پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن نے بھارتی ریشہ دوانیوں کا مل کر ہر سطح پر مقابلہ کرنے اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کا بھرپور ساتھ دینے کا عہد کیا ہے۔ دوسری طرف کور کمانڈرز کانفرنس میں کشمیریوں کا ساتھ دیتے ہوئے کسی بھی حد تک جانے کا یقین دلا کر مسلح افواج نے کشمیریوں کا حوصلہ بڑھا یا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھارت میں نازی ازم کے احیاء اور امن دشمن پالیسیوں کا تاریخی جائزہ لے کر خدشہ ظاہر کیا کہ کشمیر میں بھارتی جبر پلوامہ جیسے مزید واقعات کا سبب بن سکتا ہے۔ وزیراعظم نے اعلان کیا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر عالمی برادری کو حقائق سے آگاہ کرے گا اور بھارت نے اگر مہم جوئی کی تو اسے اسی انداز میں جواب دیا جائے گا۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور دیگر اراکین نے بھی اپنے خطاب میں کشمیری عوام پر بھارتی مظالم کا ذکر کرتے ہوئے ضروری اقدامات میں حکومت کی حمایت کا اعلان کیا۔ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ٹویٹ کے ذریعے بتایا کہ کورکمانڈرز کانفرنس میں کشمیر کا معاملہ زیر بحث آیا۔ کانفرنس کے دوران حکومت کی طرف سے بھارتی اقدامات کو مسترد کئے جانے کے فیصلے کی مکمل تائید کی گئی۔ میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پاکستان نے کبھی بھارتی آئین میں شق 370 اور 35 اے کی مدد سے کشمیر پر قبضے کو قانونی شکل دینے کی کوشش تسلیم نہیں کی۔ پاک فوج مکمل طور پر تیار ہے اور اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے لئے کسی بھی حد تک جائیں گے۔ کشمیر کے معاملے پر افواج پاکستان کا موقف اس لحاظ سے اہم ہے کہ پاکستانی اور کشمیری عوام بھارت کی پیدا کردہ صورتحال کو دفاعی پہلو سے زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔ بھارت کی طرف سے کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے اثرات کا تجزیہ جاری ہے۔ لائن آف کنٹرول کو بھارت اب بین الاقوامی سرحد قرار دے سکتا ہے۔ بی جے پی کے حامی بڑے سرمایہ کار گروپ لداخ اور کشمیر میں اراضی اور جائیدادیں خریدنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ لداخ کے وسیع غیر آباد علاقے میں دوسرے علاقوں سے لا کر ہندوئوں کی محفوظ کالونیاں بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ کشمیر اور لداخ میں غیر مقامی افراد کو ووٹ کا حق دینے سے مقامی آبادی کی رائے کو غیر موثر بنانے کا انتظام کیا جا رہا ہے جبکہ دوسرے علاقوں کے لوگوں کو یہاں کی ملازمتوں میں حصہ دینے سے کشمیر کی انتظامی استعداد میں نقب لگائی جا رہی ہے۔ یہ سب وہ تبدیلیاں ہیں جو کشمیری باشندوں کی خودمختاری، انسانی حقوق اور سلامتی کے لئے خطرہ بن سکتی ہیں۔ بھارتی پارلیمنٹ میں بی جے پی حکومت کے اقدام پر اپوزیشن اور بعض حکومتی جماعتوں کا ردعمل پہلے دن کی نسبت شدید رہا۔ راجیہ سبھا میں جس طرح کسی بحث کے بغیر یہ بل منظور کیا گیا اس سے بھارت کے جمہوری نظام اور جمہوریت کی حقیقت بے نقاب ہوئی ہے۔ ایک ایسا معاملہ جس سے ڈیڑھ ارب انسانوں کی سلامتی جڑی ہوئی ہے اسے حکمران جماعت کی ہٹ دھرم قیادت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ نہ کسی کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا گیا نہ ان مظلوموں کی رائے لی گئی جن کی قسمت کا فیصلہ کیا جا رہا تھا۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی چارٹر میں ایسے ضابطے موجود ہیں جو کسی علاقے کے عام شہری کو یہ حق دیتے ہیں کہ وہ ریاستی جبر اور اپنے بنیادی انسانی حقوق سلب کرنے پر اقوام متحدہ سے رجوع کر سکتا ہے۔ کشمیری باشندے فلسطینیوں کی طرح بے بس نہیں۔ ان کی بڑی تعداد امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے دیگر ممالک میں عشروں سے مقیم ہے۔ بہت سے کشمیری طاقتور ممالک میں اہم سیاسی ، انتظامی و کاروباری حیثیت کے مالک بن چکے ہیں۔ یہ لوگ مشترکہ طور پر بھارت کی جمہوریت کے نیچے پردے میں بھیانک حقائق کو دنیا کے سامنے لا کر مقبوضہ کشمیر کے مظلوموں کی مدد کر سکتے ہیں۔ بھارت کی پارلیمانی اشتعال انگیزی کے اثرات براہ راست کشمیریوں اور پاکستان کو متاثر کرتے ہیں۔ اس لئے خطے میں اپنے سیاسی اور عسکری وقار کا خیال رکھتے ہوئے ضروری تھا کہ پاکستان کا ردعمل موثر، نپا تلا اور بھرپور ہو۔ حیرت اس بات پر ہے کہ مسلم لیگ ن کے اراکین نے قومی یکجہتی کا ثبوت دینے کی بجائے غیر سنجیدہ طرز عمل اختیار کیا۔ اعظم سواتی کی پیش کی گئی قرارداد پر اعتراضات محض ایک بہانہ تھے۔ مودی حکومت نے جو کچھ کیا اور اس کی جس طرح مذمت کی جانی چاہئے اس کے لئے ایوان کی کارروائی کے دوران بات ہو سکتی تھی۔ پھر اصل بات یہ ہے کہ اعتراض کا موقع بحث کے بعد ترتیب دیئے گئے مشترکہ اعلامیہ یا قرارداد کے نکات ہو سکتے تھے۔ ن لیگ کے رہنما احسن اقبال پارلیمنٹ سے باہر 20 منٹ تک صرف وزیراعظم کے خلاف میڈیا سے بات کرتے رہے۔ پارلیمنٹ عوام کے منتخب نمائندوں کا فورم ہے۔ یہاں ان امور پر بات ہونی چاہئے جو عوام کے لئے بہت اہم ہیں۔ اس وقت پاکستان اور کشمیر کے عوام بھارت کی پارلیمانی دہشت گردی کا مضبوط جواب چاہتے ہیں۔ سیاسی اختلافات کا ہر موقع پر اظہار کرکے اپوزیشن یہ تاثر دے رہی ہے کہ کشمیر کا معاملہ صرف حکومت اور فوج کی ذمہ داری ہے۔ اس بار حکومت نے بھی تحمل کا مظاہرہ کیا اور اپوزیشن کے مطالبات -1 قرارداد میں بھارتی آرٹیکل 370 اور 35 اے شامل کیا جائے -2 وزیراعظم عمران خان خود اجلاس میں شریک ہوں -3 اور آصف زرداری سمیت تمام گرفتار رہنمائوں کے پروڈکشن آرڈر جاری کئے جائیں، تسلیم کر لئے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے باہمی کشیدہ تعلقات کے باوجود یہ امر خوش آئند ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کشمیر کے معاملے پر متحد اور مشترکہ سوچ رکھتے ہیں۔ پاکستان کے ردعمل سے مہذب دنیا کو یہ قائل کرنا آسان ہو گا کہ پاکستان تنازع کشمیر کو بات چیت سے طے کرنا چاہتا ہے تاہم بھارت نے اپنی روش تبدیل نہ کی تو روائتی جنگ سے ایٹمی ٹکرائو تک کے امکانات موجود ہیں۔