آخر مملکت خداداد کے عوام ایسے ناشکرے کیوں ہیں؟انہیں اپنے محسنوں کی قدر کب آئے گی؟انہیں یہ ادراک کب ہوگا کہ یہ زرداری یہ شریف اور ان کی آل اولاد ان کی بھلائی کے لیے کیسے کیسے کشٹ اٹھاتی ہے،جھوٹے مقدمے بھگتتی ہے ،دل شکن الزامات سہتی ہے پھر بھی اس قوم کی بھلائی اور بہبود کا خیال نہیں چھوڑتی۔بلاول کو عوام کا درد نہ ہوتا تو کاہے کو ناشکروں کے دیس میں اپنی گلابی اردو کا مضحکہ اڑوانے آتا۔وہیں کہیں لندن میں چار گرہ کا فلیٹ اپنے والد گرامی کی گرہ سے خرید، رہ پڑتا اور باقی عمر اپنے کزن ذوالفقار جونئیر کی طرح زنانہ لباس پہن کر کیٹ واک اور سندھی کشیدہ کاری کرتے امن سکون سے گزار دیتا۔سرے محل بھی اچھا آپشن تھا۔ظالمو! کیا وہ اس دن کے لئے آیا تھا کہ تم جے آئی ٹی جیسی بے رحمانہ رپورٹ میں اس معصوم کا نام گھسیٹو ؟آخر آل شریف کے دو سپوت بھی تو لندن کے فلیٹوں میں بیٹھے چین کی بانسری بجا رہے ہیں جن کے والد صاحب مجھے کیوں نکالا کے نوحے سے ووٹ کو عزت دو کے مطالبے تک موٹر وے پہ رلتے رہے۔ہمشیرہ کو جیل ہوئی پھر دونوں کی ضمانت ہوئی ۔ پھر والد صاحب دھرے گئے جہاں آج کل مبینہ طور پہ وہی کررہے ہیں جو قومی خزانے کے ساتھ کیا تھا ۔ حاسدین کا منہ کالا اور ناشکروں کا بیڑہ غرق۔ خلق خد ا کی زبان کون روک سکا ہے۔ وہ تو کہیں گے کہ باپ جیل میں خاروب کشی کررہا ہے ، بہن کو چپ لگ گئی لیکن صاحبزدگان ان ہی مشتبہ لندن فلیٹوں میں بیٹھے گیم آف تھرونز سیزن آٹھ دیکھتے رہے ۔ ظالم دنیا تو بس ہنستے چہرے دیکھتی ہے۔دلوں کے زخم کس کو نظر آتے ہیں۔ کیا ان کا دل نہ چاہتا ہوگا کہ وہ بھی اپنے دیس میں جہاں ان کے والد قوم کے غم میں ہلکان اتنے غیر ملکی دورے کیا کرتے تھے کہ عوام ایک دوسرے سے پوچھتی تھی ظل الٰہی اپنے ملک کا دورہ کب کریں گے اور چچا جن کے کاغذات نامزدگی تک ہیلی کاپٹر میں آیا کرتے تھے،اپنی صحت سے لاپروا سر اور پیروں میں بلاترتیب سولا ہیٹ اور فل بوٹ پہنے بارش میں اپنے ہی بنائے ہوئے انڈر پاسز میں شپڑ شپڑ کیا کرتے تھے،بے فکرے سے ہو، گھومیں پھریں دہی بھلے کھائیں اور عوام میں گھل مل جایا کریں۔کبھی دل چاہے تو الیکشن لڑیں اور اسی عوام کے نمائندے بن کر دن رات قوم کے غم میں گھلتے رہیں۔ کیا پھجے کی نہاری کی خوشبو اکثر ان کی نیندیں نہ اڑا دیا کرتی ہوگی لیکن نہیں، دل پہ ایون فیلڈ کا پتھر دھرے ، والد اور ہمشیرہ کو نیب اور نئی حکومت کے رحم وکرم پہ وہی چھوڑ سکتا ہے جسے اپنی ننھی منی معصوم خواہشات سے زیادہ عوام کی فکر ہو۔اسی ناشکری بے درد عوام کی۔ جسے یہ احساس بھی نہیں کہ ماں کے جنازے کو کاندھا دینا تو ہر بیٹے کا فرض ہوتا ہے اوراگر یہ فرض نہیں نبھایا گیا تو اس کی وجہ گرفتاری کا خوف نہیں، دھرتی ماں کا عشق تھا۔یہ ناشکری ناسپاس گزار قوم لیکن نہیں سمجھے گی۔ ایک سابق وزیر خزانہ بھی ایسی ہی کٹھن جذباتی کیفیت سے دوچار ہیں۔ان کا بھی دل چاہتا ہے کہ جمعہ کی نماز تو کم سے کم اپنے ملک کی کسی مسجد میں پڑھیں جہاں کوئی بدزبان ان سے یہ تو نہ پوچھے کہ قبلہ آپ کا نام کیا ہے اور آپ یہاں کیا کررہے ہیں آپ کو تو پاکستان میں ہونا چاہئے تھا جہاں آپ قانون کو مطلوب ہیں۔کون ایسی ذلت سہنا چاہتا ہے۔ وطن اور اہل وطن کی محبت میں وہ بھی سہی۔کہاں وہ تام جھام کہ بس بجٹ تقریر کے پرمسرت موقع پہ تین گھنٹے کا درشن کروادیا جاتا تھا اور یقینا ایسا بھی عوام کے جذبات کا خیال کرکے ہی کیا جاتا ہوگا کہ مجروح نہ ہونے پائیں،کہاں لندن کی سڑکیں،نماز جمعہ اور بدتمیز تارکین وطن۔ کم بخت ہیں بھی زیادہ تر عمران خان کے سپورٹر۔ بدتمیز تو ہونگے۔ایک صاحب جو سب پہ بھاری ہیں اسی کارن پھڑے گئے کہ انہیں ملک خدادا د کے عوام سے محبت ہی بہت تھی ۔ بس یہی درد نہیں لے ڈوبا۔ آج سے پہلے کس نے فالودے والوں،ڈرائیوروں اور مالیوں کے اکاونٹ میں چپکے سے اربوں روپے منتقل کئے ہونگے۔ ایسے مسیحا کس قوم کو نصیب ہوتے ہیں جو اپنی حق حلال کی کمائی یوں بیک جنبش قلم و یک مشت غریبوں کے حوالے کردیں اور پلٹ کر نہ پوچھیں۔ اور اس جے آئی ٹی سے تو اللہ پوچھے۔نہ شرفا کی عزت کا خیال نہ زرداریوں کی حرمت کا ۔ الزامات سے بھرے ٹوکرے دھرتے یہ نہیں سوچتی کہ کل کلاں کو یہی دائو الٹا پڑ گیا تو کیا ہوگا۔میری مانیں تو نیب کو تحلیل کریں اور یہ جے آئی ٹی وغیرہ کا ٹنٹا ہی ختم کریں۔بدعنوانی، جعلی اکاونٹس، میگا کرپشن اور قومی خزانے کی لوٹ مار سے کسی کو تکلیف ہے تو سیدھے سبھاو تھانے جاکر زرداری اور ان کی ہمشیرہ اور نواز شریف ، شہباز شریف اور ان کے صاحبزادوں کے خلاف ایف آئی آر کٹوائے۔آخر کو قانون بھی کوئی شے ہے۔ملک میں قانون کا بول بالا ہے۔ آئین کی بالا دستی ہے۔مجرم بالاخر اس کی گرفت سے نہ بچ سکیں گے۔بچ بھی گئے تو اللہ کی پکڑ سے کون بچے گا۔اس لئے بند کریں یہ نیب جے آئی ٹی کا ظالمانہ نظام اوراحتساب عدالتیں جو ایسے نیکوکاروں کو بدنام کرتی ہیں۔تھانوں میں کیا قفل پڑ گئے ہیں اور عدالتوں نے کیا انصاف کرنا ترک کردیا ہے۔آخر بلاول کے نانا بھی ایسی ہی ایف آئی آر کے طفیل رتبہ شہادت پہ فائز ہوئے تھے۔ کرپشن کے خلاف بھی مدعی عوام کو بننا چاہیے جس کا ٹیکس کھایا جاتا ہے۔ریاست کاہے کو بیچ میں اتاولی ہورہی ہے۔رہ گئیںوہ پیٹ پھاڑنے اور سڑکوں پہ گھسیٹنے والی باتیں تو وہ تو پیار بھری سرگوشیاں تھیں ۔ انہیں کون سیریس لیتا ہے۔را ت گئی بات گئی ۔ اصل مسئلہ ہے عوام کی فلاح و بہبود۔ ان کے مسائل کا حل اور ان کی ترقی وخوشحالی۔ وہ تو مل جل کر ہی کی جائے گی نا۔اکیلے اکیلے ایسے بھاری پتھر کہاں اٹھائے جاتے ہیں۔تبھی تو کل پارلیمان میں جو ایسی بالادست ہے کہ اس میں نیب کے چیئرمین کو بھی طلب کیا جاسکتا ہے ،ایس ایچ اور کو بھی اور ہاں کسی روز دل چاہے تو چیف جسٹس کو بھی ، سارے قوم کے ہم درد اکھٹے ہوگئے۔یہ عنادل جو مل جل کر آہ وزاریاں کررہے ہیں ان کے دل اس ناشکری قوم کے درد سے پھٹے جارہے ہیں۔ ان کا بس نہیں چل رہا کہ اس حکومت کا تختہ الٹ دیں جس نے ان کی محبوب عوام کو مہنگائی کے عذاب میں مبتلا کیا ۔اس عوام کو جس کی خاطر کس جتن سے قرضے لے لے کر گردشی قرضے ادا کئے تھے کہ وہ چین کی نیند سوئے توانائی کے بحران میں مبتلا کیا۔ان کی بہائی ہوئی دودھ کی نہروں میں جاگ لگا کر اسے دہی بنا دیا۔ اب یہ ایک دوسرے کے دیرینہ دشمنوں کو بادل ناخواستہ گلے لگانے پہ مجبور ہوئے ہیں تو آخر کس لئے؟اسی ناشکری، ناسپاس گزار قوم کے لئے۔