طلاطم خیزدور‘ـسیاسی جنگ‘انقلابی نعروں اور وعدوں کے بعد بالآخر 25جولائی 2018ء کوتبدیلی کا سفر شروع ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف نے مشکلات اور معاشی چیلنجز میں گھرے عوام کے مسائل حل کرنے کا فریضہ انجام دینا شروع کیا۔ اکتوبر 2018ء میں حکومتی کارکردگی اورگورننس پر سوال اٹھے تو وزیراعظم نے قوم کو 6ماہ تک صبر سے کام لینے کا مشورہ دیا۔ عمران خان نئی ٹیم کیساتھ میدان میں اترے تھے ‘ جنہیں ملکی معاملات کی سمت درست کرنے اور گڈ گورننس کیلئے یقینی طور پرکچھ ماہ درکار تھے۔6ماہ گزرے پھر ایک سال‘ڈیڑھ سال اور اب اقتدار کی مسند پر فائز ہوئے قریباً دوسال ہونے کو ہیں کہ وزیراعظم نے وزراء کو کارگردگی بہتر بنانے کیلئے 6ماہ کی ایک او رمہلت دیدی ہے۔ 2018ء میں نئے پاکستان کی جس منزل کا تعین کیاگیا تھا‘کیا قافلہ اسی سمت میں آگے بڑھ رہا ہے؟ پاکستان میںقریباً20سال قبل انفارمیشن ٹیکنالوجی کا نیا دور شروع ہوا تو مختلف کمپنیوں نے کمرشل مقاصد کے لیے سیٹلائٹ سروس کی فراہمی شروع کردی۔پاکستان کی سرکاری کمپنی سپارکو نے بھی اس سروس کا آغا زکیا مگر غیرملکی کمپنیوں نے اوپن پالیسی کے باعث پاکستان سے کروڑوں ڈالر سالانہ کمانا شرو ع کردئیے۔ سیٹلائٹ سروس کی مد میں اب تک پاکستان سے 700 ملین ڈالر سے زائد رقم بیرون ملک منتقل ہوچکی۔ بھارت‘ بنگلہ دیش اور چین نے غیرملکی کمپنیوں کو محدود پیمانے پر سیٹلائٹ سروس فراہم کرنے کی اجازت دی تاکہ زیادہ سے زیادہ انکی سرکاری کمپنیوں کا سیٹلائٹ استعمال ہواور زرمبادلہ کم سے کم بیرون ملک منتقل ہو۔ درد دل رکھنے والے کچھ افسران نے بھارت‘ بنگلہ دیش اور چین کے ماڈل کی سٹڈ ی کی اور سالانہ 40ملین ڈالر بیرون ملک منتقلی روکنے کیلئے پالیسی تیا ر کرلی ۔وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے یہ پالیسی وفاقی کابینہ کومنظوری کیلئے ارسال کردی۔اس پالیسی کے تحت وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے تزویراتی اداروں سمیت تما م سٹیک ہولڈرز سے مشاور ت کے بعد فیصلہ کیا کہ پاکستان میں ملکی سیٹلائٹ کے استعمال میں اضافے کیلئے غیرملکی سیٹلائٹ کے استعمال کو محدود کردیا جائے۔ اس اقدام سے2030ء تک پاکستان کو 700ملین ڈالر کا فائدہ ہوگا۔پاکستان یہ رقم نیشنل سپیس پروگرام کیلئے استعمال کرسکے گا۔یہ ملکی وقومی مفاد کا ایک اہم ترین معاملہ تھا۔سیٹلائٹ سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کو حکومتی پلان کا علم ہو اتو انہوں نے لابنگ شروع کر دی۔ وزراء سے اسلام آباد کے پوش سیکٹرز میں ملاقاتیں شروع ہوئیں اور پھر چند وزراء کو قائل کرلیا گیا۔ کابینہ کے سامنے منظوری کیلئے یہ پلان پیش ہواتو کچھ وزراء نے مخالفت شروع کردی کہ اس اقدام سے سپارکو کی اجارہ داری قائم ہوجائے گی۔غیرملکی سیٹلائٹ کے استعمال کی حد مقرر نہیں ہونی چاہئے۔ وزیراعظم سمیت وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے افسران کیلئے وزراء کا یہ موقف پریشان کن تھا۔ کابینہ کو واضح طور پربتایا گیا کہ چین اور بالخصوص بھارت اور بنگلہ دیش میں ملکی سیٹلائٹ کے لازم استعمال کی شر ط نافذ ہے تو پاکستان ملکی مفاد میں یہ شرط نافذ کیوں نہ کرے؟ کابینہ نے اصولی رضامندی کیساتھ یہ معاملہ ای سی سی کو ارسال کردیا۔ سوال یہ ہے کہ غیرملکی کمپنیاں پاکستانی مفاد کے کردار ادا کرنے کیلئے وزراء کو کیسے قائل کرسکتی ہیں؟ مافیاز کے خلاف برسرپیکار عمران خان کی ٹیم کاممبر کیسے غیرملکیوں کمپنیوں کے مفاد کا تحفظ کرسکتا ہے؟ ملکی اورعوامی مفاد پرنجی کمپنیوں کے مفاد کے تحفظ کی ایک اور کہانی بھی سن لیجئے۔ملک میں کورونا کی انسانی زندگیوں پر تباہ کاریاں بلند ترین سطح پر پہنچ چکیں۔ ایسے میں زندگی وموت کی کشمکش میں مبتلا افراد کیلئے ایک انجکشن ریمڈیزویر 100mgکارگر ثابت ہونا شروع ہوا ۔ طلب بڑھی تو کمپنیوں نے 20ہزار روپے والے اس انجکشن کی قیمت 1لاکھ روپے سے 1لاکھ 25ہزار روپے تک پہنچا دی۔ انجکشن بلیک میں بکنے لگا۔بنگلہ دیش سے انجکشن کابندوبست ہونے پر پرائسنگ کمیٹی کی جانب سے ریمڈیزویر انجیکشن 100mgکی زیادہ سے زیادہ قیمت فروخت 10ہزار873روپے مقرر کرنے کی سفارش کی گئی۔وزیراعظم کو شکایت ملی کہ ڈریپ کی جانب سے مقامی دوا ساز کمپنی کی جانب سے مقامی طور پر تیار کئے جانے والے اس انجکشن کی قیمت کے تعین اور رجسٹریشن میں تاخیر کر کے مبینہ طور پر در آمد کنندگان کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے۔ وزیراعظم نے سیکرٹری وزارت صحت کو ڈریپ کے خلاف الزامات کی تحقیقات کرکے 15دن کے اندر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ 8جون کو وزیراعظم نے پٹرول بحران کا نوٹس لیا تھا۔ انکوائری کمیٹی قائم ہوئی۔ 6کمپنیوں کو 4کروڑ روپے جرمانہ ہوا مگر آج بھی ملک میں پٹرول کی سپلائی معمول پرنہیں آسکی۔ ذمہ داران بدستور اپنے عہدوں پر موجود ہیں ۔ پٹرولیم ڈویژن نے ایران سے پٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ میں کمی پٹرول بحران کی بڑی وجہ قراردیدی ہے۔ وزیراعظم کو بتایا گیا ہے کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ایران سے اسمگل شدہ پٹرول وڈیزل فروخت ہوتاہے۔ خیبرپختونخوا میں 400غیرقانونی پٹرول پمپس اور سٹوریج موجود ہیں۔خیبرپختونخوا‘ دیگر علاقوں میں خلاف قانون سٹوریج میں پٹرول ذخیرہ کیا جارہا ہے۔ پٹرولیم ڈویژن کی نئی رپورٹ سے کئی سوالات نے جنم لے لیاہے۔ ایران سے اسمگلنگ پٹرولیم ڈویژن کے علم میں ہے مگر اسمگلنگ کے خاتمے کیلئے وفاقی وزیر پٹرولیم ڈویژن عمر ایوب‘ماہر معاون خصوصی ندیم بابر اور سیکرٹری پٹرولیم اسد احیاء الدین نے کوئی کارروائی کیوں نہیں کی ۔ قومی خزانے کو اسمگلنگ سے اربوں روپے ماہانہ نقصان مگر پٹرولیم ڈویژن کے کرتا دھرتا خاموش ہیں۔ یعنی ایران سے اسمگلنگ دھڑلے سے شروع ہوگی تو پھر ہی پٹرول بحران ٹلے گا۔ تبدیلی اور انقلاب کا خواہشمند یہ قافلہ موقع پرستوں اورناتجربہ کاروں کے باعث منزل سے بھٹک چکا ہے ۔درست سمت کی رہنمائی کرنے والوں کی سانسیں بھی ٹوٹنے لگی ہیں۔قافلہ سالار کو تو یہ خبر بھی نہیں کہ دوسال بعد درست سمت کا امکان تک معدوم ہوچکا ہے۔سلیم کوثر نے کہا تھا: کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا ‘ نہیں دیکھنا انہیں غور سے جنہیں راستے میں خبر ہوئی ‘کہ یہ راستہ کوئی اور ہے ؟