ژوب سے تعلق رکھنے والاتیرہ سالہ عصمت اللہ صافی معمول کی طرح جمعرات کی صبح بھی اپنی ہتھ گاڑی ( ٹرالی) لے کر مزدوری کیلئے گھر سے نکلا لیکن شام کو معمول کے مطابق اپنے گھر نہیں لوٹا۔کیونکہ اسی دن ایک درندہ صفت انسان اس کے پاس آتا ہے اور اسے ساٹھ روپے کے عوض مزدوری کیلئے اپنے ساتھ لے جاتا ہے ۔ عصمت اللہ صافی کے ساتھ پھر وہی ہوا جو اس ملک کے بچوں کے ساتھ آئے روز ہوتارہتا ہے ۔ عصمت اللہ کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا کر اس درندہ نما انسان نے نہ صرف اس معصوم بچے کی عصمت پر ڈاکہ ڈالا بلکہ بعد میں اس کو انتہائی بے دردی کے ساتھ موت کے گھاٹ بھی اتار کرلاش کو مسخ شدہ حالت میں کسی ویرانے میں پھینک دیا۔گھر والوں اور اقربا کی طرف سے تین دن کی مسلسل تلاش کے بعد اتوارکی صبح ننھے عصمت اللہ کی مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی ۔ شہر کی سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں کے کارکنوں نے لاش کوشہر کے وسط میں ایک سڑک پر احتجاجاً رکھااور انتظامیہ سے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ شروع کیا ۔ شام کو انتظامیہ کی طرف سے قاتل کی گرفتاری کی یقین دہانی پاکر مظاہرین نے اپنا دھرنا ختم کردیا۔ بھلا ہو ژوب پولیس کی نوجوان ٹیم کا کہ جس نے رات بارہ بجے تک وحشی قاتل تک پہنچ کر اسے رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا۔سفاک قاتل حالیہ قتل سے پہلے بھی ایک نوجوان اورایک بچے کے قتل کے جرم میں گرفتار ہوا تھا، کچھ عرصے کے لئے جیل کی سزا ضرور کاٹی لیکن بعد میں نہ جانے کیوں اور کس بنیاد پر رہائی ملی کہ اسے پھر سے ایک اورانسانی جان لینے کا موقع مل گیا ؟اس ملک میں بچوں کے ساتھ ایسے بھیانک حادثات کا سلسلہ برسوں سے چلا آرہا ہے اورہزاروں کی تعداد میں قوم کے معصوم بچے ایسے ظالموں کے ظلم کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں لیکن ریاست سدباب میں بری طرح کانام ہے۔ اس ریاستی ناکامی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایسے بھیانک جرائم کی روک تھام کیلئے ریاست فطری فارمولے یعنی ’’قصاص‘‘کی بجائے غیر فطری طریقوں کو اپناتی آئی ہے جو کبھی بھی کارگرثابت نہیں ہوتے ۔فرمان الٰہی ہے(البقرہ ۱۷۹)۔ ترجمہ: عقل وخَردکھنے والو !تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے۔ امید ہے کہ تم (اس کی خلاف ورزی سے بچو گے)ــ‘‘۔آیت مبارکہ میں قرآن اہل عقل کو مخاطب کرتاہے کہ قصاص میں معاشرے کی زندگی ہے یعنی جو معاشرہ انسانی جان کا احترام نہ کرنے والوں (قاتل) سے رعایت کامعاملہ کرتاہے وہ جان بوجھ کر نقصان اٹھاتاہے۔غورکیاجائے توقصاص پر عمل نہ کرنے سے بظاہر تو ایک انسان کی جان بچ جاتی ہے لیکن حقیقت میں وہ (قاتل )آستین کا سانپ ہوتاہے جس سے بے شمار بے گناہ انسانوں کی جانیں خطرے میں پڑسکتی ہیں ۔ قومی اسمبلی میںگزشتہ سال بچوں سے جنسی زیادتی اور انہیں قتل کرنے والے مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کی قرارداد حکمران جماعت کے وفاقی وزیر علی محمد خان نے پیش کی جسے کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا لیکن بدقسمتی سے مدنی ریاست کے کئی اہم رہنمائوں کی طرف سے اس قراردادکی شدید مخالفت سامنے آئی۔وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے قاتل کو سرعام پھانسی دینے سے متعلق قرارداد کو پی ٹی آئی کی پالیسی سے متصادم قرار دے کر اسے فردواحد کا ایک ذاتی عمل قرار دیا۔وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے اس قرارداد کی منظوری کے بعد ٹوئٹر پر لکھا: ’سرعام پھانسی کی جو قرارداد آج قومی اسمبلی میں منظور کی گئی ہے وہ تمام جماعتوں کی رضامندی سے ہوئی اور یہ حکومت کی پیش کردہ قرارداد نہیں بلکہ ایک انفرادی عمل ہے۔ ہم میں سے بہت سے اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ وفاقی وزیرفواد چوہدری تو مزاری صاحبہ سے دوہاتھ آگے گئے اور قصاص کو سنگین اور ظالمانہ عمل قراردے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی سزائیں قبائلی معاشروں میں ہوتی ہی جہاں انسان اور جانور ایک برابر ہیںِ ؛لاحول ولا قوۃ۔اس قراردادکے ردعمل میں پی پی پی کے ارکان اسمبلی بھی میدان میں اس دلیل کے ساتھ کھود پڑے کہ سزائیں یا ان کی شدت کو بڑھانے سے جرائم کم نہیں ہوتے واہ کیا دلیل ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی اور سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ سزائے موت سے متعلق پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کا پابند ہے اس لیے ان کی جماعت موت کی سزا کی حمایت نہیں کر سکتی۔ امریکہ ،یورپی ممالک اور نام نہاد انسانی حقوق کے تنظیموں کے خوف سے ہمارے حکمران قتل کے مجرموں کو سرعام پھانسی کی سزا دینے سے تواحتراز کرتے رہے ہیں لیکن انہیں ان متاثرہ خاندانوں کے دکھ اور درد سے کوئی سروکار نہیں جن کے جگر گوشے ہفتوں تک انسانی درندے اپنی ہوس کانشانہ بناتے ہیں اور پھر انہیں قتل کرکے ان کی لاش کو مسخ شدہ حالت میں ویرانوں اور نالیوںمیں پھینک دیتے ہیں۔ عبدالباری جہانی یاد آئے ، کیا خوب کہاہے مزکہ ھغہ سوزی چی اور ورباندی ولگیژی‘‘ یعنی زمیں کا وہی حصہ آگ کے شعلوں کی تپش کو محسوس کرتا ہے جہاں آگ بھڑک اٹھتی ہے‘‘۔فواد چوہدری ، شیرین مزاری اور ان کے ہم خیال لوگوں کو خدا وہ دن نہ دکھائے کہ ان کے اپنوںکی لاشیں بھی کسی ویرانے سے مسخ شدہ حالت میں انہیںملیں ۔ مجھے یقین ہے کہ اس درد سے جو بھی گزرے گا وہ ریاست سے اسی فارمولے کے نفاذ کا مطالبہ کرے گا کہ قاتل کو قصاص کی فطری اور حقیقی سزا دی جائے تاکہ مستقبل میں کوئی درندہ پھولوں کومسلنے اور روندنے کی ہمت نہ کرسکے۔