پوری امتِ مسلمہ کو اس کا جشن منانا چاہیے۔ ان دنوں ان منافقین کے چہرے دیکھنے والے ہیں جو کلمہ تو اس کائنات کے مالک و مختار ‘ اللہ کا پڑھتے ہیں، نعتیں بھی اس رسولِ رحمت کی شان میں تحریر کرتے ہیں جس کی ساری زندگی اپنے وصال کے آخری سال تک کفار‘ مشرکین اور اللہ کے دشمنوں کے خلاف شمشیر بکف گزری۔ لیکن ان کے سینوں میں ٹیکنالوجی کے بت چھپے ہوئے ہیں۔ یہ اس رسولؐ کی امت کی تضحیک کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ وہ رحمتہ اللعالمین جو اپنی امت کے اوصاف گناتے ہوئے بار بار فرماتے ہیں کہ جو یہ اوصاف و خصائص نہیں رکھتا وہ ہم میں سے نہیں۔ احادیث کی ایک لڑی ہے جو اس فقرے پر ختم ہوتی ہے’’فَلَیْسَ مِنِّی‘‘ پس وہ ہم سے نہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے ذلت و مسکنت مسلط کر رکھی ہے۔ وہ ہر صبح عالمی طاقت کی چوکھٹ پر ماتھا ٹیکتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے خدا کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں اور روز اس مذہب کے پرہوتوں کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہو کر سو جاتے ہیں۔ یہ ہے ان سب کی اوقات اور حیثیت جنہوں نے میرے اللہ پر بھروسہ کرنا چھوڑا۔ ہر روز ان کو ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے۔ ایئر پورٹوں پر لباس اتروا کر تلاشیاں لی جاتی ہیں۔ گھروں سے تفتیش کے لئے اٹھائے جاتے ہیں اور پھر پرامن یعنی بے غیرتی کی زندگی گزارنے کی ضمانت دے کر امریکہ و یورپ میں رہنے کی اجازت ملتی ہے۔ حالانکہ ان ملکوں کے شہری ہوتے ہیں۔ کوئی حکمرانوں کو دھمکی دیتا ہے کہ پتھر کے دور میں بھیج دیں گے تو کوئی کہتا ہے کہ یہ تو پیسے کے لئے اپنی ماں بھی بیچ دیتے ہیں۔ انہیں کوئی بلیک لسٹ میں رکھتا ہے تو کوئی گرے لسٹ میں۔ کوئی مطالبہ کرتا ہے کہ پھانسی کی سزا ختم کرو تو کوئی زور ڈالتا ہے کہ اپنے پیارے رسولﷺ کی توہین کا قانون واپس لو۔ ان کی کوئی زندگی ہے۔ ان کے سفارتی پاسپورٹ ذلیل و رسوا ہیں اور ان کے اعلیٰ عہدیدار دو طرفہ میٹنگوں سے لے کر عالمی اجلاسوں میں چھوٹے چھوٹے گماشتوں کے ہاتھوں بے عزتی کرواتے ہیں۔ کسی میٹنگ میں ان کو قادیانیوں کے بارے میں جواب دہ ہونا پڑتا ہے تو کسی میں عزت کے نام پر قتل ہونے والی عورتوں کی صفائی دینا پڑتی ہیں۔ یہ ہیں خود مختار حکمران جو اگر پگڑی ‘ داڑھی اور شلوار قمیص میںہوں تو خواہ ممبران اسمبلی اور کشمیر کمیٹی کے سربراہ اور وفاقی وزیر کی حیثیت کیوں نہ رکھتے ہوں۔ ایئر پورٹوں پر روک لئے جاتے ہیں۔ تلاشی کے ذلت آمیز مرحلے سے گزرتے ہیں۔ دوسری جانب وہ ہیں کہ سفید شلوار قمیص‘ سروں پر عمامے‘ ٹخنوں سے اونچی شلواریں لپیٹے میٹنگ ہال میں داخل ہوتے ہیں اور پندرہ ممالک کے نمائندے حیرت سے دم بخود انہیں دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ یہ کون سی مخلوق ہے۔ جس نے دنیا کی بڑی سے بڑی مادی طاقتوں کو بیک وقت شکست دی ہے۔ ٹیکنالوجی کے خدائوں کا غرور پاش پاش کیا۔ ان بندگان خدا نے نہ صرف سرمایہ ‘ طاقت اور ٹیکنالوجی کو شکست دی بلکہ گزشتہ دو صدیوں سے راسخ تصور کی بھی نفی کر دی کہ جنگیں باقاعدہ منظم اور ڈسپلن کے تابع افواج ہی جیتا کرتی ہیں اور ملکوں کا دفاع بھی انہی کی مرہون منت ہے۔ جنگ عظیم اول سے ایک صدی پہلے عالمی طاقتوں نے منظم افواج ترتیب دیں ۔ ان میں قومیت کے جذبے کی آبیاری کی۔ انہیں ایک انچ زمین کے ٹکڑے کے لئے ہزاروں جانیں قربان کرنے کا درس دیا۔ انہیں دشمن کو نیست و نابود کرنے اور اس کے شہروں پر جھنڈا لہرانے کے خواب دکھائے۔ ان افواج نے برطانیہ‘ فرانس‘ پرتگال ‘ سپین اور ہالینڈ سے نکل کر دنیا کے ہر خطے پر حکمرانی قائم کی۔ وہاں اپنی طرز کی افواج بنائیں۔ جن میں سے کوئی برطانیہ کے یونین جیک کا پرچم اٹھا کر بادشاہ کی وفاداری کا حلف اٹھاتی تھی اور کوئی فرانس کے بادشاہ کا۔ ایسا مسلمانوں کی سرزمین پر ہوا اور کلمہ طیبہ پڑھنے والے مسلمان برما سے لے کر بلجیم اور بغداد سے لے کر حجاز مقدس تک انگریز کے یونین جیک کو بلند کرنے کے لئے لڑتے رہے۔ ایسی ہی مضبوط ‘ مربوط اور ڈسپلن کی تابع فوج افغانستان میں بھی ترتیب دی گئی۔ دنیا کے اعلیٰ ترین فوجی مراکز میں اس کو تربیت دی گئی۔ جدید ترین ٹیکنالوجی سے مزین اسلحے سے لیس کیا گیا۔ کوئی کم تعداد بھی نہ تھی۔ ساڑھے تین لاکھ۔ افغانستان وطن کا نعرہ دیا گیا۔ پرچم کی سربلندی کی قسمیں اور قومی ترانے کی عزت کے حلف اٹھائے گئے۔ لیکن تاریخ کہیں اور مرتب ہو رہی تھی۔ فیصلے عرش عظیم پر ہوتے ہیں اور اللہ صرف انہی کا ساتھ دیتا ہے جو یوم بدر کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اس پر توکل کر کے نکلتے ہیں۔ تین سو تیرہ جن کے پاس دو گھوڑے‘ چھ زر ہیں اور آٹھ تلواریں تھیں۔ ایک ہزار کے لشکر کے مقابل روانہ ہوئے تھے جو کیل کانٹے سے لیس تھے۔ ان میں کسی ایک نے بھی آج کے دانشور کی طرح رسول اکرم ﷺ سے سوال نہیں کیا تھا کہ ان کی طاقت دیکھو‘ یہ تو سراسر خودکشی ہے۔ اس لئے کہ ان میں کوئی ایک بھی ایسا منافق نہ تھا جو کلمہ اللہ کا پڑھے۔ نعت میرے آقاؐ کی لکھے اور سجدہ ٹیکنالوجی کے خدا کے سامنے کرے۔ یہی سنت افغانستان میں دہرائی گئی۔ اللہ نے اس ملک میں افغان وطن کی نام نہاد امریکہ پرست فوج کو شکست دی بلکہ میرے اللہ نے پوری دنیا کے سامنے ایک موازنہ اور تقابل بھی رکھ دیا۔ ایک اور ملک تھا عراق جس کے پاس دنیا کی چوتھی بڑی فوج تھی۔ یہ 1921ء میں قائم ہوئی۔ اس کے پاس دس لاکھ سپاہی تھے۔ ہزاروں ٹینک اور شاندار ایئر فورس تھی۔ لیکن زمین اور قومیت کے نام پر لڑنے والی یہ فوج امریکی طاقت اور ٹیکنالوجی کے سامنے ڈھیر ہو گئی۔ ایک طرف ٹیکنالوجی کا بت تھا اور دوسری طرف قومیت کا بت۔ لیکن جہاں مقابلہ اس مالکِ کائنات کے سرفروشوں سے ہوا تو ثابت کر دیا کہ جنگیں ٹیکنالوجی‘ عددی قوت‘ اسلحہ اور منظم فوج نہیں اللہ پر بھروسہ اورتوکل سے جیتی جاتی ہیں۔ ریان سی کروکر(Ryan c croker)کے بیان پر آج کیا کچھ یاد آ گیا۔ امریکی سفیر تھا۔ فارسی ‘ عربی جانتا تھا‘ مسجد وزیر خان آیا تو طالبان کے موضوع پر مجھ سے الجھ پڑا اور بولا تم ہمیشہ تاریخ کی غلط سمت(Wrong side of histryپر کھڑے ہوتے ہو۔ میں نے کہا تھا اللہ تمہیں زندگی دے اور اس وقت تک دے جب تم طالبان کی فتح اور امریکی شکست دیکھ سکو۔ وہ افغانستان میں سفیر بن گیا۔ پھر عراق چلا گیا۔ آج کل نیو یارک کی پرنسٹن یونیورسٹی میں مقیم ہے۔29جنوری 2019کو اس نے واشنگٹن پوسٹ میں لکھا ہے''This deal as a surrender''۔یہ معاہدہ ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے۔ ہتھیار کون ڈال رہا ہے امریکہ نہیں تمام عالمی طاقتیں جو اجتماعی طور پر افغانستان فتح کرنے گئیں تھیں اور کس کے سامنے ڈال رہی ہیں۔ وہ پچاس ہزار مسلمان جو یقینا امت مسلمہ ہیں اور یاد رکھو یہی امت مسلمہ ہے۔ یہی ہیں جو سرخرو ہیں۔ یہی ہیں جن کو اللہ کی نصرت حاصل ہوئی ہے۔ کوئی ہے جوفتح کا جشن منائے‘ خوشی سے جھوم اٹھے۔ سرفروشی سے نعرہ تکبیر بلند کرے۔ ٹیکنالوجی کے پجاریوں کے مردہ چہروں پر ماتم کا جشن منائے۔ میرے اللہ کی نصرت کا جشن۔