں منزل پر تھا۔ لفٹ جب تیزی سے 42ویں منزل کی طرف گئی تو اکثر کے سر چکرانے لگے۔ خیر خود کو بحال کرتے‘ مختلف راہداریوں سے گزرتے ہوئے ہم ایک گلاس ڈور سے ان کے دفتر کے کانفرنس روم میں داخل ہوئے۔ مجھے یاد ہے کہ یہ اس روز کی آخری میٹنگ تھی اور سبھی لوگ اسی قسم کی میٹنگز اور سوال و جواب کے سیشن سے قدرے اکتائے ہوئے تھے۔ دو خواتین وہاں موجود تھیں جنہوں نے بڑا پرتپاک خیر مقدم کیا۔ ان میں ایک قدرے عمر رسیدہ خاتون جو شانوں تک کٹے ہوئے سنہری بالوں والی‘ کالے فریم کا چشمہ لگائے مسکرا مسکرا کر سب کو یو ویلکم کہتی تھیں، وہی اس ادارے ٹرننگ پوائنٹ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر تھیں۔ ان کے ہمراہ ایک ینگ لیڈی کھڑی تھیں جو کرسٹی سم تھیں جو اس ادارے میں ریسرچر اور ٹرینر تھیں اور پروگرام کے مطابق دونوں خواتین نے باری باری پاکستانی وفد سے بات چیت کرنا تھی لیکن وینڈی ہنہ بلا کی باتونی نکلیں کہ انہوں نے کرسٹی سم کو بات کرنے کا موقع ہی نہ دیا۔ اگرچہ بات انہوں نے یہاں سے شروع کی کہ میں بہت شائے اور introvertہوں اس طرح لوگوں سے بات کرنا اور انٹرویو دینا مجھے مشکل لگتا ہے۔ میں کم سوشلائز کرتی ہوں وغیرہ وغیرہ۔ ہماری ساتھی صحافیوں نے بہت اچھے سوالات کئے لیکن وہ اس کا موقع ہی ذرا کم دیتی تھیں۔ ایک سوال کے جواب میں اتنا طویل جواب دیتی کہ سوال پوچھنے والا سوال ہی بھول جاتا کیونکہ خود وینڈی سوال کے دائرے سے باہر نکل کر اور کئی جہانوں کی سیر کر رہی ہوتیں۔ ایک مصروف اور تھکا دینے والے دن کے بعد وینڈی کے ساتھ سیشن بہت ہی بورنگ سا لگا۔ اس پر ان کی نان سٹاپ گفتگو کہ جنسی زیادتی کا شکار خواتین کو ہم ہر طرح کی اخلاقی‘ قانونی‘ نفسیاتی اور جذباتی سپورٹ فراہم کرتے ہیں ان کی نان سٹاپ گفتگو کو اس وقت ایک سپیڈ بریکر کا جھٹکا لگا جب میں نے ان سے عافیہ صدیقی کا سوال کر دیا اور کہا کہ ٹیکساس کی ایک جیل میں پاکستانی قیدی عافیہ صدیقی 86سال کی سزا بھگت رہی ہے اور وہ روز جیل میں زخمی اور جنسی زیادتی سے گزرتی ہے۔ کیا آپ اور آپ کا ادارہ اس قیدی عورت کے حق کے لئے آواز بلند کرے گا۔؟ وینڈی ہنہ نے حیرت سے کہا۔ I,dont know who is Afia siddiqi پھر اس نے 86سال کی قید پر اور بھی بے یقینی کا اظہار کیا۔ میں نے عافیہ کا بیک گرائونڈ ان کو بتایا۔ وینڈی ہنہ کی سرپٹ بھاگتی گفتگو کو اب بریک لگ چکی تھی۔ سیشن کا وقت بھی ختم ہو چکا تھا۔ وینڈی نے ایک کاغذ میری طرف بڑھایا اور کہا اس پر مجھے پاکستانی قیدی عورت کا نام لکھ دو اور اپنا ای میل بھی لکھ دیں میں اس معاملے کو ضرور دیکھوں گی۔ میں نے ہوسٹن میں پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروق کا نام بھی لکھ دیا اوروینڈی سے الوداعی مصافحہ کرتے ہوئے درخواست کی کہ آپ اپنے ادارے ٹرننگ پوائنٹ کے فورم سے عافیہ صدیقی کے لئے آواز بلند کریں۔ ڈیلس شہر کی معروف شاہراہ پر آسمان کو چھوتی ہوئی عمارتیں تھیں۔ سڑکوں پر بھاگتی دوڑتی گاڑیاں تھیں شام کے پھیلتے سائے تھے اور دل میں ٹیکساس کی جیل میں قید کاٹتی عافیہ صدیقی کے لئے عجیب سی اداسی تھی۔