گزشتہ دس سال سے غالبا تحریک انصاف کی مطلق العنان حکمرانی تھی لیکن ہمیں پتا نہیں تھا۔عمران خان وزیر اعظم تھے اور اسد عمر وزیر خارجہ ۔ڈالر کی اڑان کو قابو میں دکھانے کے لئے روپے کی قیمت مصنوعی طور پہ اسی تحریک انصاف کی حکومت نے بڑھا رکھی تھی۔اسی حکومت کے ایک سابق وزیر خزانہ پہ منی لانڈرنگ کے سنگین الزامات ہیں اور وہ تاحال مفرور ہیں۔پہلے وہ منی لانڈرنگ کا اعتراف کرچکے پھر مکر گئے پھر فرار ہوگئے۔اب ان کی بھی لندن تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں۔ان ہی کے زیر وزارت ملک میں زر مبادلہ کے ذخائر میں خوفناک کمی ہوئی۔تجارتی خسارہ ریکارڈ سطح تک گر گیا۔یہ تحریک انصاف کی حکومت ہی تھی جو ڈالر کو 108سے98 روپے کی مصنوعی قدر پہ لے آئی کیونکہ عوام سے وعدہ جو کرلیا تھا۔اس کا نتیجہ بھلے یہ ہو اہو کہ درآمدات بڑھتی گئیں اور ملک میں بننے والی مصنوعات مہنگی ہونے کی وجہ سے برآمدات کم ہوتی گئیں۔یہی عمران خان تو تھے جنہوں نے2013 میں حکومت سنبھالتے وقت 14ٹریلین روپے کا قرض بڑھا کر دسمبر 2017 ء تک ساڑھے اکیس ٹریلین تک پہنچا دیا یعنی چاربرسوں میں سات ٹریلین روپے کا اضافہ۔ان چار برسوں میں چالیس ارب ڈالر کے بیرونی قرضے لیے گئے۔وہ بھی عمران خان نے لئے تھے۔گردشی قرضوں کا تو حال ہی نہ پوچھئے۔ انہیں ایک پبلک ہولڈنگ کمپنی بنا کر ٹھکانے لگانے کی کوشش کی گئی اور بجٹ سے علیحدہ کردیا گیا۔ کیا سادگی تھی اور کیا پرکاری۔ کرامات کہیے کرامات ۔ویسے یہ پاور ہولڈنگ کمپنی میری معلومات کے مطابق حنا ربانی کھر کے دور میں بنائی گئی تھی لیکن اس کے فضائل کو دیکھتے ہوئے بعد میں آنے والے معاشی جادوگروں نے اسے چھیڑنے کی ہمت نہ کی۔ اسی کے نام پہ 500 ارب روپے کے گردشی قرضے علیحدہ کردیے گئے۔ یہ تمام جادو گری تحریک انصاف کی حکومت نے تو دکھائی۔یہ اسی کے وزیر خزانہ تھے جنہوں نے سینیٹ میں اپنی رپورٹ میں غلط اعداد و شمار سے قوم کو گمراہ کیا اور ملک پہ چڑھا قرضہ15 ارب ڈالر کم دکھایا جبکہ آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی ادارے کچھ اور بتا رہے تھے۔اسٹیٹ بینک نے بھی جب اپنی دو ماہ کی مالیاتی پالیسی کا اعلان کیا تو شرح سود جسے وہ اس حکومت کے آتے ہی کم کرنے کی کوشش کررہا تھا، 5.75 فیصد پہ ہی رکھنی پڑی۔جس وقت ووزیر خزانہ اسحاق ڈار ، سب اچھا کی رپورٹ دے رہے تھے تو برآمدات پچھلے سال کے مقابلے میں 24 بلین ڈالر سے کم ہوکر 22بلین ڈالر ہوچکی تھیں۔اسٹیٹ بینک کی اپنی رپورٹ کے مطابق بجلی اور گیس کی قیمتیں کم ہونے اور مہنگائی کم ہونے کے باوجود افراط زر کی شرح گزشتہ سال سے دو سے تین گنا بڑھ گئی تھی جبکہ اصل شرح اس سے بھی کہیں زیادہ تھی ۔ اس وقت کی حکومت میں بیٹھے معاشی ارسطو اور قومی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر بیرون ملک جائیدادیں بنانے والے اسد عمر اور عمران خان کو آئی ایم ایف کے پاس جانے کا طعنہ دیتے نہیں تھک رہے اور خود کشی کے مشورے دے رہے ہیں کیا وہ یہ سن کر خود کشی کرنا پسند کریں گے کہ تب ہی ان کے مطلق العنان وزیر خزانہ نے دروغ گوئی کی انتہا سے کام لیتے ہوئے اور غلط اعداد و شمار سے عوام کوگمراہ کرنے کے بعد آئی ایم ایف میں نہ جانے کا اعلان کیا تھا جبکہ صاف نظر آرہا تھا کہ کیا ہورہا ہے۔سرے سے کوئی معاشی اصلاحات ہوئی ہی نہیں تھیں۔ ٹیکس سیکٹر میں رئیل اسٹیٹ کو لانے کی ناکام کوشش کی گئی کیونکہ وہ سراسر بدنیتی پہ مشتمل تھی اور اس کی خرید و فروخت پہ ہر بار لگنے والا ملٹی پل ٹیکس ان پراپرٹی ڈیلروں کی استطاعت سے باہر ہوگیا تھا جو کالا دھن سفید نہیں کررہے تھے۔یہ پیسہ کہاں جانا تھا اس کا اندازہ بھی انہیں ہوگیا تھا۔ ملک میں موجود تمام مالیاتی اداروں کے سربراہ من چاہے تھے اور اپنی مرضی سے ایک ایسے وزیر خزانہ کے حکم پہ تعینات کئے گئے تھے جو ملک کا دوسرا غیر اعلان شدہ سربراہ تھا۔آخر سمدھی بھی تو تھا۔اگست2016ء میں اسی عظیم انسان نے جو نہ توانائی کے شعبے میں کوئی اصلاحات کرسکا نہ پبلک سیکٹر میں،اعلان کیا کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کی ضرورت نہیں رہی اور پاکستان 2050ء تک دنیا کی اٹھارویں بڑی معیشت ہوگا۔ اس وقت بھی جب یہ لاف وگزاف جاری تھی ، برآمدات مسلسل گر رہی تھیں اور زر مبادلہ کے ذخائر کم ہورہے تھے،تجارتی خسارہ اور کرنٹ بیلنس اکاونٹ میں کمی ہورہی تھی۔اس سے قبل انہوں نے آئی ایم ایف کو اپنے آفیشل خط میں پاکستان کی معیشت کے متعلق جو کہانیاں سنائی تھیں وہ اپنی جگہ ایک کہانی ہے۔حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ جی ڈی پی کی شرح دو فیصد سے بڑھ کر چار فیصد ہوگئی ہے لیکن حقیقت میں ایسا کہیں نظر نہیں آرہا تھا کیونکہ بیروزگاری بھی بڑھی تھی اور برآمدات بھی کم ہوئی تھیں۔قومی قرضہ مجموعی قومی پیداوار کا پینسٹھ فیصد ہوگیا تھا جس میں پینسٹھ بلین ڈالر کا بیرونی قرضہ شامل تھا۔ اس سے قبل جب معاشی ارسطوئوں پہ مشتمل یہ حکومت جو غالبا تحریک انصاف کی حکومت تھی آتے ہی کشکول اٹھائے آئی ایم ایف پہنچ گئی تھی اور چھ بلین ڈالر کے بیل آوٹ کے عوض اس کی تمام شرائط مان لی تھیں۔ان میں گھریلو صارفین کے لئے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں تیس فیصد اضافہ اور پینسٹھ پبلک سیکٹر کی نج کاری شامل تھی۔گیس کی قیمت میں اضافے سے اعشاریہ چار فیصد ریوینو بنانے کی یقین دہانی آئی ایم ایف کو کروائی گئی تھی جو چورانوے ارب روپے بنتا تھااور یہ اسی سال دسمبر تک ہونا تھا۔بجلی کا زر رعایت بھی اگلے تین سال میں کم کرتے کرتے ختم کرنا تھا البتہ بجلی چوری اور گیس چوری کی مد میں جو اقدامات اٹھانے تھے اس بارے میں راوی خاموش ہے کیونکہ بڑے صنعت کار اس میں ملوث تھے۔اسٹیٹ بینک کو اوپن مارکیٹ سے فوری طور پہ سو ملین ڈالر خریدنے کی ہدایت کی گئی جو آئی ایم ایف کی پہلی شرط تھی۔ انڈسٹریل سیکٹر جو پہلے ہی ٹیرف میں چھیانوے فیصد اضافہ جھیل رہا تھا مزید دبائو میں آگیا۔گھریلو صارفین کے لئے بھی پندرہ فیصد اضافہ ہوگیا۔بجلی کے بلوں کی وصولی کا حال جوں کا توں رہا کیونکہ قیمتیں بڑھا کر مطلوبہ نتائج حاصل کئے جارہے تھے۔آئی ایم ایف کا آخری 102 ملین ڈالر کا تین سالہ بیل آئوٹ پیکج حاصل کرنے کے بعد جو ڈینگیں ماری گئیں ان کا حال آج سب کے سامنے ہے۔ نون لیگ حکومت نے آئی ایم ایف کو کبھی مایوس نہیں کیا اور ان کی شرائط مانتی رہی۔آئی ایم ایف کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ پورے ہونے والے منصوبوں پہ اس صورت میں چھوٹ دیتا ہے اگر اسے یقین دلا دیا جائے کہ وہ آئندہ کسی مدت میں پورے ہونگے اور اس کے لئے تمام ضروری اقدامات بھی اسے نظر آرہے ہوں۔ آج تحریک انصاف کی موجودہ حکومت پہ یوٹرن کا طعنہ دینے والے کیا اس کا جواب دیں گے اور کیا اس سوال کا بھی کہ اس سے قبل تو عوام کو علم ہی نہیں ہوتا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ کیا بات ہوئی ہے۔ اس حکومت نے کم سے کم نہ جھوٹ بولا ہے نہ اندھیرے میں رکھا ہے۔ اگر دوست ملکوں نے امداد کی بجائے سرمایہ کاری پہ زور دیا ہے تو یہ ایک طویل مدت حل ہے لیکن حل سرمایہ کاری ہی ہے۔ معاشی اداروں کے سربراہ تبدیل کرنا اچھا اقدام ہے اگر وہ پہلے کی طرح دروغ گوئی نہ کریں۔ آئی ایم ایف سے لیا یہ بیل آئوٹ تو غالبا قرضوں کی ادائیگی میں استعمال ہوگا البتہ ایشیائی ترقیاتی بینک سے لیا جانے والا قرضہ پیداوای منصوبوں میں استعمال کیا جائے تو صورتحال بہتر ہوسکتی ہے ورنہ آئی ایم ایف نے بیل آوٹ سے نہ کبھی انکار کیا ہے نہ کرے گا۔