میڈیا اور نصابِ تعلیم کے گٹھ جوڑ سے معاشروں کو بدلنے کا تجربہ مغرب میں انتہائی کامیاب رہا۔ وہ معاشرے جہاں خاندانی اقدار و روایات، شرم و حیا اور مذہبی بالادستی چھائی ہوئی تھی وہاں سب سے پہلے ’’تحریکِ احیائے علوم‘‘ (Renaissance)کے نام پر آرٹ اور ادب میں نیم عریانی اور نیم فحاشی کے دروازے کھلے اور تحریر و تقریر میں جنسی جذباتیت کے اظہار کے لیے مذہبی اخلاقیات کو چیلنج کیا گیا۔ یوں تو اس تحریک کو اردو میں ’’احیائے علوم‘‘ کہا جاتا ہے لیکن یہ اپنے تمام تر مقاصد اور اہداف کے اعتبار سے ایک معاشرتی تبدیلی (Cultural Change)کی تحریک تھی، جو روم یعنی موجودہ اٹلی سے سولہویں صدی عیسوی میں شروع ہوئی۔جب قسطنطنیہ 1453ء میں سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں فتح ہوا تو وہاں موجود یونانی فلسفی، مصور، شاعر، ادیب اور مجسمہ تراش جو قرطبہ اور غرناطہ کے علمی ورثے سے بھی آشنا تھے اور یونانی کے ساتھ ساتھ عربی علوم پربھی دسترس رکھتے تھے ،بکھر کر روم جا پہنچے اورانہوں نے وہاں کی نسبتاً آزاد خیال اور جنسی تلذذ والی رومن اشرافیہ کے ساتھ مل کر ایک ایسا علمی خزانہ تخلیق کیا جس نے دنیا میں لبرل اور سیکولر اخلاقیات کی بنیاد رکھی۔ اس دور کی پینٹنگز کی نیم عریانی اور شاعری و افسانہ نگاری کی نیم فحاشی نے ایک ایسی فضا پیدا کی جس کی وجہ سے ہر بڑے شہر میں ایک آزاد اور روشن خیال ، جنسی حدود و قیود سے بالاتر ایک اشرافیہ پیدا ہوا، جس میں خاندانی اور اخلاقی اقدار آہستہ آہستہ دم توڑتی چلی گئیں۔ انقلابِ فرانس کی مذہب بیزاری اور روایت دشمنی نے اسے سرکاری سرپرستی عطا کی اور یوں سیکولر، لبرل اخلاقیات مغربی کلچرکی علامت بنتی چلی گئیں۔قدیم اخلاقیات اور خاندانی زندگی کے لبادے کو تار تار کرنا اتنا آسان نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ دو سو سال کی ادبی فحش نگاری اور آزاد خیالی ،تھیٹروں، افسانوں، ناولوں اور بالاخر ریڈیو، فلم اور ٹیلی ویژن تک لے جائی گئی۔ ڈی ایچ لارنس کا ناول ’’لیڈی چیٹرلیز لور‘‘ (Lady Chatterley's Lover) اس تہذیبی زوال کا آئینہ دار ہے،جس میںایک مالکن جسمانی تلذذ کے حصول کے لیے اپنے باغبان سے تعلقات استوار کر لیتی ہے۔ یہ ناول 1926ء میں اٹلی میں خفیہ طور پر چھپا مگر 1932ء تک یہ یورپ کے ہر شہر میں بھی خفیہ طور پر چھپنے لگا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب ایسی اخلاقیات عام ہوئیں تو ایک طبقے نے اتنی بے باکی حاصل کر لی کہ لیڈی چیٹرلیز اور مادام بواری جیسی اخلاق باختہ عورتوں کے نام پر گلیوں اور بازاروں کے نام تک رکھنا شروع کر دیئے۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد ابھرنے والے یورپ اور امریکہ کی تہذیبیں میڈیا کے شکنجے میں آچکی تھیں۔ عورت شمع محفل بھی تھی اور کاروباری دنیا کامرکز و محور بھی۔ وہ سفر جو عورت کے ہاتھ میں سگرٹ پکڑا کر اشتہار بنانے سے شروع ہوا تھا ،آج اس مقام تک آچکا ہے کہ کسی بھی قسم کی عریانیت اب آنکھوں کو حیران نہیں کرتی۔ عورت کو ماں بیٹی، بہو اور بیوی کے کردار سے الگ کرکے پائلٹ، سائنس دان، اداکارہ، موجد اور سیاستدان وغیرہ کے کرداروں میں مرد سے براہ راست مقابلے پر اتارا گیا۔میڈیا میں فلم ڈراموں اور ناولوں میں ایسے رول ماڈل پیش ہوئے اور پھر ان رول ماڈل خواتین کو معاشرے میں عزت و تکریم دی گئی۔ دنیا کا ہر بڑا ایوارڈ ان کے قدموںپر نچھاور کیا گیا۔ گذشتہ ایک سو سالوں میں کوئی ایک بھی عالمی یا علاقائی ایوارڈ ایسا نہیں ہے جو ایک بہترین ماں کے لیئے مخصوص کیا گیاہو۔ وہ ماںجس کی تربیت سے کوئی نوبل انعام یافتہ ی یاکامیاب وزیراعظم پیدا ہوا تھا۔ یوںخاندانی زندگی کا شیرازہ بکھرا، خاوند و بیوی میں پیشہ ورانہ دوڑ نے آپس کے تعلقات اس قدر تلخ کر دیئے کہ اس کے نتیجے میں پہلے طلاق کی شرح بڑھی اور پھر شادی کا ادارہ ہی دنیا سے معدوم ہوتا چلا گیا اور آج اس کی جگہ بغیر اعلان یا بغیر نکاح اکٹھے رہنے (Living together)کا رواج چل نکلا ہے۔ میڈیا جنسی جذبات کو برانگیختہ کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہاتھا اور خاندانی زندگی ٹوٹ رہی تھی، ایسے میں کم عمری کی شادی پر پابندی نے اس مخلوط معاشرے کوایک ایسے مقام پر لاکر کھڑا کر دیا کہ آج صرف ایک ملک امریکہ میں ہی ہر دو منٹ میں ایک عورت جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہے اور ہر سال دس لاکھ کم سن بچیاں بغیر شادی کے مائیں بنتی ہیں۔ میڈیا کبھی کامیاب نہ ہو پاتا اگر اس کو ’’نظامِ تعلیم‘‘کا ساتھ نہ ملتا۔ گذشتہ ایک سو سالوں میں دنیا بھر کے نظام ہائے تعلیم کو بھی انہی لبرل، سیکولر اخلاقیات اور جنسی آزادی والی معاشرت کی نرسری بنایا گیا۔ امریکہ میں 1905ء میں سرکاری سطح پر بنیادی تعلیم لازمی بھی ہوئی اور اس کے خدوخال اور نصاب کو بھی منظم کیا گیا۔ ایلیگذینڈر انگلس (Alexander inglis)کی کتاب ’’سیکنڈری تعلیم کے اصول و قواعد‘‘(Principles of Secondary Education) جو 1918ء میں چھپی وہ اس دور میں مرتب کئے گئے نظامِ تعلیم کے جو چھ مقاصد بتاتی ہے، ان کا بنیادی اورمرکزی نکتہ یہ تھا کہ یہ ہم نے اپنے بچوں کو ایک ایسی تعلیم دینی ہے جو انہیں معاشرہ، گھر اور محلہ سے حاصل کی گئی فرسودہ اقدار و روایات کو بھلانے "De Learn" میں مدد دے اور جدید سیکولر ، لبرل اخلاقیات سکھائے۔ مذہب خاندان، رشتے داری اور جنسی تفاوت اور جنسی اختلاط جیسے موضوعات نصاب کا حصہ ہوںاور ان پر سوال اٹھانے کی آزادی ہو، جس سے اذہان کھلیں اورانسان خود اپنے لیے ایک نئی اخلاقی اور معاشرتی دنیا تخلیق کر سکے۔ انہی بنیادوں پر 1933ء کے گیارہ اپریل کو راک فیلر فاؤنڈیشن اور میکس میسن نے امریکہ میں پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کاایک جامع قومی پروگرام شروع کیا جس کی کوکھ سے آج کا جدید ترین مغربی نظامِ تعلیم برآمد ہواہے جو آج پوری دنیا میں سکہ رائج الوقت ہے۔ پاکستان کا میڈیا اور پاکستان کا نظامِ تعلیم ان دونوں مغربی نظاموں کا بھونڈا اور بدترین چربہ ہے۔ نظامِ تعلیم بچپن ہی سے بچوں کو جس طرح کی کہانیوں، نظموں، کارٹونوں اور شخصی رول ماڈلوں سے آشنا کرتا ہے ،ان سب کا تعلق جدید مغربی دنیا سے ہوتاہے۔ یوں بچے کے دماغ میں ایک ایسا ماحول آباد ہوجاتا ہے جس میںاخلاقی حدودسے آزادی ہے، خاندانی روایات سے بغاوت ہے، جنسی لذت کے افسانے ہیں اور ان کی تخلیق کردہ ایک رومانی کیفیت ہے جسے مخلوط تعلیم کے خوبصورت ماحول میں پروان چڑھایا جاتا ہے۔ اللہ، مذہب، کائنات، نظامِ زندگی اور اخلاقی اقدار پر سوالات کرنا سکھایا جاتا ہے۔ یہ وہ زرخیز مٹی ہے جسے نصابِ تعلیم تیار کرتا ہے اوراس میں اگنے والے الحاد ، بے حیائی اور روشن خیالی کے پودوں کی نشونما سول سوسائٹی اور میڈیا کے ذریعے کی جاتی ہے۔یوں پورے کا پورا معاشرہ ایک ایسے رنگ میں رنگ جاتا ہے، جس میں بوڑھے والدین اولڈ ہوم کے سپرد ہوتے ہیں، ناجائز اولادیں فوسٹر ہوم کے پاس، جائز اولادیں ڈے کئیر سنٹر کے پاس، مطلقہ نوجوان لڑکیاں والدین کی ازسرِ نو ذمہ داری اور گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والیاں کبھی دارالامان میں تو کبھی کسی دھندہ کرنے والی عورت کے اڈے پر پناہ لیتی ہیں ۔ یہ ہے وہ جہنم جس میں ہمیں زبردستی دھکیلا جارہا ہے۔ ہمارے والدین کی جیب سے پانچ ہزار سے پچاس ہزار تک ماہانہ فیسیں لے کر بچوں کو اخلاق باختگی کی ایک ایسی نرسری میں پروان چڑھایا جاتا ہے جہاں ان کو خوشگوار مستقبل کے سہانے خواب دکھا کر اس جدید تہذیب کو اوڑھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ان سب کی وجہ سے میرے ملک کو آج یہ دن بھی دیکھنا پڑا ہے کہ 2015ء سے اب تک کے پانچ سالوں میں 22ہزار بچیاں جنسی تشدد کا شکار ہوئیں یعنی ہر روز گیارہ بچیاں اس ظلم کا نشانہ بنیں۔اس جہنم سے نکلنے کا واحد حل یہ ہے کہ میڈیا اور نظامِ تعلیم دونوں کے مقاصد کو ایک دوسرے سے جداکردیا جائے۔ میڈیا توکسی کے کنٹرول میں نہیں ہے لیکن اگر نظامِ تعلیم کی سمت درست ہوجائے، نصاب درست مرتب ہوجائے تو یہ ایک ایسی ڈھال بن جائے گا کہ جس پر کوئی تہذیبی تیر اثرانداز نہ ہوگا۔ (ختم شد )