میں کچھ پیچھے رہ گیا ہوں۔ عمران خان نے اپنی تقریرمیں آج ایک دو باتیں ایسی کی ہیں جو خاصی اچھی لگی ہیں۔ اعتراضات و تحفظات تو ہو سکتے ہیں مگر سفر شروع ہونا چاہیے۔ ہم کب تک الیکشن کی فضا میں جیتے رہیں گے۔ پیچھے رہ جانے کی بات میں نے اس لیے کی کہ دو دن سے ایسے اعلانات، بیانات و فرمودات آ رہے تھے کہ سوچنا پڑتا تھا کہ یہ حکومت کدھر جا رہی ہے۔ میں اس پر گرفت نہ کرسکا۔ ہم تو دعا گو ہیں کہ حکومت چلے تاکہ پاکستان بھی چلے۔ میں نے کہا، پرانی باتیں چھوڑ دو۔ آج بھی بعض باتیں اسی ’’ہینگ اوور‘‘ میں کہی جاتی ہیں مثلاً ہمارے وزیر اطلاعات فواد چودھری نے بتایا کہ فوج اور سول کے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ یہ جو جی ایچ کیو کے بعد آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر میں وزیراعظم کی لمبی لمبی میٹنگز ہوئیں، تو یہ ہوا ہی کرتی ہیں، البتہ اس بار وزیراعظم کو ان معاملات پر بریفنگ دی گئی جو پہلے عموماً نہیں دی جاتی تھی۔ یہ بات وہ یہ بتانے کے لیے کہہ رہے ہوں گے کہ یہ اجلاس آٹھ، آٹھ گھنٹے لمبے کیوں تھے۔ یا یہ بتا رہے ہوں گے کہ ہمارے تعلقات ان اداروں سے بہت اچھے ہیں۔ حضور، کیا آپ کو علم ہے کہ یہی تو آپ پر الزام ہے کہ آپ کے تعلقات اتنے اچھے ہیں کہ آپ کو ان کا آدمی کہا جاتا تھا اور یہ بھی الزام لگتا تھا کہ اسی لیے آپ کو بڑے جتنوں سے اقتدار میں لایا گیا ہے۔ یقینا آپ یہ نہیں کہنا چاہتے۔ کیا حرج ہے کہ آپ اب احتیاط کا دامن پکڑلیں، اس سے ایک دوسرے معنی بھی نکلتے ہیں۔ چلتے چلتے وہ بھی بتاتا چلوں اور وہ یہ کہ پھر گزشتہ حکومت ٹھیک ہی کہتی تھی کہ ان سے یہ ادارے بہت کچھ چھپاتے ہیں، حکومت کی مرضی کے بغیر بہت کچھ کرتے رہتے ہیں اور منتخب حکومت کو خبر نہیں ہونے دیتے۔ میں یہ دو باتیں اس نکتہ نظر سے نہیں کہہ رہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں، بلکہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اب ہینگ اوور سے باہر نکل آئیے۔ ذرا احتیاط کیجئے اور آگے بڑھیے۔ میں پہلے دن سے شور مچارہا ہوں کہ مجھے حقیقت کے حوالے سے کچھ کالا نظر آتا ہے۔ میری رائے تھی کہ ہم آئی ایم ایف کی طرف جانے کے لیے پرتول رہے ہیں۔ میرا یہ خیال عبوری نگران حکومت ہی کے دور میں پیدا ہونا شروع ہوگیا تھا۔ اس لیے میں نے شمشاد اختر کی پالیسیوں کو ہدف تنقید بنایا تھا۔ یہ جو عالمی معیشت دان کہلاتے ہیں، دراصل امریکی لابی ہے۔ اس وقت ہمارے بیوروکریٹ، ٹیکنوکریٹ چاہے معیشت کے شعبے میں ہوں، چاہے خارجہ امور سے متعلق ہوں بری طرح اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ روشن خیالی اور ترقی پسند نظریات کے نام پر عمران خان کو امریکہ اور مغرب کی طرف مائل کیا جائے۔ اس لحاظ سے وہ سی پیک پر بھی شکوک و شبہات پیدا کرنے سے نہیں چوکتے۔ یہ ہماری زندگیوں میں بڑی کٹھن منزل ہے۔ میں بار بار کہتا آیا ہوں کہ ہماری شرح نمو کو کم کیا جارہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نئی حکومت کو بجٹ پر ازسرنو غور کا حق ہے۔انہیں کئی طرح کے اقدامات کرنا ہیں۔ مگر جن اقدامات کی تشہیر کی جا رہی ہے۔ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ ترقیاتی بجٹ میں 400 ارب کی کمی کردی جائے اور 400 ارب کے نئے ٹیکس کا اضافہ کیا جائے۔ امپورٹ کی ہر شے پر ایک فیصد ٹیکس لگا دیا جائے۔ مطلب کیا کہ شرح نمو میں کمی۔ مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ۔ سب سے پہلے شمشاد اختر نے کہا تھا کہ ہم نئے بجٹ میں شرح نمو 6.2 فیصد رکھی گئی تھی۔ اسے 5.5 فیصد کرنا پڑے گا۔ خیال رہے کہ اس سال شرح نمو 5.8 فیصد تھی۔ ایک اندازے کے مطابق ان اقدامات سے کم ہو کر یہ 5.2 فیصد تک گرسکتی ہے۔ عمران خان کی آج کی تقریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دو سال مشکل کے مانگ رہے ہیں۔ پھر ان کا خیال ہے، ہمارے ہاں ہن برسنے لگے گا جبکہ ماہرین معیشت کا ایک ڈیڑھ سال پہلے یہ اندازہ تھا کہ ہم ٹیک آف کی پوزیشن میں آ چکے ہیں۔ ہماری ریٹنگ بھی اچھی ہو گئی تھی اور سرمایہ کار بھی آ رہے تھے۔ ہم سب نے مل کر بہت کچھ تباہ کیا۔ اب ’’نوید‘‘ دے رہے ہیں کہ ہم ترقی معکوس کریں گے۔ اس قوم کو غربت سے نکلنے کے لیے مزید انتظار کرنا پڑے گا۔ سی پیک کے حوالے سے کچھ اعتماد پیدا ہورہا ہے۔ ایک تو چین کسی حال میں اس سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، دوسرے فوج اس کی ضامن ہے۔ ہماری فوج کی تربیت بھی اگرچہ مغرب کے زیر اثر ہوئی ہے مگر یہ ایک قومی فوج ہے۔ اس لیے توقع کی جاتی ہے، اس منصوبے کے خلاف سب سازشیں دم توڑ جائیں گے۔ پھر بھی ان منصوبوں پر گفتگو اس طرح کی جا رہی ہے جیسے جانے والی حکومت نے چین سے معاہدے کرتے وقت ملکی مفادات کا خیال نہیں رکھا۔ اس حوالے سے سب سے احمقانہ گفتگو اورنج ٹرین کے بارے میں کی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی میٹرو منصوبے زیر عتاب ہیں۔ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان پر سبسڈی دی جاتی ہے۔ یہ حکومت پر مسلسل بوجھ ہے۔ عجیب اعتراض ہے۔ کیا یہ سبسڈی یا زرتلافی چین کو دیا جارہا ہے۔ ارے بھئی اسے چلانے کے لیے حکومت پنجاب نے کمپنی پر پابندی لگائی ہے کہ وہ اس طویل سفر کے لیے صرف 20 روپے چارج کرے گی۔( جبکہ پشاور میں غالباً 50 روپے سے زیادہ چارج کیا جائے گا۔) اس کے بدلے میں انہیں سالانہ زرتلافی دیا جائے گا، اس کا فائدہ عوام کو پہنچتا ہے۔ دنیا بھر میں شہری حکومتیں اپنے شہریوں کو یہ رعایت فراہم کرتی ہیں۔ اگر آپ عوام کو فائدہ نہیں دینا چاہتے تو زرتلافی ختم کردیجئے، ٹکٹ خود بخود بڑھ جائے گا، جیسا پشاور ماڈل میں ہے۔ عوام آپ کو اس ’’کارخیر‘‘ پر دعائیں دیں گے۔ عمران خان نے آج ریلوے اور موٹروے کا تقابل کرتے ہوئے کہا کہ موٹروے امیر آدمی استعمال کرتے ہیں۔ اس پر کیا عرض کروں۔ موٹروے صرف امرا کی بڑی بڑی گاڑیاں چلنے کے لیے نہیں ہے۔ یہ اس ملک میں اب سفر کا آسان ذریعہ بن گیا ہے۔ ساتھ ہی رابطے کا ایک بڑا وسیلہ بھی۔ سب تجارت اسی راستے پر ہوا کرے گی۔ لاجسٹک اور انرجی ہمارے دو مسئلے تھے، دہشت گردی کے علاوہ جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ بہرحال خوشی ہورہی ہے کہ کچھ سوچا جا رہا ہے۔ مجھے ڈر ہے تو اس بات سے کہ ہمارا سب مقتدر طبقہ، حکمران ٹولہ اور سارے بااثر ادارے امریکہ کے زیر اثر ہیں۔ ان کے لیے ٹریک بدلنا خاصا مشکل ہے۔ بار با روہ باتیں کی جا رہی ہیں جو ہمیں اس راستے پر لے جائیں جو شاید ان کی نظر میں کامیابی کاراستہ ہو مگر دراصل وہ ترقی کے سفر کو روکنے کا وسیلہ ہے۔ مجھے ایک اور پریشانی ہے، تحریک انصاف نے دو تین سال خیبرپختونخوا میں اس کام میں لگا دیئے کہ وہ منصوبہ بندی اور قانون سازی کر رہے ہیں حتیٰ کہ ترقیاتی کام رکا رہا۔ جب انہوں نے شروع کیا تو وقت ختم ہو چکا تھا۔ اس لیے ضروری ہے کہ چلتی گاڑی کو نہ روکا جائے اور مستقبل کے سفر کی منصوبہ بندی الگ سے کی جائے۔ پشاور کی میٹرو ٹرین کا منصوبہ اسی نام نہاد منصوبہ بندی کا شکار ہوا۔ لازمی نہیں کہ آپ ازسرنو پہیہ ایجاد کرنے بیٹھ جائیں۔ جو کام دوسروں نے اچھے کئے ہیں، انہیں اپنا لینے میں شرم محسوس نہ کیجئے اور جو غلطیاں آپ نے کی ہیں انہیں نظرانداز کردینے ہی میں عافیت سمجھئے۔ بہت ضروری ہے کہ الیکشن کے نشے سے باہر آیا جائے۔ بہت سے فیصلے اس پس منظر میں ہورہے ہیں کہ انتخابی مہم کے دوران ان کا اعلان سرزد ہو گیا تھا۔ وہ دن گزر گئے۔ اب آگے کا سوچئے۔ ایک اور مثال دیتا جائوں۔ الیکشن میں اعلان کردیا گیا تھا کہ گورنر ہائوسز اور وزیراعظم ہائوس وغیرہ قوم برداشت نہیں کرسکتی بلکہ یہ تک کہہ دیا گیا کہ حکومت آتے ہی ہمارے بلڈوزر ان عمارتوں کو گرانے کے لیے آن پہنچیں گے۔ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔ ایسا اعلان شہبازشریف نے بھی کیا تھا کہ وہ چیف منسٹر ہائوس میں نہیں رہیں گے۔ قوم کو اس کی کافی قیمت ادا کرنا پڑی۔ خیر ان کا جو مصر ف ڈھونڈا گیا ہے، اس سے لگتا ہے کہ ملک میں آرٹ گیلریاں اور میوزیم قائم کرنے کی بڑی ضرورت ہے۔ اکثر عمارتوں کے بارے میں ایسے ہی فیصلے آئے ہیں۔ اس میں بعض لطائف بھی ہیں۔ مثلاً کراچی کا گورنر ہائوس میوزیم بنا دیا جائے گا اور گورنر اسٹیٹ گیسٹ ہائوس میں منتقل ہو جائیں گے۔ بہت خوب! یہ بھی کوئی چھوٹی بلڈنگ نہیں ہے۔ اگر گورنر ہائوس ہمارے قائداعظم کی رہائش گاہ تھا تو اسٹیٹ گیسٹ ہائوس ہمارے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی رہائش گاہ تھی۔ اس میں کون کون ٹھہرا ہے، اس کی بھی ایک تاریخ ہے۔ ہاں مجھے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے گورنر پر ترس آتا ہے کہ انہیں گورنر ہائوس چھوڑ کر چنبہ ہائوس آنا پڑے گا۔ اس بارے میں کچھ کہنا نہیں چاہتا۔ کچھ عمارتیں تاریخی ورثہ ہیں اور کچھ ایسی ہیں جنہیں آزادی کے بعد پاکستان کی حکومت نے عوام کے پیسوں سے بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نفیسہ شاہ نے کھل کر کہا ہے کہ آپ کون ہوتے ہیں وزیراعظم ہائوس کو برباد کرنے والے، یہ آپ کی جاگیر نہیں، آپ کو کچھ بنانا ہے تو بنی گالا میں بنائیے۔ اصل قربانی تو یہ ہوگی۔ ویسے برسبیل تذکرہ اسلام آباد کے ایوان صدر کے بارے میں کیا ارادے ہیں۔ بڑی شاندار بلڈنگ ہے اور ویسے بھی عارف علوی تو اسمبلی لائونجز میں رہ رہے ہیں۔ کچھ اور عمارتیں بھی ہیں، ضرورت پڑی تو ان کی نشاندہی بھی کرتے رہیں گے۔ بڑے بڑے محلات ہیں۔ ویسے عجائب گھر آرٹس گیلریاں بنانا مجھے اچھا لگتا ہے کہ میں ادب اور فنون لطیفہ کا طالب علم ہوں اور قومی تہذیبی ورثے کی اہمیت کا قائل ہوں مگر اس سے آپ اور عوام کو کیا براہ راست فائدہ پہنچے گا۔ ذرا بتا تو دیجئے۔ گزارش صرف اتنی ہے یہ ملک ہم سب کا ہے۔ جو کچھ کرنا ہے، ذرا سوچ سمجھ کر کیجئے۔