آج سے سترہ سال قبل جب پاکستان بھر کو پرویز مشرف نے اس خوف میں مبتلا کر دیا تھا کہ دنیا کی سب سے بڑی معاشی و فوجی قوت،امریکہ ، گیارہ ستمبر کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے حملے کے بعد انتہائی غضب ناک ہے۔ یہ خونخوار سانڈ پھنکارتا ہوا افغانستان پر حملہ کر کے اسے روندنے والا ہے اور اگر ہم نے اس کا ساتھ نہ دیا تویہ پہلے ہمیں روندے گا اور پھر ہماری ملیامیٹ سرزمین سے گزرتا ہوا افغانستان جائے گا۔ اسی لئے اس سے پہلے ہی ہم اپنی سرزمین پر امریکہ کو تصرف دے رہے ہیں تاکہ وہ ہمیں کچھ نہ کہے۔ رات دن میڈیا پر شیخ رشید جیسے ترجمان یہ راگ الاپتے پھرتے تھے کہ اگر ہم نے امریکیوں کا ساتھ نہ دیا تو وہ ہمیں نیست و نابود کردیں گے، ہمارا تورہ بورہ بنا دیں گے۔ ایسے میں پاکستان میں طالبان حکومت کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کے ہمراہ ایک نائب سفیر سہیل شاہین بھی تھا۔ سیاہ پگڑی پہنے، کبھی کبھار میڈیا کے سامنے آتا۔ امریکیوں کے افغانستان پر حملے کے بعد اس نے انتہائی شستہ انگریزی میں ایسوسی ایٹیڈ پریس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا If anyone thinks, it is the end of war in Afghanistan-NO it is the beginning, They are mistaken, They should study the history of Afghanistan. ’’اگر کوئی سمجھتا ہے کہ افغانستان میں جنگ ختم ہو گئی ہے۔۔ نہیں۔۔ جنگ تو ابھی شروع ہوئی ہے، یہ لوگ غلطی پر ہیں،انہیں افغانستان کی تاریخ پڑھ لینی چاہیے۔‘‘ آج سترہ سال بعد بستر مرگ پر وقت کی گھڑیاں گنتا ہوا مشرف یہ دیکھ رہا ہوگا کہ یہ وہی سہیل شاہین ہے آج جس کی گفتگو سننے کے لیے روس کے شہر ماسکو میں دنیا بھر کا میڈیا بے تاب تھا، فرق صرف یہ تھا کہ سترہ سال قبل اس کے سر پر کالی پگڑی تھی اور آج سفید ٹوپی۔ وہی پر اعتماد چہرہ، وہی نپی تلی شستہ انگریزی میں گفتگو۔ سترہ سال قبل اگر کوئی یہ کہتا کہ امریکہ افغانستان میں ذلت آمیز شکست سے دوچار ہو گا تو لوگ ہنستے، مذاق اڑاتے، ایسے شخص کو چودہ سو سال پہلے کی دنیا کا باسی کہتے۔ ٹیکنالوجی کے بت کو سجدہ کرنے والے دفاعی تجزیہ کار، دانشور، عالمی ترقی کے خوابوں میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو کس قدر حیرت اور پریشانی ہوئی ہوگی جب دنیا بھر کی طاقتیں اور علاقائی ممالک کے نمائندے، اپنا سفارتی تجربہ لیے،مغربی لباس زیب تن کیے اس کانفرنس ہال میں موجود تھے اور ان کے درمیان پانچ مْلا جن کی شکلوں سے وہ نفرت کرتے ہیں، پگڑیاں پہنے، شلوار قمیض میں ملبوس اور چہروں پر سنت رسولؐ کی ہیبت لیے وہاں موجود تھے۔ مولوی شہاب الدین دلاور، مولوی بشیر محمد عباس ستانکزئی، مولوی عبدالسلام حنفی، مولوی ضیاء الرحمٰن مدنی اور محمد سہیل شاہین۔ پوری کانفرنس میں یہی پانچ مْلا ہی مرکز نگاہ تھے کیونکہ افغانستان میں امن کی کنجی ان کے ہاتھوں میں ہے۔ وہ اڑتالیس ممالک جو امریکہ کی سربراہی میں افغانستان میں امن قائم کروانے آئے تھے، ایک ایک کر کے بھاگ گئے اور اب تن تنہا امریکہ کا یہ عالم ہے کہ دنیا بھر سے منتیں کرتا پھر رہا ہے کہ اسے افغانستان سے عزت سے نکلنے کا راستہ مل جائے۔ امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد جیسا بھارت نواز بھی پاکستان سے درخواستیں کرتا ہے کہ ملا عبدالغنی برادر اور دیگر طالبان رہنماؤں کو چھوڑ دو تاکہ امن کا راستہ نکل سکے۔ یہی نہیں بلکہ گذشتہ کئی سالوں سے امریکہ نے بھرپور کوشش کی کہ اپنی بنائی ہوئی افغان کٹھ پتلی حکومت سے طالبان مذاکرات کر لیں، مگر طالبان کے دو مطالبات تھے، ایک یہ کہ ہم اصل دشمن امریکہ سے مذاکرات کریں گے، ان کٹھ پتلیوں سے نہیں اور دوسرا یہ کہ جب تک ایک بھی امریکی سپاہی کے قدم افغانستان کی سرزمین پر موجود ہیں، مذاکرات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ روس کے اس شہر ماسکو میں چین، امریکہ، پاکستان، بھارت، قطر اور دیگر ممالک اپنے وفود کے ساتھ طالبان سے امن کی بھیک مانگ رہے تھے اور دوسری جانب افغانستان کی وہ حکومت ہے جس کو دنیا بھر کے ممالک اقوام متحدہ کے مطابق ایک قانونی حکومت تسلیم کرتے ہیں ، جس کے دنیا بھر میں سفارت خانے موجود ہیں، اس کا سربراہ اشرف غنی کہتا ہے کہ ان مذاکرات کی قیادت اور انکا اہتمام تو افغان حکومت کو کرنا چاہیے تھا۔ شاید اسے علم نہیں کہ کٹھ پتلیوں کی اسوقت تک ہی ضرورت ہوتی ہے جب تک سٹیج ڈرامہ ختم نہیں ہوتا۔ امریکی طاقت کے ڈرامے کا پردہ گر چکا، اب پتلیاں بکسوں میں بند ہونے کے لیے رہ چکی ہیں۔ یہ پانچوں ملا کون ہے۔ ملا شہاب الدین دلاور: یہ شخص ہے جس پر اقوام متحدہ نے پابندیاں لگائی تھیں، طالبان کے زمانے میں سعودی عرب میں ان کا سفیر رہا۔ دسمبر 2012ء میں جب فرانس میں مذاکرات ہوئے تو شہاب الدین دلاور طالبان وفد کا سربراہ تھا، ان مذاکرات نے سب کواسوقت حیرت میں ڈال دیا جب سب لوگ امن اور الیکشن کی بات کر رہے ہیں اور شہاب الدین کہہ رہا تھا کہ طالبان یہ جنگ جیت سکتے ہیں۔ آج یہ ایک دفعہ پھر روس میں طالبان وفد کا سربراہ ہے۔ مولوی شیر محمد عباس ستانکزئی: ایم اے سیاسیات کرنے کے بعد فوج میں بھرتی ہوا، بھارت کی ملٹری اکیڈمی ڈیرہ دون سے ٹریننگ حاصل کی لیکن روس کے افغانستان پر حملے کے بعد عبدالرسول سیاف کے جہادی گروپ کا حصہ بن گیا اس وقت وہ طالبان کی جانب سے سفارتی نمائندے کے طور پر دنیا بھر میں سفر کرتا ہے۔ ابھی اگست میں وہ ازبکستان گیا تھا اور پھر انڈونیشیا بھی گیا جہاں اسلامی ملیشیا کے بارے میں مذاکرات ہوئے۔ ملا عبدالسلام حنفی: ان لوگوں میں سے ہے جن پر 23 فروری 2001ء میں اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے قرارداد 1333 اور 1267 کے تحت پابندیاں لگائی تھیں۔ یہ قندوز میں طالبان کا گورنر تھا۔ اسے فروری 2010ء میں فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا ،لیکن پھر جب امن کی بھیک مانگنے کے لیے امریکیوں کو اس کی ضرورت پڑی تو اس کو رہا کروا کر قطر دفتر بھجوایا دیا گیا۔ مولوی ضیاء الرحمن مدنی: اس پر بھی 23 فروری 2001 میں اقوام متحدہ نے پابندیاں لگائیں۔ اس پر الزام تھا کہ جنگ کے دوران طالبان کے لیے دنیا بھر سے فنڈ اکٹھا کرتا ہے۔ اسے القاعدہ سے رابطے کا اہم مہرہ قرار دیا گیا اور سہیل شاہین جس نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ طالبان کے زمانے میں کابل ٹائمز کا ایڈیٹر رہا اور پھر اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر اسے پاکستان میں نائب سفیر مقرر کیا گیا ، جس نے قوت ایمانی کے زور پر کہا تھا ابھی جنگ شروع ہوئی ہے۔ اس وقت ملا عمر نے تاریخی جملے کہے تھے ،’’ جنگ آپ شروع کریں گے، لیکن اسے ختم طالبان کے علاوہ اور کوئی نہیں کر سکے گا۔‘‘ افغانستان گوند کا تالاب ہے، اس میں گھسنے والا واپس نہیں نکل نہیں پاتا۔ دنیا بھر کے نمائندوں حتیٰ کہ بھارت کے شکست خوردہ دو سفارت کاروں کے سامنے ان پانچ طالبان ملاؤں کے چہرے جس عزیمت سے تمتما رہے تھے وہ قرآن پاک کی اس آیت کا اعلان کرتے تھے ’’لیکن جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ انہیں ایک دن اللہ سے ملنا ہے، تو انہوں نے کہا بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک چھوٹا گروہ، اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ‘‘(البقرہ 244) یہ دولت ایمانی ہے جو ٹیکنالوجی اور طاقت کے بتوں کو سجدہ ریز کر دیتی ہے۔