صرف ایک کھلاڑی ہوتا تو ڈیگو میراڈونا پوپ سے وہ نہ کہتا جو کہنے کے بعد ایک دنیا میراڈونا کی نظریاتی شخصیت کی پرستار ہو گئی،خود پوپ بھی ۔ ڈیگو میرا ڈونا نے زندگی بھر دو ہی محبتیں پالیں‘ فٹ بال اور سوشلزم۔ شہرہ آفاق پیلے نے بے ساختہ کہا کہ ہم دونوں آسمانوں پر ایک دن ایک ساتھ فٹ بال ضرور کھیلیں گے۔1986ء میں ارجنٹائن کو ورلڈ کپ میں فتح دلانے والے میراڈونا کا جنازہ ایوان صدر میں رکھا گیا اور دس لاکھ سے زاید پرستاروں نے آخری آرام گاہ تک پہنچایا۔اس کی خواہش تھی کہ قبر والدین کے پہلو میں بنائی جائے اس لئے وصیت کا احترام کیا گیا ۔عہد حاضر کے نامور کھلاڑی رینالڈو نے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے میراڈونا کو ایک یکتا جادوگر کہا۔ فرانس کے سابق نامور کھلاڑی زیڈان کا کہنا تھا کہ میرا ڈونا میرے لئے ایک انسپریشن تھے۔ جنازے کے جلوس میںایک بزرگ پرستار کہہ رہے تھے کہ میرا بیٹا کھی سال پہلے فوت ہو چکا ہے لگتا ہے آج دوسرا بیٹا بھی چل بسا۔ ایک نوجوان کے بقول میرا ڈونا نہیں مرا فٹ بال ہمیشہ کے لئے پنکچر ہو گیا۔ مخلوق خدا جب لاکھوں کا اجتماع کر کے کسی مرنے والے کے جنازے میں آتی ہے تو وہ کوئی مذہبی سکالر ہو‘ سیاستدان ہو یا کھلاڑی‘ بلا شبہ ہر دلعزیز ہوتا ہے۔ محبوب ہوتا ہے۔لوگوں کو اس میں اپنا باپ، بھائی، بیٹا ، محبوب ، دوست اور غمخوار نظر آتا ہے۔ میرا ڈونا میں شخصی کمزوریاں تھیں،وہ تشدد کے دو واقعات کے باعث تنقید کی زد میں رہا۔ چھ سال پہلے اپنے سے آدھی عمر کی گرل فرینڈ روسیواولیویا پر چلاتے ہوئے اسے سنا گیا۔ آڈیو ٹیپ میں تھپڑ جیسی آواز آئی مگر میرا ڈونا نے تھپڑ مارنے کی تردید کی۔ دوسرا واقعہ ایک ہوائی جہاز میں درجنوں مسافروں کے سامنے ہوا۔ میرا ڈونا نے اولیوا کی گردن دبوچنے سے پہلے اسے گالیاں دیں۔ دونوں میں لڑائی جھگڑا معمول رہا۔اولیویا بھی فٹ بال کی کھلاڑی تھی،برسوں ساتھ رہنے کے بعد دو سال پہلے میرا ڈونا اور اولیویا نے اپنی راہیں جدا کر لیں۔ ایک بار اس نے مانچسٹر یونائٹیڈ کے گول کیپر ڈیوڈ کے ساتھ مراسم کے شعبے میں اولیویا کو کمرے سے نکال دیا تب دونوںدوبئی میںتھے۔ پرستاروں کے لئے میرا ڈونا کا یہ روپ تکلیف دہ رہا لیکن اس کی دوسری خوبیاں انہیں سب کچھ بھلانے پر مجبور کر دیتیں۔ 30اکتوبر 1960ء کو میرا ڈونا پیدا ہوا تو اس کا خاندان انتہائی غربت کا شکار تھا۔ میرا ڈونا نے ابتدائی برس اسی حالت میں کاٹے۔گاوں کی بیزار سی زندگی میں اس کا کوئی مستقبل دکھائی نہ دیتا ۔قدرت چھوٹی سی بات سے زندگی کا رخ کیسے موڑ دیتی ہے ،اس کے ایک کزن بیٹو نے کم سن میرا ڈونا کو سالگرہ کے موقع پر ایک گیند کا تحفہ دیا۔ میرا ڈونا نے مشکل وقت میں گیند سے دوستی لگا لی۔ وہ اس گیند کو ہر وقت ساتھ رکھتا۔ ڈربلنگ کی بنیادی ٹیکنیکس سیکھتا رہا۔ آٹھ سال کی عمر میں ایک مقامی کلب میں اس نے ٹرائل دیے۔ اس کلب کے کوچ کا کہنا ہے کہ ٹیسٹ کے وقت یوں لگا جیسے میرا ڈونا کسی اور سیارے سے آیا ہے۔ کوچ کا کہنا ہے کہ فٹ بال میرا ڈونا کا حکم اس طرح مانتا گویا وہ گیند نہیں کوئی پالتو جانور ہے جسے میرا ڈونا کے پاوں کی حرکت کا اشارہ چاہئے ہوتا ۔ میرا ڈونا نے فٹ بال کو کھیل سے اٹھا کر ایک آرٹ کا نمونہ بنا دیا۔شاندار ڈربلنگ‘ پاسز اور زبردست شاٹس نے ارجنٹائن کے غریب بچے کو دنیا کا سپورٹس ہیرو بنا دیا۔ میرا ڈونا برطانیہ کے نو آبادیاتی نظام کا بڑا ناقد تھا۔1982ء میں برطانیہ نے Malvinasآئس لینڈ پر حملے کا فیصلہ کیا۔ میرا ڈونا کے لئے یہ شدید دکھ کا باعث تھا۔1986ء میں اس نے کوارٹر فائنل میں جب برطانیہ کے خلاف گول کر کے اپنی ٹیم کو فتح دلائی تو اس فتح کو آئس لینڈ پر حملے کا بدلہ قرار دیا۔ ویسا ہی بدلہ جیسا ہم سقوط ڈھاکہ کے بدلے بھارت سے لینا چاہتے ہیں۔ میرا ڈونا کے لئے برطانیہ کے خلاف کھیلنا ایک ذاتی جھگڑا نمٹانے کے برابر تھا۔ میرا ڈونا کے مزاج میں نوآبادیاتی سوچ کے خلاف نفرت بھری ہوئی تھی۔ میرا ڈونا جانتا تھا کہ ارجنٹائن میں فٹ بال برطانوی تاجروں اور فوجی اہلکاروں کے ذریعے پہنچا لیکن اس آزادی پسند کھلاڑی نے کھیل میں ایسا سٹائل متعارف کرایا جو ارجنٹائن سے منسوب ہے۔ نو آبادیاتی نظام کے مخالف میرا ڈونا کو فٹ بال سے الگ کر کے اگر شناخت دی جائے تو وہ سوشلسٹ ہے۔ انسانی مساوات کے حوالے سے وہ چی گویرا کا پیروکار تھا۔ اس نے چی گویرا کا ٹیٹو اپنے بازو پر نقش کروا رکھا تھا‘ اس کے پائوں پر کیوبا کے انقلابی رہنما فیڈل کاسترو کا چہرہ بنا ہوا تھا۔1987ء میں وہ پہلی بار کیوبا گیا اور فیڈل کاسترو سے ملا۔ پھر وہ کاسترو اور اس کی پالیسیوں کا دفاع کرتا دکھائی دیا۔ فیڈل کاسترو سمیت دنیا بھر کے سوشلسٹ لیڈروں سے اس کی یاری تھی ۔اسے بولیویا اور وینزویلا سے محبت تھی۔ وہ ان ملکوں کے انقلابی رہنمائوں ایوموریلز اور ہوگوشاویز سے کئی بار ملا۔ شاویز کی موت پر میرا ڈونا وینزویلا کے نئے صدر مدوروکے ہمراہ اپنے مرحوم دوست کی قبر پر گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہوگوشاویز کے دانش بھرے خیالات نے پورے لاطینی امریکہ کی سوچ بدل ڈالی ہے۔ میرا ڈونا کہا کرتا تھا کہ اس کے خیالات ناقابل تبادلہ ہیں۔میرا ڈونا کی پوپ جان پال سے ملاقات ہوئی، پوپ میرو ڈونا کے پرستار تھے، انہیں میرا ڈونا کے نظریات کی خبر تھی ، بے تکلفی تھی سو پوپ جان پال نے میرا ڈونا سے کہا: "چرچ غریب بچوں کی فلاح و بہبود کیلئے بہت پریشان ہے" میراڈونا نے جواب دیا: "آپ سونے سے بنی چرچ کی چھت فروخت کیوں نہیں کر دیتے؟ یہ تھا وہ میرا ڈونا جس کی آخری رسوم میں شرکت کے لئے لاکھوں لوگ سڑکوں پر آ گئے۔