اس کتاب کو پہلی بار میں نے چیدہ چیدہ پڑھا تو بھی لطف اٹھایا۔ مگر جب دوسری بار اس کو پڑھا تو گویا اس کے ساتھ اپنے اوقات بسر کئے۔ کبھی چائے کا گھونٹ گھونٹ پیتے ہوئے۔ ممتاز مفتی سے مکالمہ کیا۔ کبھی عصمت چغتائی کی بے لاگ‘ کھلی ڈلی اور بے باک پٹاخہ دار باتیں سنی اور لطف اندوز ہوئی۔ کبھی خالدہ حسین سے ملنے ان کے کالج چلی گئی۔ ان کی سلجھی اور قدرے الجھی ہوئی شخصیت سے ملاقات کی اور ان کی ادبی زندگی میں آنے والی تیرہ برس کی طویل خاموشی کے راز کو جاننے کی کوشش کی۔ کبھی بانو آپا کی دانائی سے لبریز باتیں سنی اور دیکھا کہ کیسے وہ دال کو بگھارلگاتی ہوئی ایک گھریلو عورت سے ایک دانشور کا روپ دھارتی ہیں۔ ادب پر نئے زمانے کے رجحانات اور حلال و حرام کے فلسفے پر پر مغز گفتگو کرتی چلی جاتی ہیں۔ یہ کتاب نہیں ایک آئینہ خانہ ہے‘ جس میں ادب و صحافت کی نابغہ روزگار شخصیات‘ عکس در عکس جھلملاتی اور قاری سے مکالمہ کرتی ہیں۔ ادب و صحافت کی اس کہکشاں کو سجانے والے ڈاکٹر طاہر مسعود ہیںجنہوں نے ان تمام بڑی شخصیات کے انٹرویوز کو ایک کتاب کی صورت مرتب کیا ہے ڈاکٹر طاہر مسعود ایک اعلیٰ درجے کے انٹرویو نگار کی حیثیت سے ہمارے سامنے آتے ہیں‘ جو انسانی نفسیات کی پے چیدگیوں پر بھی نگاہ رکھتا ہے اور زندگی کی حقیقتوں اور اس کے تقاضوں سے بھی باخبر ہے ۔وہ مشکل اور کڑے سوالات بھی کرتے ہیں اور باقاعدہ اپنے مخاطب کی شخصیت کو dig outکر کے‘ چھپے ہوئے سچ کو سامنے لاتے ہیں۔ اسی لئے یہ انٹرویو بالکل غیر روایتی، نہایت دلچسپ اور پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمیں تو اخبارات کے صفحات پر چھپنے والے روایتی سے انٹرویو پڑھنے کی عادت تھی۔ وہ وہی گھسے پٹے روایتی سے سوالات اور ان کے وہ غیر دلچسپ روایتی جوابات۔ سو جب میں نے یہ انٹرویو پڑھے تو کئی جگہ پر میں چونک گئی۔ مثلاً اس میں فیض صاحب کے ساتھ جو مکالمہ ہوا ہے۔ وہ کم از کم میرے سامنے تو ایک نئے فیض احمد فیض کو دریافت کرتا ہے مثلاً فیض صاحب اس میں کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہماری خواہش تھی کہ ہم بھی شاعری میں درجہ کمال کو پہنچتے مگر یہ نہ ہو سکا۔ آخر ناظم حکمت‘ پابلونرودا بھی تو ہمارے عہد کے شاعر ہیں ہم ان جیسے بڑے تو نہیں۔ پھر کہتے ہیں اتنی پذیرائی پر حیرت ہوتی ہے کہ آخر ہم نے ایسا کیا تیر مارا ہے؟ اسی طرح قدرت اللہ شہاب سے مکالمہ مجھے بہت اچھا لگا۔ کتب بینی میں دلچسپی رکھنے والے بیشتر پاکستانیوں کی طرح ہم نے بھی ’’شہاب نامہ‘‘ میٹرک ہی میں پڑھ لیا تھا، اس وقت ہی ان کا ایک larger than Lifeامیج دماغ میں بن گیا کہ بہت بڑے صوفی ہیں۔ روحوں کو بلا سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ پھر بانو قدسیہ‘ اور ممتاز مفتی کو پڑھا تو انہوں نے بھی قدرت اللہ شہاب کو ایک پہنچا ہوا بزرگ بنا کر قارئین کے سامنے پیش کیا۔ طاہر مسعود جب قدرت اللہ شہاب سے اس بابت سوال کرتے ہیں کہ ممتاز مفتی نے لبیک میں آپ کو صوفی بنا کر پیش کیا اس کی کیا حقیقت ہے تو شہاب صاحب جواب دیتے ہیں وہ صرف ان کی افسانہ نگاری ہے۔ انہیں لبیک لکھنی تھی سو ایک کھونٹی انہیں چاہیے تھی انہیں مل گئی۔ دوسری طرف ممتاز مفتی اپنے انٹرویو میں تاسف کا اظہار کرتے ہیں کہ مجھ سے غلطی ہوئی مجھے لبیک میں قدرت اللہ شہاب کو نہیں لانا چاہیے تھا۔ میں شہاب صاحب کو نہ لاتا تو کتاب زیادہ پر اثر ثابت ہوتی اسی انٹرویو میں شہاب صاحب انکشاف کرتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کے تجربات پر مبنی ایک کتاب لکھ رہے ہیں اس کا نام شہاب نامہ ہے بعدازاں یہ کتاب پاکستان میں اردو ادب کی مقبول ترین کتابوں میں شامل ہوئی اپنے پسندیدہ افسانہ نگار غلام عباس کا غالباً یہ پہلا انٹرویو ہے جو میں نے اس کتاب میں پڑھا۔ وہ اس انٹرویو میں اپنے مشہور زمانہ افسانوں کتبہ‘ آنندی اور اوور کوٹ کے پس منظر اور لکھنے کے محرکات کو بیان کرتے ہیں اور نئے لکھنے والوں کو افسانہ نگاری کی نہایت آسان ترکیب بھی بتاتے نظر آتے ہیں۔ اردو ادب کے ایک اور بڑے شاعر قیوم نظر کا انٹرویو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ قیوم نظر نے اپنی شاعری میں ہمیشہ امیداور رجائیت کا پیغام دیا مگر جب زندگی کی شام اترتی ہے تو بوڑھا شاعر قنوطیت پسند ہو جاتا ہے۔ میل ملاپ سے گریز کرتا ہے اور ایسے میں جب ایک روز انٹرویو نگار طاہر مسعود شور مچاتے بچوں اور شام کی خاموشیوں کے بیچ سے گزرتا ہوا‘ اس کے گھر تک پہنچتا ہے اور اس بوڑھے شاعر کو پہچان کر کہتا ہے کہ آپ قیوم نظر ہیں نا۔؟مجھے آپ سے ملنا ہے تو وہ بوڑھا تقریباً چیختے ہوئے انکار کرتا ہے کہ کون قیوم نظر۔ میں تو اس کو جانتا تک نہیں۔ بہرحال یہ کریڈٹ انٹرویو نگار کو جاتا ہے کہ کیسے ان کو بات چیت کرنے پر آمادہ کیا اور بہت دلچسپ گفتگو پڑھنے کو ملی۔ ادا جعفری ‘ جمیلہ ہاشمی اور خالدہ حسین کے انٹرویوز پڑھتے ہوئے بہت مزا آیا کہ میں بطور لکھاری خود کو ان کے ساتھ relateکر پائی۔ آنگن سے دشت تک پھیلے ہوئے وہی مسائل رکاوٹیں اور تذبذب کی کیفیات جو گاہے آپ کے تخلیقی سفر پر خاموشی کی چادر بھی تان دیتی ہیں مگر پھر کوئی طاقت اندر سے اظہار کے راستے ڈھونڈنے لگتی ہے اور اظہار کر کے ہی طبیعت چین پاتی ہے۔ 638صفحات کی یہ ایک ضخیم کتاب ہے اور آج کل اتنی ضخیم کتابیں پڑھنے کا رواج ہی کہاں رہا ہے کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں ہم اور کئی قسم کے غموں اور راحتوں کے اسیر ہو چکے ہیں لیکن اگر اس ضخیم کتاب کا نام ہے۔ یہ صورت گر کچھ خوابوں کے‘‘تو پھر یہ قاری سے خود کو پڑھوانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بطور قاری مجھے ایسا لگا کہ میں نے اس کتاب کو صرف پڑھا نہیں بلکہ اردو ادب کی قد آور شخصیات سے مکالمہ کیا ہے۔ ان کے ساتھ کچھ وقت گزارا ہے یہ نہایت ہی خوب صورت احساس ہے!