دو ہزار تیرہ کے انتخابات کی آمد آمد تھی۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے علاوہ مذہبی اور صوبائیت پرست جماعتوں نے پچھلے پانچ سالوں میں ، سوائے چند جھٹکوں کے ، پورے پاکستان میں مل جل کر حکومت کی تھی۔ دوہزار چھ میں محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے دستخط سے طے پانے والے میثاق جمہوریت سے شروع ہونے والا یہ سیاسی بھائی چارہ آئین کی شق وار اصلاح سے ہوتا ہوا صوبائی خود مختاری تک پہنچا تھا۔ یہ اتحاد و اتفاق ویسا ہی تھا جیسا انیس سو تہتر کے آئین بنانے کے وقت تھا۔ اس وقت چار ' قومی صوبے ' بنائے اور شاہی ریاستوں کو ، بجائے انہیں صوبائی درجہ دینے کے، ان میں ضم کردیا گیا۔کہنے کو اٹھارویں ترمیم سے آئین آمروں کی شامل کردہ آلائشوں اور غلاظتوں سے پاک کردیا گیا تھا لیکن اس میں جنرل ضیا الحق کی طرف سے آئین میں شامل کی گئی ایک شق کو البتہ نہیں چھیڑا گیا۔ اس کا تعلق نئے صوبوں کے قیام سے تھا جس کے تحت کسی صوبے کی حدود میں تبدیلی اس صوبے کی اسمبلی کی دو تہائی اکثریت کی منظوری سے مشروط کردی گئی تھی۔ نئے صوبوں کے قیام میں حائل آئینی رکاوٹوں سے قطع نظر یوسف رضا گیلانی نے مارچ دو ہزار گیارہ میں جلالپور پیروالا میں ایک بجلی کے منصوبے کا افتتاح کرتے ہوئے یہ بھی اعلان فرمادیاکہ پیپلز پارٹی کے اگلے انتخابی منشور میں سرائیکی صوبے کا قیام شامل ہوگا۔ میں اس وقت بہال پور میں تھا اور وہاں کے سیاسی اور سماجی حلقوںکی بے چینی کا عینی شاہد تھا۔ دو سوال اٹھائے گئے : سرائیکی صوبے کی حدود کیا ہونگی اور اس معاہدے کا کیا ہوگا جو بینظیر بھٹو اور نواب صلاح الدین عباسی کے درمیان لندن میں ، دوہزار آٹھ کے انتخابات سے پہلے ہوا تھا جس کے مطابق بہاول پور نے پیپلز پارٹی کو جتوانا تھا اور اسکے بدلے میں اپنی صوبائی حیثت بحال کرانا تھی۔ یہ سوالات اس تناظر میں اہم تھے کہ پیپلز پارٹی نے جنوبی پنجاب کا سارا ترقیاتی پیکیج (تینتیس ارب روپے ) ملتا ن اور اس کے گردونواح پر خرچ کرڈالا ، بہاولپور کو ایک دھیلا بھی نہ ملا، بہاولپور کی صوبائی حیثیت کی بحالی کے حوالے سے بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد نئی قیادت کی سوچ تبدیل ہوگئی تھی۔ جہاں پیپلز پارٹی نے اگلے سال (مئی دو ہزار بارہ) میں قومی اسمبلی سے سرائیکی صوبے کے حق میں قرارد اد منظور کرائی ، مسلم لیگ ن نے پنجاب کو تین صوبوں (پنجاب، جنوبی پنجاب اور بہاولپور) میں تقسیم کرنے کی متفقہ قرارداد پنجاب اسمبلی سے منظور کرالی۔ اب صورتحال یہ تھی کہ پیپلز پارٹی سرائیکی صوبے سے ہوتی ہوئی جنوبی پنجاب پر آگئی اور اسی سال ' صوبہ بہاولپور جنوبی پنجاب ' (چوبیسواں آئینی ترمیمی بل) بھی سینیٹ سے منظور کرالیا۔ چونکہ مسلم لیگ ن نے بطور احتجاج پارلیمانی کمیٹی میں شرکت ہی نہیں کی تھی کہ یہ بل پنجاب اسمبلی کی قرارداد کے برعکس تیار کیا گیا تھا، قومی اسمبلی تک یہ معاملہ نہ پہنچ سکا۔ دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں زمینی حقائق بدل گئے۔ پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کو مسلم لیگ ن کی جھولی میں ڈال کر واپس سندھ چلی گئی تاکہ میثاق جمہوریت کی دوسری شراکت دار پارٹی اقتدار میں اپنی باری لے سکے۔ ایک تو پنجاب کی تقسیم پر دونوں پارٹیوںکے موقف میں تبدیلی نہ آئی دوسرے بقول شخصے دونوں پارٹیاں تحریک انصاف کی احتجاجی سیاست سے بھی نبر د آزما تھیں۔ یوں ' سرائیکستان ' کا معاملہ پس پشت ڈال دیا گیا۔ انیس سو اٹھارہ کے انتخابات میں البتہ جو صورتحال بنی وہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوںکی توقعات کے برعکس تھی۔ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ اور عمران خان کا سو دنوں میں صوبہ بنانے کے عملی اقدامات کا وعدہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ پنجاب اسمبلی میں ایک دفعہ نہیں دو دفعہ صوبے کو ' تین حصوں ' میں تقسیم کرنے کی قرارداد پاس ہوچکی ہے اور اسکی محرک کوئی اور نہیں پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ،مسلم لیگ ن، ہے لیکن پیپلز پارٹی اور اسکی حامی صوبائیت پرست پارٹیوں کو یہ بات قبول نہیں۔ جنوبی پنجاب کے سرائیکی قوم پرست، جو انتخابی سیاست میں صفر ہیں، وہ بھی بہاولپور کی صوبائی حیثیت کے معاملے کو محض ن لیگ کی چال سمجھتے ہیں ! پیپلز پارٹی نے مخدوم احمد محمود کی قیادت میں ' جنوبی پنجاب ' ونگ بنا رکھا ہے۔ اصولی طور پر ' سرائیکی ' کے نام تک سے الرجک ہے لیکن عملی طور پر سرائیکی صوبے کا خواب ' جنوبی پنجاب ' کی پڑیا میں بیچنے کو متحرک۔ پیپلز پارٹی کی دم چھلا بنی ' سرائیکی لوک سانجھ ' اس مشن میں پیش پیش ہے اورپارٹی پالیسی کے برعکس نوے کی دہائی کے ن لیگ مخالف ' لسانی بیانیے ' سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔ ہٹ دھرمی کی حد تک اصرار کررہی ہے کہ چونکہ پیپلز پارٹی نے پنجاب کے دیگر حصوں سے بھی ووٹ لینے ہیں اسکی مجبوری کو سمجھا جائے اور قیادت کے ' جنوبی پنجاب ' بیانیے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کی بجائے پارٹی کو ووٹ دیے جائیں تاکہ یہ اس طاقت میں آجائے کہ اسمبلی سے دو صوبوں کی قرارداد منظور کرواسکے ! تحریک انصاف نے پنجاب کی تقسیم کا وعدہ اس حد تک پورا کیا ہے کہ بہاول پور اور ملتان، دونوں میں، ایک ایڈیشنل سیکریٹری کے ماتحت دو جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ بنا دیے ہیں۔ اس معاملے کا خطرنا ک پہلو لسانی منافرت کی آگ ہے جو پیپلز پارٹی نے سرائیکی لوک سانجھ کے ذریعے ستر کی دہائی میں جنوبی پنجاب میں لگائی۔ اس آگ میں جنوبی پنجاب آج تک جل رہا ہے ۔ اس آگ کی تپش نہ صرف ستلج پار محسوس کی جارہی ہے بلکہ ' جٹکے پنجاب ' میں سے بھی دھواں اٹھتا نظر آ رہا ہے! اس آگ کو بجھانے کی سنجیدہ کوشش کہیں بھی نظر نہیں آرہی۔ فوری حل ایک اور آمر، جنرل مشرف کی آئینی شق (مقامی حکومتوں سے متعلق) ہے جسے چار قومیتی وفاق کے حامی سیاسی قبیلے نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے نہیں چھیڑا تھا۔ مقامی حکومتوں کے انتخابات آئینی تقاضہ ہیں لیکن آزاد عدلیہ کی موجودگی اور اس معاملہ پر اسکے اصرار کے باوجود یہ معاملہ بغیر کسی خوف و خطر کے لٹکایا جارہا ہے حالانکہ اقتدار و وسائل کی نچلی سطح تک منتقلی منافرتوں کا توڑ ہی نہیں بلکہ عالمی ترقیاتی اہدا ف (بھوک ،بیماری اور جہالت کا خاتمہ ) کی تکمیل کا بھی واحد راستہ ہیں۔