نئی دہلی(نیٹ نیوز)بھارت میں مسلمانوں کی سیاست اورپارلیمان میں نمائندگی میں مسلسل کمی کا سلسلہ جاری ہے ۔جرمن خبررساں ادارہ کے مطابق ایک ارب تیس کروڑ آبادی والے ملک بھارت میں2011ء کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی تعداد 14.5 فیصد سے زیادہ ہے جبکہ پارلیمان میں انکی تعداد محض 3.5 فیصد ہے ۔عام انتخابات کے دوران یوں تو ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سمیت تمام اہم سیاسی جماعتیں پارلیمان میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کیلئے مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں ،تاہم پارلیمان میں مسلمانوں کی نمائندگی میں اضافہ کیلئے مخلص نہیں ہیں۔ 543 رکنی پارلیمان کے ایوان زیریں(لوک سبھا) میں اس وقت مسلم قانون سازوں کی تعداد محض 22 یعنی ساڑھے تین فیصد ہے ۔ 1980ء میں مسلم ارکان پارلیمان کی تعداد 10 فیصد تھی ۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے صدر شعبہ سیاسیات ڈاکٹر پروفیسر افروز عالم کا کہنا ہے کہ سیاسی میدان میں مسلمانوں کو نظر انداز کرنا قابل تشویش ہے اور یہ عمل جمہوری بحران کا سبب بن سکتا ہے ۔ اگر ان چیلنجز کو بروقت حل نہ کیا گیا تو خدشہ ہے کہ بھارت کے اقلیتی شہری بے معنی ہوکر رہ جائیں بلکہ ملک کے سیاسی نقشے سے ہی غائب ہوجائیں۔ مسلمانوں کو امیدوار بنانے سے جان بوجھ کر انکار کرنا شمولیتی جمہوریت کے وجود کیلئے خطرہ ہوسکتا ہے ۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مین سٹریم پارٹیاں مسلمانوں کو نظر انداز کر رہی ہیں۔ آنیوالے برسوں میں بھارتی مسلمان اپنے شرعی معاملات کیلئے قانون سازی اور اپنے مستقبل کا فیصلہ خود نہیں کرسکیں گے