پاکستانی سیاست میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین قبائلی اورجاگیردارانہ طرز کی مخاصمت نئی بات ہے نہ ایک دوسرے کے ہر فیصلے اور اقدام کو ہدف تنقید بنانے کی روشن انوکھی روائت۔ جمہوری روایات پختہ نہیں اور برداشت کا کلچر عنقا ہے۔ یوں اختلاف اور دشمنی میں حد فاصل کیسے قائم رہے۔ ؟سیلانی لنگر کے ذریعے غریب اور بے آسرا افراد کو کھانا کھلانے پر طعن و تشنیع مگر عمران خان سے دشمنی نہیں ‘اُن خاک نشینوں کی توہین ہے جنہیں ریاست باعزت روزگار فراہم کرنے سے قاصر ہے اور معاشرہ انہیں تین وقت کا کھانا دینے سے معذور۔ عمران خان نے اسلام آباد میں سیلانی لنگر کا افتتاح کیا تو ہر دل درد مند سے دعا نکلی کہ اللہ تعالیٰ منتظمین کو حوصلہ‘ ہمت اور مزیدتوفیق دے‘ مگر بعض سنگدل سیاسی اور صحافتی نابغوں نے یہ کہہ کر اپنے دل کی بھڑاس نکالی کہ عوام کو ایک کروڑ نوکریاں فراہم کرنے کے بجائے وزیر اعظم لنگر کا افتتاح کررہا ہے کسی نے کہا کارخانے کھولنے تھے لنگر خانے کھول رہا ہے اور کوئی بولا کہ یہ شہریوں کی عزت نفس مجروح کرنے کے مترادف ہے۔ پیٹ ہرایک کے ساتھ لگا ہے اور بھوک انسان کو گناہ پر مائل کرتی ہے فرمایا کاد الفقران یکون کفراً۔ حضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒنے روٹی کو اسلام کا چھٹا رکن قرار دیا تھا ؎ پنج رکن اسلام دے تے چھیواں فریدا ٹُک جے لبھے نہ چھیواں تے پنجے جاندے مُک اعتراض یہ ہے کہ عمران خان لوگوں کو روزگار فراہم کریں‘ مفت خوری پر نہ لگائیں اُصولی طور پربات درست ہے لیکن سیاسی اشرافیہ نے بیورو کریسی اور مخصوص کاروباری طبقے کے ساتھ مل کر لوٹ مار کا بازار گرم رکھا‘ قومی وسائل لوٹ کر تینوں نے بیرون ملک منتقل کئے‘ عیش و عشرت‘ فضول خرچی اور نمودو نمائش کے کلچر کو فروغ دیا اور روزگار کے مواقع محدود کر دیے۔ ٹیکس دینا معیوب اور رشوت دینا قابل فخر ہے‘ خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ریاست کو زکوٰۃ نہ دینے والوں کے خلاف جہاد کیا ‘ دنیا میں کوئی ریاست ٹیکسوں کے بغیر نہیں چل سکتی مگر یہاں ملک قرضوں پر چل رہا ہے اور لوگ علانیہ ٹیکس دینے سے انکار کرتے‘ اہل سیاست و صحافت سے داد پاتے ہیں‘پھر بے روزگار اور بے آسرا لوگ کہاں جائیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ اولیا و صلحا کے مزارات‘ کشادہ قلب و کشادہ دست افراد کے قائم کردہ لنگر خانوں اور دینی مدارس سے روزانہ لاکھوں لوگوں کی شکم پُری ہورہی ہے ورنہ سنگدل اشرافیہ نے خودکشی اور خودکش حملوں کے سوا راستہ کوئی نہیں چھوڑا۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت نیک نیتی‘ حکمت و تدبیر اور منصوبہ بندی کے ساتھ صنعت و تجارت کے فروغ‘ معیشت کی بہتری اور روزگار کی فراہمی کے لئے شبانہ روز کوششیں کرے‘ عمران خان حسب منشا پانچ سو کرپٹ لوگوں کو جیل میں ڈال کر سیاسی و معاشی نظام کو پٹڑی پر ڈال دیں‘ کرپشن کا خاتمہ ہو اور انصاف کا بول بالا تو پھر بھی ہر بے روزگار اوردیہاڑی دار کو ایک ہفتہ یا ایک مہینہ کے اندر روزگارکی فراہمی ممکن ہے؟ بالکل نہیں‘ لیکن بالفرض ممکن ہو پھر بھی تب تک جس شخص کے پاس کھانے کو کچھ نہیں وہ کیا کرے؟ نوسر بازی‘چوری‘ چکاری‘ راہزنی یا کسی پناہ گاہ اور لنگر خانے میں جا کر اپنا پیٹ بھرے اور خدا کا شکر ادا کرے کہ اس ذات نے کسی کی حق تلفی ‘ برائی اوررزق حرام سے بچایا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا‘ ہر کام میں کیڑے نکالنے والوں نے مخالفت کی مگر جنہیں فائدہ ہوا وہ آج تک شکر گزار ہیں‘ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی حکومت کو بھی پروگرام کی بساط لپیٹنے کی جرأت نہ ہوئی‘ خواہش اگرچہ دونوں حکومتوں کی تھی ‘ چند سال پیشتر عمران خان نے تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے سستی روٹی کی فراہمی کا پروگرام بنایا‘ میاں شہباز شریف نے اس آئیڈیا کو سرکاری سرپرستی میں لینے کا اعلان کیا ‘سستی روٹی منصوبہ شروع ہوا مگر پھر بدانتظامی کی نذر ہو گیا‘ سیاسی مخالفت کے باوجود عوام نے اس کا خیر مقدم کیا۔جب تک ریاست لوگوں کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے قابل نہیں کسی نہ کسی انداز میں بھوکے کو روٹی ملے اور وہ جرم پر مجبور نہ ہو یہ کونسی معیوب بات ہے اور اعتراض بلکہ طنزو استہزا کا کیا جواز؟پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے علمبردار حکمران اگر خدا ترسی کے جذبے کے تحت نہیں چاہتے کہ یہاں کوئی بھوکا سوئے‘ عمران خان کے بقول جس معاشرے میں کوئی انسان بھوکا سوتا ہے وہاں برکت نہیں ہوتی تو اس پر پریشانی کیوں؟یہ طرز احساس کی بات ہے‘ مولانا اشرف علی تھانوی سے کسی نے پوچھا کہ جس شخص کا رزق مشکوک ہے اس کا صدقہ خیرات قبول ہو گا یا نہیں؟ حضرت نے جواب دیا میرے بھائی یہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے لیکن اگر ایک شخص گلی میں پڑا پیاس سے مر رہا ہو اور کوئی راہ چلتا شخص اس کے منہ میں گندی نالی کا پانی ٹپکا کر زندگی بچا لے ‘تو وہ عمر بھر اس کو دعائیں دیگا یا گلہ کرے گا کہ اس نے گندا پانی مُنہ میں ڈال کر اس کی توہین کی؟۔قبولیت عدم قبولیت اور اجر کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کرے گا۔ لوگ بھوک سے نڈھال ہیں‘ بجا کہ حکومت ایک سال کے عرصہ میں مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام رہی اور یہ مسلسل بڑھ رہی ہے‘ کساد بازاری کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے اور غریب ‘ بے آسرا بلکہ نچلے متوسط طبقے کے لوگ بھی روٹی روزی کو ترسنے لگے ہیں۔ وجوہات سب جانتے ہیں سابقہ ادوار حکومت میں بھی دودھ شہد کی نہریں نہیں بہہ رہی تھیں کہ صرف موجودہ حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا جائے۔ ایسے میں اگر حکومت نے ان رفاہی اداروں کی سرپرستی کا فیصلہ کیا ہے جو مخیر خواتین و حضرات کے تعاون سے مستحقین کو تین وقت کی روٹی مفت یا سستے داموں فراہم کرتے ہیں تو اس کارخیر کی تائید اور حوصلہ افزائی ہونی چاہیے‘ اگر ہم خود کسی بھوکے کو کھانا کھلانے کی سعادت سے محروم ہیں اور ریاست ابھی اس قابل نہیںکہ وہ ہر شخص کو روزگار فراہم کر ے تو کیا ضروری ہے کہ محض سیاسی مخالفت کے شوق میں حکومت کے ایک ایسے کام میں کیڑے نکالیںجس سے خلق خدا کا بھلا ہو‘ عمران خاں اگر یہ اعلان کریں کہ وہ روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے اور پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر فلاحی ریاست بنانے کے بجائے انہی لنگر خانوں‘ پناہ گاہوں اور عطیات و زکوٰۃ سے شہریوں کی خبر گیری کریں گے اور بے وسیلہ ‘ بے آسرا اور بے روزگار شہریوں کا انحصار صرف رفاہی اداروں پر ہو گا تو کوئی بھی معقول شخص تائید کرے گا نہ مطمئن ہو گا‘ وقتی طور پر مگر یہ اقدام مستحسن ہے‘ جذبہ خیر خواہی اور رحمدلی کا عکاس‘ ان لنگر خانوں اور حکومتی اقدام کی اہمیت ان خاک نشینوں سے پوچھئے جو روزانہ تین چار سو روپے بچا کر اپنے بیوی بچوں کی کوئی دوسری ضرورت پوری کر سکتے ہیںمثلاً تعلیم‘ طبی سہولت۔ بارہ ہزارپندرہ روپے ماہانہ کمانے یا مہینے میں دو چار روز بے کاررہنے والوں سے ان آٹھ نو ہزار روپے کی قدرو قیمت پوچھئے جو چوک چوراہوں پر کسی کے سامنے دست سوال درازکرنے کے روا دار ہیں نہ کوئی غیر قانونی‘ غیر اخلاقی راستہ اختیار کرنے پر آمادہ۔ خاندان کے ساتھ کسی مہنگے ہوٹل میں آٹھ دس ہزار روپے کاکھانا کھا کر باتیں بنانے اور اعتراض کرنیوالوں کو بھلا کیا معلوم کہ بندہ مزدور کے اوقات کتنے تلخ ہیں اور ان لنگر خانوں سے شکم پُری کر کے شکر الحمد للہ کہنے والوں کو یہ نقاد اور معترض کتنے بُرے لگتے ہیں۔؟