قرض چکانا ہے ، ساری قوم کو چکانا ہے ۔ یہ محنت، ریاضت ، ایثار اور حقائق کے ادراک سے ہوگا ۔ حکمرانوں کو جس کے لیے مثال بننا ہوگا۔ نوشتہ ء دیوار ہے کہ وگرنہ یہ جمہوری نظام باقی نہ رہے گا ۔ دلیل جب نہیں سنی جاتی تو جبر بروئے کار آتا ہے ۔ حبس باقی رہے تو لو چلتی ہے ۔ گرانی اور بے یقینی کے طوفان میں آخر کار کچھ اچھی خبریں ہیں ۔ کرکٹ میچ میں پاکستان نے اب تک ناقابلِ شکست نیوزی لینڈ کو پورے میچ میں قائم رہنے والی برتری سے ہرا دیا ۔ مولانا فضل الرحمن کی آل پارٹیز کانفرنس منہ کے بل گری اور اس سے بھی زیادہ یہ کہ ایمنسٹی سکیم کی طرف بالاخر لوگ مائل ہوئے ۔ آخری نتیجہ اب بھی معلوم نہیں ۔ کیا پاکستان یقینی طور پر افغانستان اور بنگلہ دیش کو ہرا سکے گا ۔ ہرا بھی دے تو سیمی فائنل تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ انگلینڈ بھارت سے میچ ہار جائے ۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ انگلینڈ کے بعد نیوزی لینڈ کوہم نے شکست دی،تمام مقابلوں میں جو ظفر مند رہے تھے ۔ میچ کا پہلا حصہ محسن حسن خان اور ان کی اہلیہ کے ساتھ دیکھا ، جو پی ٹی وی پر تبصرے کے لیے تین ہفتوں سے اسلام آباد میں پڑے ہیں ۔ ان برسوں کو، جب کرکٹ ٹیم کے وہ کوچ تھے ، پاکستانی کرکٹ کا ایک سنہری دور کہا جا سکتاہے ۔ رفتہ رفتہ بتدریج ٹیم فروغ پاتی رہی ؛حتیٰ کہ معرکے سر کیے ۔ سامنے کی یہ سچائی عمران خان کو کیوں نظر نہیں آتی ۔سیاست کی طرح کرکٹ میں بھی اب انہی لوگوں پر وزیرِ اعظم کا انحصار ہے ، جنہیں کبھی یکسر مسترد کیا کرتے ۔میچ کے دوران محسن حسن خاں سے کرید کرید کر پوچھتا رہا کہ کیا پاکستان کی فتح اب یقینی ہے ؟ اس کا ایک ہی جواب تھا : اگروہ ذہنی دبائو برداشت کر سکے ۔ محسن کرکٹ کی باریکیوں کو سمجھنے والے بہترین کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں ۔ اگر کوچنگ کی ذمہ داری انہیں دے دی جائے تو شاید ٹیم کے مزاج میں استحکام پیدا ہونے لگے ، جو اس کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔ میرا خیال تھا کہ پابندی سے ورزش اور مشق اور کم از کم ایک ایسا استاد ، جو نفسیاتی گرہیں کھول سکے ۔ محسن حسن خاں نے اتفاق کیا مگر یہ کہا : اگر یہ کسی کی ترجیح ہو، اگر کسی کو فکر لاحق ہو ۔اپنے ملاقاتی کی طرح محسن حسن خاں ایک باتونی آدمی ہے ۔ دوستوں کے سامنے دل کھول کر رکھ دینے والا۔ اب کی بار مگر دریافت ہوا کہ اس میں ایک قناعت اور آسودگی آگئی ہے ۔ تجزیہ اس نے انہماک سے کیا لیکن گھبراہٹ ، پریشانی سوار نہ تھی ۔ پاکستان کی فتح محض اس لیے شادماں کرنے والی نہیں کہ مایوسی اور پژمردگی جاتی رہی بلکہ ایک عظیم امکان کی دریافت۔ بدترین دبائو میں اگر یہ ٹیم سلیقہ مندی اور جذباتی توازن کا مظاہرہ کر سکتی ہے تومزید پھلنے پھولنے سے کون روک سکتاہے ۔ رواں عالمی کپ میں معجزوں کی امید پالنے اور خواب دیکھنے کی بجائے منصوبہ بندی البتہ آئندہ برسوں کے لیے ہونی چاہئیے ۔ اللہ کاوہی ابدی قانون : انسانوں کے لیے وہی کچھ ہے ، جس کی انہوں نے کوشش کی ۔ اللہ کی رحمت اور امکان کے دروازے چوپٹ کھلے رہتے ہیں ۔ ہاں مگر زندگی انہماک اور ریاضت کا مطالبہ کرتی ہے ۔ آل پارٹیز کانفرنس کی ناکامی پر شادماں ہونے کا جواز کیا ہے ؟ عمران خاں کے ہاتھوں میں سچائی کا علم نہیں اور وہ معرکے سر نہیں کر رہے ؛لہٰذا کسی خوش دلانہ تائید کے وہ مستحق نہیں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ مولانا فساد پہ تلے ہیں ۔ ظاہر ہے ، ملکی تاریخ میں یہ پہلی بار نہیں ۔ 14اگست 2014ء کو عمران خاں نے بھی یہی کیا تھا ۔ نہ صرف طوفانِ بدتمیزی بلکہ تاریکی میں جوڑ توڑ بھی ۔ کراچی میں ایم کیو ایم اور سندھ میں پیپلزپارٹی نے ڈٹ کر دھاندلی کی تھی ۔ پنجاب میں نون لیگ نے پٹواریوں ، تحصیل داروں اور بلدیاتی اداروں کی مدد سے ۔ بالکل ایک مافیا کی طرح ۔ اس کے باوجود عمران خاں کو سازش کا حق تھا اور نہ پارلیمنٹ پہ حملے کا ۔ نون لیگ دھاندلی نہ بھی کرتی تو بھی پی ٹی آئی کو ہارنا تھا، اپنی حماقتوں کے سبب۔ٹکٹوں کی غلط تقسیم کے طفیل ، جس کا تسلسل 2018ء میں بھی جاری رہا ۔یہ بات انہیں بتا دی گئی تھی ۔ یہ بھی عرض کیا تھا کہ کوئی نتیجہ دھرنے کا نکلنے والا نہیں ۔ اس نے بجلی کے بل جلانے اور سمندر پار پاکستانیوں سے روپیہ نہ بھیجنے کی اپیل کی یا سول نافرمانی کی تو اتنی ہی سختی کے ساتھ اسے ٹوکا گیا ۔ وہ ناراض رہا اور مدتوں ناراض ۔ آج کل ایک اور سبب سے نا خوش ہے مگر اس سے کیا ہوتاہے ۔ اخبار نویس اگر آزاد ہو تو کم ہی کوئی اسے معاف کرتا ہے ۔ بزرگ اخبار نویس عبد القادر حسن نے سچ کہا تھا : اخبار نویس اور لیڈر کی دوستی سے بڑا جھوٹ کوئی نہیں ۔ طوفان اٹھانے کے لیے مولانا کی تائید صرف اے این پی اور محمود اچکزئی کی پارٹی نے کی ۔ اسے محض اتفا ق ہی کہیے کہ اسفند یار ولی ، حضرت مولانا اور محمود اچکزئی ، جن کے جانشین ہیں ، وہ سب کے سب قیامِ پاکستان کے مخالف تھے ۔ کسی کو بھی بہرحال 14اگست 1947ء کے بعدادا کئے جانے والے کردار سے جانچا جائے گا۔ ایسے میں ماضی کی یادیں سر اٹھاتی ہیں ۔ کیا ان لوگوں کو ریاست سے دلچسپی ہے ؟ کیا وہ امن ، استحکام اور خوشحالی کے آرزومند ہیں یا محض بغض و عناد کے مارے ۔انہی کا کیا ذکر، اکثر کا حال یہی ہے ۔ ملک سے بے نیاز ، قوم سے بے نیاز، محض اپنی غرض کے بندے۔ آئے دن حکومتوں کو اکھاڑ پھینکنے سے کبھی کچھ حاصل ہوا اور نہ ہوگا۔ پیپلزپارٹی نے یہ نکتہ سمجھ لیا ہے کہ اکھاڑ پچھاڑ ہوئی تو سندھ حکومت بھی جاتی رہے گی ؛چنانچہ مصالحت پہ وہ آمادہ ہے ۔ تازہ ترین یہ ہے کہ نواز شریف بھی بیرونِ ملک جانے پہ رضامند ہیں ۔ ان سے مطالبہ یہ ہے کہ دخترِ نیک اختر کو بھی ساتھ لیتے جائیں۔ مہنگائی کا اذیت ناک طوفان اٹھا ہے ۔ بے شک عمران خاں کی بے حکمتی بھی ایک وجہ ہے لیکن بہرحال یہ 70سال کی حماقتوں کا نتیجہ ہے ۔ہم تاریخ کے چوراہے پر سوئے پڑے رہے ،بھیک پہ بھیک ۔ اب آنکھ کھلی ہے تو سنگین حقائق سامنے ۔ یہ نمازِ عصر کا وقت ہے ، یہ گھڑی ہے دن کے زوال کی وہ قیامتیں جو گزر گئیں ، تھیں امانتیں کئی سال کی خوش آئند یہ ہے کہ ایمنسٹی سکیم کی طرف لوگ بالاخر مائل ہیں ۔اصولی رویہ حکومت کو اختیار کرنا چاہئیے ۔ توسیع اگر ہو تو چند روز سے زیادہ کی نہیں ۔ اس کے بعد ٹیکس چوروں کا پیچھا ، عا م نہیں ، ارب پتی ٹیکس خوروں کا۔حالات بتدریج ہی بہتر ہوں گے لیکن ہو سکتے ہیں ۔ ایسی کوئی افتاد ہم پہ نہیں آپڑی جو دوسری قوموں پہ نہ آئی ہو۔ ہم کسی جنگ کا تباہ حال کھنڈ رنہیں ۔ نہ دو عشرے پہلے کے ملائیشیا ،ایک عشرہ پہلے کے ترکی اور نہ آج کے وینزویلا کی طرح اقتصادی سیلاب کا شکار ہیں ۔ ہاں مگر حقائق کا سامنا کرنے سے گریزاں ۔ قرض چکانا ہے ، ساری قوم کو چکانا ہے ۔ یہ محنت، ریاضت ، ایثار اور حقائق کے ادراک سے ہوگا ۔ حکمرانوں کو جس کے لیے مثال بننا ہوگا۔ نوشتہ ء دیوار ہے کہ وگرنہ یہ جمہوری نظام باقی نہ رہے گا ۔ دلیل جب نہیں سنی جاتی تو جبر بروئے کار آتا ہے ۔ حبس باقی رہے تو لو چلتی ہے ۔