لاہور کے ایک گرجا گھر کے وسیع وعریض سبزہ زار میں مسلمان علما، عیسائی، ہندو اور سکھ مذہبی پیشواؤں نے ایک ساتھ التجا کی:اے رب العالمین ! کرہ ارض پر رحم فرما ۔ کرونا کی مہلک وبا سے عالم انسانیت کو نجات عطا فرما۔ یہ منظر بڑا دلفریب اور خوشگوار تھا کہ مشترکہ آزمائش نے تمام مذاہب کے پیروکاروں کو ایک چھت تلے جمع کردیا۔ایک ساتھ کھڑے ہوکر انہوں نے اپنے اپنے رب کو پکارا۔ رحمت اور پناہ کے طلب گار ہوئے۔ موت کے سائے سر پر منڈلانا کیا شروع ہوئے کہ فرقہ وارانہ چپقلش دب گئی۔ برادری اور قبائلی تعصبات بھی پیوند خاک ہوئے۔ اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ آفات خداوندی قہر بن کر مخلوق خدا پرٹوٹ پڑتی ہیں تو وہ کسی سرحد کی پابند نہیں ہوتیں۔رنگ اور نسل کی پروا بھی نہیں کرتیں۔مسجد، گرجا گھر ، مندر ہویا یہودیوں کا عبادت خانہ‘ کرونا نے سب کویکساں ویران کردیا۔لاہور کے گرجا گھر میں چیلنجز سے نبردآزما ہونے کا جوجذبہ دیکھنے کو ملا اسے مہمیز دینے کی ضرورت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے صدیوں پہلے تعلیم کی تھی : مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ کے نزدیک سب سے بڑھ کر محبوب وہ ہے ، جو اس کے کنبے کے لیے سب سے بڑھ کر نفع بخش ہو۔ایک خیال دل ودماغ کی دنیا میں اکثر ہلچل مچائے رکھتاہے کہ اگر مخلوق اللہ کا کنبہ ہے تو ایک دوسرے کے ساتھ تعصب یا نفرت کیسے کی جاسکتی ہے۔ انسانوں کے ساتھ بھلائی اور انہیں نفع پہنچانے کا حکم دیا گیا کہ یہ عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اپنے اصل کی طرف لوٹ جانے کا وقت آچکا ہے۔کرونا کی وبا نے موقع فراہم کیا ہے کہ عالمی بھائی چارہ قائم کرنے کی ایک بار پھر کوشش کی جائے۔ بنیاد جس کی خلوص اور انسانی ہمدردی کے جذبے پر استوار ہو۔ مادی مفادات اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کاخناس کچھ وقت کے لیے دل سے نکال دیاجانا چاہیے۔ بالادستی کے خواب اور دوسری اقوام کو محکوم بنانے کی انسانی جبلت پر قابو پائے بغیر یہ دنیا انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہے گی۔ مولانا رومی نے فرمایا ہے: سارے انسان ایک دوسرے کے اعضا ہیں کیونکہ ان کا جوہر ایک ہے۔مرزا غالب کے مکتب میں بال وپر نکالنے والے الطاف حسین حالی کی ریاضت کا نچوڑ یہ شعر ہیں۔ یہ پہلا سبق تھا کتابِ ہْداٰ کا کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا امریکہ اور یورپ کی مسلمانوں تنظیموں نے بڑے پیمانے پر لوگوں کو سامان خورونوش پہنچایا۔ ہزاروں لاکھوں شہریوں نے مسلمانوں کا پکوان کھایا۔یہ ہمارا وہ چہرہ ہے جس سے دنیا آشنا نہیں۔ ہنگامہ عالم نے یہ موقع ہی نہیںدیا کہ دنیا مسلمانو ں کے جذبہ خدمت اور ایثار کو دیکھ پاتی۔ لاک ڈاؤن نے لوگوں کو گھروں تک محدود کردیا۔ روزگار کے ذرائع محدود اور اکثرکے ختم ہوگئے۔ اس کے باوجودعام لوگ ایک دوسرے کا سہارہ بننے۔ ہر محلے اور گاؤں میں راشن تقسیم ہورہاہے اور یہ سلسلہ ذوق وشوق سے جاری ہے۔ وسائل کی کمی کئی بھی آڑے نہیں آئی۔ اسباب مہیا ہوتے جارہے ہیں اورکنبہ خدا کے لیے ملک بھر میں لاکھوں دسترخوان ہر روز سر شام پچھائے جارہے ہیں۔سرکارکا اسا س پروگرام بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ بہت محنت اور ٹیکنالوجی کی مدد سے معاشرے کے انتہائی ضرورت مند طبقے تک ریاست نے وسائل پہنچائے ہیں۔ سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر لوگوں کی مدد کے لیے وفاقی حکومت نے اربوں روپے مختص کیے ۔ وزیراعظم عمران خان کا اگرچہ تعلق غریب طبقے سے نہیں لیکن اللہ تعالے انہیں ایک درمند دل سے نوازا ہے۔ برسراقتدار آنے کے بعد انہوں نے ملکی وسائل کا رخ محروم طبقات کی طرف موڑا۔ اساس پروگرام کے ذریعے اربوں روپے کی تقسیم اور مسلسل امراؤ کو مسکینوں، ناداروں اور بیوؤں کی مدد پر ابھارنا وزیراعظم عمران خان کی ہر تقریب اور ہر تقریر کا لازمی حصہ ہوتاہے۔ مسلسل ایک ہی طرح کی گفتگو سن سن کر لوگ اکتا بھی جاتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ رفتہ رفتہ سیاست اور سماج میں ہونے والی ہر گفتگو کامرکزی نکتہ کروڑوں مفلس پاکستانیوں کو غربت اور بے چارگی سے زندگی نجات دلانا ہوگا۔ 92نیوز کی محض دو ڈھائی گھنٹے کی لائیو نشریات میں بائیس کروڑ روپے کے عطیات کا جمع ہونا اس حقیقت کی عکاسی کرتاہے کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیر ہے ساقی۔ہزاروں، لاکھوں نہیں بلکہ کئی لوگوں نے کروڑوں روپے عطیہ کیے۔ بیرون ملک آباد یابسلسلہ روزگار مقیم پاکستانیوں نے دل ہی نہیں بلکہ اپنی تجوریوں کے منہ بھی کھول دیئے۔ اگرچہ بہتوں کے روزگار چھن چکے اور کئی ایک کے کاروبار پر تالے پڑ چکے ۔ باوجود اس کے دور دیسوں کے صحراؤں اور یخ بستہ یورپ سے روزی کشید کرنے والوں نے بھی اس موقع پریاران وطن کو فراموش نہ کیا۔ عطیات کی فراہمی میں وہ اس بار بھی سبقت لے گئے۔ وزیراعظم عمران خان کو لوگوں نے اس وقت بھی عطیات دینے میں کنجوسی نہیں کی جب وہ اقتدار کی راہداریوں کے قریب بھی نہیں پائے جاتے تھے۔ اب تو دینے والے ہاتھ بہت ہیں ۔ ساری بات شہریوں کے اعتماد کی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ عمران خان کا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں۔آل واولاد اور مال وزر کی ہوس سے اللہ نے انہیں بے نیازکردیا ہے۔ گزشتہ دوبرسوں کے اقتدار میں کم ازکم عمران خان کے رشتے داروں کی چاندی نہیں ہوئی۔ ان کے بچوں نے اقتدار ، تحریک انصاف یا شوکت خانم پر اپنا حق جتایا نہ اس کے قرب وجوار میں پھٹکے۔ سیاست ایک طرف !حقیقت یہ ہے کہ کرونا کی وبا کے مقابلے کے لیے ہماری صوبائی حکومتوں نے بھی مناسب کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ ، آزادکشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر اور گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ حفیظ الرحمان شہریوں کے درمیان پائے گئے۔ ان کے دکھ درد کو بانٹنے کی کوشش میں سرگرم رہے۔پنجاب کے عثمان بزدار بھی متحرک ہیں۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال خان بھی کرونا کے خلاف صف اوّل میں ثابت قدم ہیں۔ ایک عرصے بعد سویلین لیڈرشپ کو اس طرح عوام کے سنگ مصائب اور مشکلات میںجم کر کھڑے دیکھ کر خوشی ہوئی۔ غالباً سویلین لیڈر شپ جمہوریت کی بالادستی اور اپنا اعتبار قائم کرانے کا راز پاگئی ہے۔سار بوجھ عسکری لیڈرشپ اور فوج کے جوانوں کے کندھے پر ڈال کر خود پنج ہوٹلوں کا طواف کرنے والے اقتدارسے معزول ہوتے ہیں تو ان کے لیے کسی آنکھ سے آنسو ٹپکتا ہے نہ حرف دعا نکلتاہے۔ قدرتی آفات اپنے ساتھ نئے جہان آباد کرنے کے امکانات بھی لے کرآتی ہیں۔ کل تلک خال خال کسی ہسپتال میں وینٹی لیٹر دستیاب ہوتاتھا۔آج لگ بھگ ہر ضلع اور تحصیل تک پہنچ چکا یا پہنچنے والا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بیرون ملک سے درآمد کی جانے والی مہنگی ادویات اور سازوسامان کا متبادل مقامی سطح پر تیار کرنے کی کوششوں کی رفتار سست نہ پڑنے پائے۔یہ دوائیاں اور طب کے شعبے میں استعمال ہونے والا سازوسامان مقامی سطح پر آسانی سے تیار کرکے سستے داموں شہریوں کو فراہم کیا جاسکتاہے۔ نا ممکن کچھ نہیں ‘صرف یہ جذبہ سلامت رہے۔سیاسی عزم برقرار رہے۔