سینیٹ الیکشن قومی سیاست کا محور بن چکا اور سینیٹ الیکشن پرحکومت جس طرح کی جلد بازی کا مظاہرہ کر رہی ہے، اس کو دیکھتے ہوئے لگ یوں رہا ہے کہ اوپن بیلٹنگ حکومت کی دکھتی رگ بن چکی ہے، کیونکہ حکومت کی طرف سے پہلے تو اس معاملے کو ایک صدارتی ریفرنس کی شکل میں سپریم کورٹ کی رائے لینے کے لیے پیش کیا گیااور پھر حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے ہی اپنا فیصلہ کرلیا۔ اس سلسلے میں حکومت نے پہلے سپریم کورٹ میں صدارتی یفرنس داخل کیا، پھر پارلیمنٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کیا اور اب صدارتی آرڈیننس جاری کر دیا ہے، جس کے مطابق الیکشن ایکٹ میں شو آف ہینڈز کی ترمیم کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط کیا گیاہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ سینیٹ الیکشن کا شیڈول جاری ہونے سے پہلے قانون سازی کی جا سکتی ہے، مگر شیڈول جاری ہونے کے بعد سینیٹ الیکشن کے طریقہ کار رتبدیل نہیں کیا جا سکتا،جبکہ بعض قانونی ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ سینیٹ الیکشن کا شیڈول جاری ہونے کے بعد بھی قانون سازی کی جا سکتی ہے۔اس بحث میں الجھے بغیر کہ حکومت کوآرڈیننس جاری کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا، مگر کہا یہ جا رہا ہے کہ اگرعدالتی رائے حکومتی مؤقف سے مختلف ہوئی تو ریفرنس ختم ہو جائے گا۔ سپریم کورٹ میں صدارتی آرڈیننس کا معاملہ تاحال زیر سماعت ہے اور صوبائی حکومتیں، الیکشن کمیشن اور کئی سیاسی جماعتیں اس معاملے میں اپنی رائے سپریم کورٹ میں پیش کر چکی ہیں۔دوسری طرف اوپن ووٹنگ کے ذریعے سینیٹ الیکشن کروانے کے لیے جوبل پیش کیا گیا،اس کاکیاحشر ہوا ؟وہ ساری قوم دیکھ چکی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں غالباً ایسا کوئی آرڈیننس نافذ نہیں رہا ،جواگر مگر سے مشروط ہو اور جس کا نفاذتو پہلے کر دیا گیا ہو،جبکہ عملی نفاذ کی نوبت بعد میں آئی ہو۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں،اس لیے وہ آئینی ترمیم کا بل قومی اسمبلی سے منظور نہیں کروا سکتی۔ سوال یہ ہے کہ یہ کوئی انکشاف تو نہیں جو بل کو اسمبلی میں پیش کرنے کے بعد کیاگیا؟یہ تو وہ حقیقت ہے ،جو2018ء کے الیکشن میں کے نتائج آتے ہی واضح ہو گئی تھی۔ اس لیے اگر ترمیم کرنا اتنا ہی ضروری تھا تو اس کے لیے حکومت کو اپوزیشن کے ساتھ مشاورت کرنی چاہیے تھی،جس کی حکومت نے کبھی ضرورت ہی محسوس نہ کی،لہٰذا سینیٹ الیکشن ترمیمی بل کا جو حشر ہوا، اس سے مختلف کیا ہو سکتا تھا؟ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہماری سیاسی تاریخ میں سینیٹ الیکشن کے موقعے ہارس ٹریڈنگ اور چھانگا مانگا کی سیاست ماضی کا حصہ رہی ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ سینیٹ الیکشن میں پیسے کا استعمال کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ ماضی میں پیسے کا استعمال کر کے تمام انتخابی عمل مکمل کیے جاتے رہے ہیں۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ حکومت آئینی ترمیم اس لیے کرنا چاہتی تھی کہ دْوہری شہریت کے حامل اپنے پیسے والے دوستوں کو نوازا جا سکے اور جب آئینی ترمیم لانے میں ناکامی ہوئی تو دونوں ایوانوں کے جاری اجلاسوں کو ملتوی کر کے صدارتی آرڈیننس لے آئی ، اپوزیشن کی اس دلیل میں کافی وزن ہے، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ سینیٹ کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے پہلی شرط پارٹی سے وفاداری سمجھی جاتی ہے، جبکہ دوسری شرط مضبوط سیاسی دھڑے کے ساتھ تعلق اور پیسہ خرچ کرنے کی صلاحیت سمجھی جاتی ہے۔ سینیٹ الیکشن میں اوپن ووٹنگ پرحکومتی نمائندے اوروزراء بار بار ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان لندن میں ہونے والے چارٹر آف ڈیمو کریسی کا حوالہ دیتے ہیں،جس میں لکھاہوا ہے کہ سینیٹ الیکشن کی ووٹنگ خفیہ نہیں ہونی چاہیے۔ اس معاہدے کو کم و بیش پندرہ سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ حکومت کو اس چارٹر کی یاد اب کیوں ستا رہی ہے؟ سوال بھی ہے کہ کیا اس چارٹر میں یہی ایک شق ہے،جس پر عمل ہونا ضروری ہے ؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ جب سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر دیا گیا تھا، تو پھرفیصلے کا انتظار کیے بغیر آئینی ترمیم کا بل کیوں پیش کیا گیا؟ میری رائے میں حکومت کوایسانہیں کرنا چاہیے تھا اور اگر حکومت ایسا کرتی تو یقینا اس کو خفت نہ اٹھانا پڑتی،لیکن لگتا یہی ہے کہ اوپن بیلٹنگ حکومت کی واقعی دکھتی رگ بن چکی ہے، شاید اسی لیے حکومت نے جلد بازی میں مشروط صدارتی آرڈیننس کو جاری کر دیا ہے، جبکہ فیصلہ تو سپریم کورٹ کی رائے کے مطابق ہی ہونا ہے،لہٰذااس اقدام سے حکومت کی بوکھلاہٹ ضروربے نقاب ہوئی ہے۔ دوسری طرف جے یو آئی (ف) نے صدارتی آرڈیننس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے، جبکہ بلاول بھٹو بھی چیلنج کرنے کا کہہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ پی ڈی ایم سینیٹ الیکشن مشترکہ طور پر لڑنے کا فیصلہ اور 26 مارچ کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان بھی کر چکی ہے۔ایسے میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ناصرف سینیٹ الیکشن میں ،بلکہ شہر اقتدار میں بھی گھمسان کا رن پڑنے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا سیاست اسی طرز عمل کا نام ہے، جو ملک کی سب سیاسی جماعتوں نے اپنا رکھا ہے؟ کیا عوام کو شعور نہیں کہ کون کیا کر رہا ہے؟جن ایشوز پر اپوزیشن احتجاج پر ہے، کیا وہ ایوانوں میں اور عدالتوں میں زیر بحث نہیں آنے چاہئیں؟ کیا حکومتوں کو لانگ مارچ اور دھرنے سے رخصت کرنے کی روش جمہوری اور آئینی قرار دی جا سکتی ہے؟بلاشبہ سیاست بند گلی میں داخل ہونے کا نام نہیں اور ڈائیلاگ ہی جمہوری عمل کے لیے انتہائی ضروری ہے، لہٰذا بہتر ہو گا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں سینیٹ الیکشن کے بعد ایوانوں کا رخ کریں، تاکہ سیاسی اور عوامی مسائل کا مستقل حل نکالا جا سکے۔ رہی بات سینیٹ الیکشن کی تو اس کے بارے میں بس یہی کہوں گی کہ یہ پیسے کا کھیل ہے، صاحب!