تحریک انصاف بالخصوص وزیراعظم عمران خان ہر طرف سے نشانے پہ ہیں۔کیا میڈیا میں بیٹھے بزرجمہر اور کیا اپوزیشن میں بیٹھے ارسطو اور بقراط۔ یہ آموختہ جتنی بار دہرایا جائے کم ہے کہ ملک کو اس حال میں پہنچانے والے یہی لوگ ہیں جو آج گلا پھاڑ پھاڑ کر شور مچا رہے ہیں۔ ایسا ورنہ کیا ہوگیا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ کابینہ میں ردو بدل وزیر اعظم کا اختیار ہے جس کا نہ کوئی بھائی پنجاب کا وزیر اعلیٰ ہے نہ بھتیجا پنجاب کی پی اے سی کا چئیرمین بننے کے لئے بلیک میلنگ پہ اتر آیا ہے۔حال جن کا یہ تھا کہ ذاتی پسند ناپسند پہ پنجاب پولیس سے انتہائی اعلی قابلیت کے افسران بطور سزا خیبر پختونخواہ بھیجے جاتے رہے۔منظورنظر بیوروکریٹوں کی ٹولیاں سندھ اور پنجاب میں تعینات کی جاتی رہیں جو صوبوں کی قسمت سے اعلی کوالٹی کے مضبوط اور پائیدار سیمنٹ کی طرح چپکے رہے۔دس سال میں دس وزرائے خزانہ تبدیل ہوئے کسی کے کان پہ جوں نہیں رینگی۔ ایک وزیر خزانہ تو خدا جانے کس دروازے سے درانہ وار در آئے اور محض بجٹ پیش کرنے کی خاطر حلف اٹھالیا جو ان کا استحقاق نہیں تھا کہ انتخابات میں چند ہی روز رہ گئے تھے۔ایک اسی دروازے سے چپکے سے لندن سٹک لئے۔ وہاں بیٹھے سوشل میڈیا پہ متحرک ہونے کی دھمکیاں دیتے ہیں لیکن واپس آکر اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کرنے کو تیار نہیں۔ عمران خان کابینہ میں اکھاڑ پچھاڑ پہ پچھاڑیں کھانے والوں کو بے نظیر بھٹو کی بے انت قسم کی کابینہ یاد نہیں رہی۔ مجھے یاد ہے کسی مناسب محل و مقام پہ اپنے ہی ایک وزیر کو دیکھ کر محترمہ نے دریافت کیا تھا کہ آپ کو کہیں دیکھا ہے؟اس پہ وزیر باتدبیر نے یہ تاریخی جواب دیا تھا کہ میں فلاں وزیر ہوں۔ اپنی والدہ محترمہ نصرت بھٹو کے لئے ایک عہدہ وزیر بے محکمہ تخلیق کیا گیا تھاشاید یہ بھی عمران خان کی چارپائی کے نیچے شست باندھ کر خبریں نکال لانے والے باخبر صحافیوں کو یاد نہیں۔معاف کیجئے گا مجھے غلط یاد آیا۔ درحقیقت یہ عہدہ تو بابائے جمہوریت ذوالفقار علی بھٹو کی ایجاد تھا۔ یہ عہدہ پیپلز پارٹی کے بانی رکن اور مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل خورشید حسن میر کی تالیف قلب کے لئے ایجاد کیا گیا تھا۔ وہ وفاقی کابینہ کے رکن ضرور تھے لیکن ان کے پاس کوئی عہدہ نہیں تھا۔ بزرگوار اس پہ خوامخواہ جز بز ہوا کرتے تھے۔ نصرت بھٹو کامل شرح صدر کے ساتھ اس عہدے سے لطف اندوز ہوتی رہیں۔یہی سائنس دانی پیپلز پارٹی کے انتہائی سینئر اور متحرک رہنما میر ہزار خان بجارانی کے ساتھ دکھائی گئی جو سن چوہتر اور ستتر میں صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ہر مرتبہ انتخاب جیتے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے بھی رکن رہے۔ دفاع، صحت اور ہاوسنگ سمیت متعدد وزراتوں کے ذمہ دار رہے۔ بے نظیر کے قریبی ساتھی تھے۔ 2013 کے انتخابات میں ان کے صاحبزادے کو قومی اور انہیں صوبائی نشست پہ منتخب کروایا گیا اور صوبائی کابینہ میں شامل کرکے وزیر بے محکمہ کے اہم عہدے پہ فائز کیا گیا۔جس سے بددل ہوکر انہوں نے استعفی دے دیا۔ کوئی شور نہیں مچا کوئی ہنگامہ نہیں ہوا۔جب بے نظیر بھٹو پہلی بار وزیر اعظم بنیں تو ایک اچھوتا خیال ان کے ذہن رسا میں خود ہی غیب سے در آیا یا کسی ارسطو نے داخل کردیا۔ ضیائی مار شل لا میں کوڑے کھانے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے پیپلز پارٹی کے عام کارکنان کی تالیف قلب کے لئے قربانی فائلوں کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ اس فائل میں موجود فارم بھر کے ایک عام کارکن حکومت کو یہ یقین دلا سکتا تھا کہ اس نے جمہوریت کے لئے کیا قربانیاں دی ہیں۔ان قربانیوں کی قیمت چھوٹی موٹی نوکری،ماہانہ وظائف اور مالی امداد کے ذریعے کی جانی تھی۔ مجھے یاد نہیں کہ کتنی لاکھ فائلیں اس ضمن میں جمع کی گئیں اور ان کا کیا بنا لیکن یہ جمہوریت کی کونسی قسم تھی جس میں پارٹی کا کارکن اور عام پاکستانی اس فائل کے ایک پیج پہ نہیں تھے۔کیا جمہوری پارٹیاں اس لئے آمروں کی حادثاتی موت پہ بھنگڑے ڈالتی اور مٹھائیاں بانٹتی مسند اقتدار پہ فائز ہوتی ہیں کہ وہ اپنے کارکنان کو نوازیں گی؟ چلیں غریب کارکنان کا کوئی بھلا ہوجاتا تب بھی خیر تھی لیکن یہ غلغلہ محض گیارہ سالہ آمریت کے دکھ بھوگنے والے کارکنوں کی نفسیاتی چارہ گری ہی ثابت ہوا۔کہنے کو بہت کچھ ہے جس پہ عمران خان پہ زبان تیز کئے چیختے چنگھاڑتے بلاول بھٹو کا منہ بند کیا جاسکتا ہے۔ ایران میں عمران خان کی جرمنی اور جاپان سے متعلق گفتگو کو لے اڑتے ہوئے انہیں سرگودھامیں اپنی والدہ محترمہ کا جلسہ عام سے خطاب کے وقت اذان " بجتے " ہی خطاب روک دینا تو یاد نہیں ہوگا لیکن دہشت گرد گروپوں سے متعلق عمران خان کے انتہائی ذمہ دارانہ بیان کو سیاق وسباق سے الگ کرکے شور مچانے کی شعوری کوشش کچھ اور ہی اشارے کر رہی ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ اپوزیشن لیڈر کا کردار مکمل طور پہ بلاول بھٹو نے سنبھال لیا ہے اور کوئی دن نہیں جاتا جب وہ عمران خان کے لتے لینے کی ناکام کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔پارلیمنٹ میں اچانک پیپلز پارٹی نون لیگ سے زیادہ متحرک ہوگئی ہے۔اسد عمر کے استعفے اور کابینہ میں الٹ پھیر کے معاملے پہ سب سے زیادہ شور بھی اسی نے مچایا۔فواد چوہدری کی یاد بھی انہیں ہی ستائی۔شہباز شریف حیرت انگیز طور پہ مناسب سا رد عمل دے کر خاموش ہوگئے البتہ حمزہ شہباز نے پی اے سی کی چئیرمین شپ کے لئے نون لیگی ارکان اسمبلی کو ہلا شیری دینی شروع کردی جو استعفی جیب میں رکھے فی الحال تو ٹہلتے نظر آرہے ہیں۔یہ سب کیوں ہورہا ہے۔ کیا انہیں عوام کی ایسی فکر لاحق ہوگئی ہے کہ انہیں کسی پل چین نہیں آرہا۔تیس سالوں میں معیشت کا بھٹہ بٹھا دینے والوں کی قوم کے غم میں نیند اڑ گئی ہے اور وہ آٹھ ماہ پرانی حکومت سے معجزوں کی ولادت کروانے پہ تلے ہوئے ہیں۔ بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے رینٹل پاور پروجیکٹ کی تفصیلات طلب کرلی ہیں اور اپنے آئندہ پروگرام کو گردشی قرضوں کی ادائیگیوں سے منسلک کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ کچھ ماہ قبل شبلی فراز نے پرائیویٹ پاور رینٹل اور گردشی قرضوں پہ بہت ہی جامع رپورٹ مرتب کی تھی۔ اس رپورٹ میں قرضوں کی ادائیگی کے لئے جو حل پیش کئے گئے تھے ان کا بھی جائزہ لیا گیا ہے اور جو ذمہ دار تھے ان کا تذکرہ بھی ہوا ہے۔نیب نے دو روز قبل ہی رینٹل پاور کیس میں سابق وفاقی سیکریٹری شاہد رفیع کو گرفتار کرلیا ہے۔ اس سے قبل اسی کیس میں کنوک گلوبل کمپنی کے ڈائریکٹر لائق احمد بھی گرفتار ہوچکے ہیں۔یہ صاحب ایک آف شور کمپنی بھی چلا رہے تھے اور منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں۔اس سے پہلے رینٹل پاور مینیجر رانا امجد راجہ پرویز اشرف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیں۔ سندھ میں منی لانڈرنگ کے کیس علیحدہ ہیں۔پارلیمنٹ میں بلاول بھٹو کی گلابی اردو اور چٹی انگریزی میں چیخ پکار بلاوجہ نہیں ہے۔