گاؤں کی کچی مسجد اور اس سے اٹھنے والی مغرب کی آذان اپنے آشیانوں کی طرف اڑتے پرندے اور گھاس پھونس سے بنے ہوئے گھروں سے نکلتا ہوا دھواں!! یہ کسی کالم کی ابتدا کم اور کینوس پر بنی ہوئی پینٹنگ زیادہ لگتی ہے۔ مگر یہ تصوراتی اور محض خیالی نقش نہیں۔ ہم جن کی جڑیں اب تک گاؤں کی گیلی مٹی میں ہیں۔ ہم جو شہروں میں اجنبی بن کر رہتے ہیں۔ ہم جو کاروں میں سفر کرتے ہیں۔ ہم جو دفاتر میں بیٹھتے ہیں۔ ہم جو ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں سوتے ہیں۔ ہم سب جو سفید بالوں میں کئی کہانیاں سما کر چلتے ہیں۔ کبھی کبھی ہم سب کو محسوس ہوتا ہے کہ ہم شہروں میں آکر پناہ گیر بن گئے ہیں۔ پتھر اور سیمنٹ سے بنے ہوئے شہروں میں آکر ہم قید ہو گئے ہیں۔ ہمارا اصل وطن تو وہ گاؤں تھا جہاں کسی کے لیے کوئی اجنبی نہ تھا۔ جہاں ایک کا درد سب کا درد ہوا کرتا تھا۔ جہاں ہم نے زندگی کو مصنوعی پن سے پاک دیکھا۔ جہاں مرد بالوں پر خضاب اور عورتیں گالوں پر فاؤنڈیشن نہیں لگاتی تھیں۔ جہاں انڈر گارمینٹس کا تصور تک نہیں تھا مگر پھر بھی مرد باوقار اور عورتیں ڈھلتی ہوئی عمر میں بھی سمارٹ اور خوبصورت نظر آتی تھیں۔ وہ دنیا ایک عشق کی طرح تھی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اس دنیا کو چھوڑ آئیں ہیں تو وہ دنیا ختم ہوگئی ہے۔ وہ دنیا ہمارے نہ ہونے سے دفن ہوگئی ہے۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ وہ شہروں میں آکر لاک ڈاؤن کا شکار ہوگئے ہیں مگر ہمارے دیہات آج بھی آباد اور آزاد ہیں۔ وہاں کوئی لاک ڈاؤن نہیں۔ وہاں لوگ آج بھی ایک دوسرے کے ساتھ جھپیاں پا کر ملتے ہیں۔ جہاں شادیوں میں لوگ ایک برتن میں کھاتے ہیں۔ رات کو صوفی اور رومانوی کلام گاتے ہیں۔ گھروں میں خواتین لوک رقص کرتی ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ بڑی محبت سے ملتی ہیں۔ مگر وہاں سے کورونا کے کیسز نہیں آتے۔ دیہاتی دنیا میں اب تک کورونا داخل نہیں ہوا مگر وہاں کورونا کا نام ضرور پہنچ گیا ہے۔ وہ سادہ مزاج لوگ شام کے وقت کچی مسجد کے صحن میں کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی دری بچھا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے بچے گھروں سے افطاری کے لیے کھانا لاتے ہیں۔ وہ اذان کے بعد مل کر افطاری کرتے ہیں اور نماز مغرب کے بعد جلدی گھر نہیں جاتے۔ وہ وہاں پر کافی دیر تک بیٹھے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے پاس موجود معلومات کو ایک دوسرے سے شیئر کرتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو بتاتے ہیں کہ شہروں میں کوئی کورونا نامی وبا پھوٹ پڑی ہے۔ اس وبا کے باعث لوگوں نے باہر نکلنا چھوڑ دیا ہے۔ بازاریں اور دکانیں بند ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کو گلے لگانا تو دور وہ تو ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ تک نہیں ملاتے۔ وہ ایک دوسرے سے ڈرتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ اب تو شہروں کی طرف جانے والی گاڑیاں بھی بند ہیں۔ کورونا کی وجہ سے ریل گاڑیاں بھی نہیں ہیں چلتیں۔ سب کچھ رک گیا ہے۔ کوئی اپنی سفید داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ اعمال کی شامت ہے اور کوئی اپنی نئی نئی آتی مونچھوں کو تاؤ دیکر کہتا ہے کہ چاچا جی! یہ بیماری ہے۔ اور چاچا بڑے سکون کے ساتھ کہتا ہے کہ بیٹا! بیماریاں تو بہانہ ہوتی ہے۔ اصل بات تو اعمال کی سزا ہے۔ مسجد کے صحن میں بیٹھے ہوئے کوئی پوری جماعت کو بتاتا ہے کہ یہ بیماری ملکی نہیں غیر ملکی ہے۔ یہ باہر سے آئی ہے۔ ’’انسانوں پر ہر دور میں آزمائش آتی رہی ہے۔ ‘‘ مسجد کا پیش امام اپنی آنکھوں کو اطمینان کے ساتھ جھپکتے ہوئے کہتا ہے۔ میدا دادا کہا کرتا تھا کہ وہ بھی اس وقت بچہ تھا جب ہیضہ کی وبا پھوٹی تھی۔ اس سے بیشمار لوگ موت کا شکار ہوئے تھے۔ دادا بتاتے تھے کہ اس دوران بچ جانے والے لوگ مرجانے والے لوگوں کو دفن کرکر کے تھک گئے تھے۔ مگر اس وبا کے باعث تو ایسا نقصان سننے میں نہیں آیا۔ دو تین ہزار سے زیادہ لوگ تو ویسے بھی مرجاتے ہیں مگر پہلے یہ ریکارڈ پر نہیں آتا تھا اور آج کل کہہ رہے ہیں کہ جو مرتا ہے اس کو کورونا کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ مسجد میں جاری اس معصومانہ محفل میں کوئی پوچھتا ہے کہ اس کا علاج کیا ہے؟ ایک شخص جواب دیتا ہے کہ سنا ہے اس وبا کا اب تک کوئی علاج دریافت ہی نہیں ہوا۔ پھر اس سے کیسے بچا جائے؟ وہ دوسرا سوال اٹھاتا ہے تو اس کو جواب ملتا ہے کہ دن میں دو چار بار ہاتھوں کو دوھونے اور ناک میں پانی ڈال کر اسے صاف کرنے اور اپنے آپ کو غلاضت سے پاک رکھنے سے کہتے ہیں کہ یہ مرض نہیں ہوتا۔ یہ بات سن کر ایک بزرگ شخص بچوں کی طرح ہنسنے لگتا ہے اور کہتا ہے سیدھا صاف کیوں نہیں کہتے کہ سب کو پانج بار وضو کرنا چاہئیے۔ اس طرح کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ کہتا ہے مگر کوئی کسی کی بات نہیں کاٹتا۔ کوئی کسی کی بات پر ردعمل کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ کوئی کسی کی بات کا برا نہیں مناتا۔ کوئی کسی سے اختلاف نہیں رکھتا۔ ہر کوئی ہر کسی کی بات کو سنتا ہے اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ دنیا ہم چھوڑ آئے جہاں پیار تھا اور اعتبار تھا۔ جہاں محبت تھی ؛ سچائی تھی اور اچھائی تھی۔ جہاں ہو کوئی محنت کرتا تھا۔ جہاں بچوں سے محبت کی جاتی تھی۔ جہاں بزرگوں کی عزت کی جاتی تھی۔ جہاں فطری پردہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کے گھر ایک دوسرے سے ذرا فاصلے پر ہوا کرتے تھے۔ جہاں لوگ ایک دوسرے سے کچھ فاصلہ رکھنے کے باوجود بھی بہت جڑے ہوئے ہوتے تھے اور صرف تھے کیوں؟ وہ دنیا آج بھی اس طرح ہے جس طرح ہم نے اس کو چھوڑا تھا۔ البتہ وقت کے ساتھ اس میں کچھ تبدیلیاں آگئی ہیں۔ ہماری دیہاتی دنیا آج بھی مصروف عمل ہے۔ آج بھی ہم جو گندم کی روٹی اور چاول سے بنی ہوئی بریانی کھاتے ہیں وہ ان لوگوں کی محنت سے حاصل ہوتی ہے جو لوگ دیہاتوں میں رہتے ہیں اور ہم شہروں میں رہتے ہوئے ان لوگوں کی سماجی پس ماندگی کے بارے میں تقاریر کرتے ہیں۔ ہم سرکاری اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کے معرفت انہیں شہروں کی طرح جینا سکھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اب جب شہر کورونا کی مٹھی میں بھنچ گئے ہیں۔ اب جب شہروں کی آزادی کورونا کی وجہ سے ختم ہوگئی ہے۔ تب ہمارے تصورات میںاپنے بھولے بسرے گاؤں ابھر رہے ہیں۔ وہ گاؤں جو آج بھی اپنی خاص طرز زندگی کے ساتھ کورونا کی وبا سے محفوظ ہیں۔ جب ہم شام ڈھلے لاک ڈاؤن کی وجہ سے جیل کے قیدیوں کی طرح اپنے اپنے بیرک میں بند ہوجاتے ہیں اس وقت وہ آزادی سے چلتے ہیں۔ دنیا کے دانشور حضرات ہمیشہ کہتے رہتے ہیں کہ دیہاتوں کو شہروں سے سیکھنا چاہئیے مگر اس وقت کورونا یہ کہتا نظر آتا ہے کہ شہروں کو کچھ دیہاتوں سے بھی سیکھنا چاہئیے۔ اگر شہر دیہاتوں سے سیکھتے تو آج ووہان اور نیو یارک کی آسمان کو چھونے والی عمارتیں اتنی اداس اور مغموم نظر نہیں آتیں۔ یہ وقت غور و فکر کا ہے۔ یہ وقت اپنی غلطیوں کو سمجھنے کا ہے۔ یہ وقت شہری تکبر کا شکار ہونے کا نہیں۔ یہ وقت دیہاتی دنیا کے لوک دانائوں سے سیکھنے کا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب ہم اشفاق احمد کے فلسفے کوسنجیدگی اور گہرائی سے سمجھ سکتے ہیں۔ اشفاق احمد صاحب اگر کورونا کے موجودہ دور میں ہوتے تو وہ ’’کورونا‘‘ کے نام سے ایک اور ڈرامہ سیریل شروع کردیتے اور ہم کو سمجھاتے کہ کورونا سے ڈرنا نہیں ہے۔ کورونا سے لڑنا بھی نہیں ہے۔ کورونا کو اپنے راستے پر جانے دینا ہے اور خود اپنی راہ پر چلتے رہنا ہے۔ مگر وہ وہ راہیں؛ وہ بانہیں اور وہ گلیاں چھوڑ آئے ہیں جن گلیوں میں زندگی آزاد ہے۔ جہاں کوئی لاک ڈاؤن نہیں ہے۔