جب بیسویں صدی کا اختتام ہو رہا تھا تو دو ایک برس تو یہی شور مچا رہا کہ یہ صدی 2000ء سے شروع ہو گی یا 2001ء سے۔ کچھ کمپیوٹر کے جھگڑے تھے کہ شاید کوئی دن بدلنا تھا وگرنہ نظام عالم تباہ ہو جائے گا۔ لگتا تھا کہ ہم کسی غیر معمولی تجربے سے گزرنے والے ہیں۔ تاہم یہ بات بڑے اہتمام سے بتائی جا رہی تھی کہ اب غیر معمولی وقت ہو گا چند آسان سی باتیں تھیں کہ نئی صدی امن کی صدی ہو گی۔ بڑے یقین کے ساتھ کہا جاتا تھا کہ اب دنیا میں اتحاد اور امن و امان کا دور دورہ ہو گا۔ دنیا سمٹ رہی ہے۔ ایک گلوبل ویلج بن جائے گا۔ ملکوں کے درمیان سرحدوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یورپی بلاک تو بن گیا ہے باقی دنیا بھی علاقائی بلاکوں میں بدل جائے گی۔ امن کی صدی ہو گی‘ امن کی صدی۔ ابھی ہم اس طرح کی بحثیں کر ہی رہے تھے کہ قیامت آ گئی سورج کی کالی ڈھال سے ٹکڑا گئی دنیا۔ نائن الیون نے نئی صدی کو ٹھیک طرح سے طلوع ہوتے بھی نہ دیکھا اور سب کچھ اتل پتھل کر کے رکھ دیا۔ گزشتہ صدی کے آخری تین چار برسوں میں چھپنے والے تجزیے پڑھ کر اب ہنسی آتی ہے۔ کیسی دنیا سوچی تھی کیسی نکلی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ نائن الیون کے ایک سال بعد ہم امریکہ میں حاضر تھے۔ ایک بڑے تھنک ٹینک میں ایک بڑے ہی معتبر تجزیہ نگار نے ہمیں سمجھانے کی کوشش کی کہ اس وقت دنیا کو کون کون سے بڑے مسائل پیش ہیں۔ بتایا گیا کہ چار ہیں۔ ان میں دو یہ بتائے گئے ایک مشرق وسطیٰ اور ایک عراق۔ عرض کیا کہ یہ عراق اور مشرق وسطیٰ دو کیسے ہو گئے۔ عراق‘ مشرق وسطیٰ ہی میں تو ہے۔ بڑے اعتماد سے بتایا گیا۔ عراق الگ ہے اور مشرق وسطیٰ الگ۔ جلد ہی ہمیں سمجھ آنا شروع ہو گیا کہ دونوں کیسے الگ الگ ہے۔ تاریخ ہر دور میں اپنے اپنے زاویہ ہائے نظر سے لکھی جاتی ہے اور سمجھی جاتی ہے۔ نائن الیون کے بعد کہتے ہیں دنیا ویسی نہیں جیسی کہ تھی۔ لیکن غور کیا جائے ہر زمانے میں دنیا ایسی نہیں ہوا کرتی تھی جیسی ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی ہونا چاہیے۔ دنیا کو بدلنے کے لئے ہمیشہ انسانوں نے اپنی خواہش کے مطابق زور لگایا ہے۔ ہر زمانے کے تاریخ دان نے بتایا ہے کہ تاریخ غلط لکھی گئی ہے۔ پرل ہاربرایک ڈرامہ تھا جس نے جنگ عظیم برپا کر دی۔ یہ واقعہ کیا گیا‘ اگر آج اگر یہ کہا جائے کہ نائن الیون دنیا کو بدلنے کے لئے کیا گیا تو جانے کتنے الزام لگ جائیں۔ آج ہی ایک رپورٹ چھپی ہے کہ افغانستان کی جنگ کی اندرونی صورت حال کو چھپانے کے لئے ہمیشہ غلط رپورٹنگ کی گئی جی ہاں یہ آج کی خبر ہے۔ کمانڈر جھوٹ بولتے رہے۔ انہیں اس بات کا یقین تھا کہ یہ جنگ جیتی نہیں جا سکتی۔ مگر وہ ایسی اطلاعیں دیتے رہے گویا وہ ٹھیک ٹریک پر ہیں۔ ایک زمانے میں اس جنگ کو جو نئی صدی کے آغاز سے شروع ہوئی ہے۔ اس کے بارے میں روز جھوٹ بولا گیا۔ سب سے بڑا جھوٹ تو اس جنگ کے آغاز کا جواز پیدا کرنا تھا۔ سب سے بڑا جھوٹ جس میں برطانیہ کی حکومت باقاعدگی سے شریک تھی۔ یہ شہرہ آفاق جھوٹ کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ پھر تسلیم کیا گیا کہ یہ ایک سفید جھوٹ تھا جسے صرف اس لئے بولا گیا کہ عراق پہ حملہ کیا جا سکے۔ کوئی اندازہ کر سکتا ہے کہ اپنی اپنی غرض مندیاں پورا کرنے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا گیا۔ سرمایہ دار دنیا ہی نہیں‘ انقلابی دنیا نے کیا کچھ نہیں کیا۔ اس صدی کے بارے میں جو جو خواب دیکھے تھے‘ وہ سب چکنا چور ہو چکے ہیں۔ سب کچھ الٹ ہوا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ نام نہاد تاریخ دان پرانے زمانوں کے واقعات سنا سنا کر بتاتے ہیں کہ سب کچھ غلط بیان کیا جاتا رہا ہے۔ ابھی چند دن کی بات ہے کہ ایک بڑی یونیورسٹی میں میرا پالا ایک بہت سینئر شخص سے پڑ گیا۔ وہ موضوع بدل بدل کر تاریخ کو اپنے انداز میں ڈھالتے اور باز نہ آئے۔ میں ان کا تعارف نہ کرائوں گا۔ ایک تو ان کا عہدہ‘ دوسرا ان کا اعتماد۔ محمود غزنوی کا ذکر آیا۔ ثابت کرنے لگے وہ تو سومنات فتح کرنے نہیں آئے تھے۔ وہ تو شمالی ہند میں سومناتیوں کے کہنے پر حملے کرتے پھر رہے تھے کہ ان شمال والوں نے محمود غزنوی کو گانٹھ لیا اور پیسے دے دلا کر سومنات کی طرف بھجوا دیا۔ گویا یہ یہاں کے دو تنظیموں کی اپنی لڑائی تھی ورنہ کوئی جذبہ ایمانی نہ تھا۔ یہ البتہ نہ بتایا کہ ان مقامی لوگوں میں کیا جھگڑا تھا۔ ثابت تو صرف یہ کرنا تھا کہ وہ کوئی بت شکن نہ تھا ۔ایک وقت آیا کہ راجہ داہر کے حوالے سے محمد بن قاسم کی بھی الگ تاریخ بیان کرنے لگے۔ اب ذرا اس تاریخ کو سنبھالنا مشکل تھا۔ چند ٹیڑھے سوال پوچھ لئے۔ یہ بھی پوچھ لیا اس کے علاوہ صلاح الدین ایوبی یا اورنگزیب عالمگیر کے سوال تو تاریخ کہیں اور راہ سے نہیں بنی ۔ خیر بحث کا مطلب یہ ہے کہ انسان نے ہمیشہ اپنی خصلت کے مطابق تاریخ کو مسخ کیا ہے اور اسے اپنے رنگ میں ڈھالا ۔انسانوں نے ہمیشہ تاریخ کو مسخ کیا ہے اور اپنے مقاصد کے لئے کیا ہے۔ تاریخ کو گڈ مڈ کرنا مشکل ہی نہیں ہوتابدنیتی بھی شامل ہو تو کیا کچھ نہیں ہو جاتا۔ آج کا دور مہذب انسان کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے ہم جھوٹ بولنے کے اہل بھی نہیں رہے۔ مگر ہو کیا رہا ہے۔ جموریت کے نام پر کیا ہو رہا ہے۔ ٹرمپ ہو رہا ہے۔ مودی ہو رہا ہے۔ یہ جو انڈیا میں نقل مکانی کا بل پاس ہوا ہے کس قدر شرمناک ہے۔ کشمیر میں دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت جو کچھ کر رہی ہے کیا کوئی اعتبار کر سکتا ہے کہ اس دور میں انسان اس طرح کا رویہ اختیار کرے گا۔ دنیا بہت مطلبی ہو گئی ہے۔ ہماری نگاہوں کے سامنے حالات و واقعات کو اس طرح بدلا جاتا ہے اور ہم دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ امریکہ میں یہ بحث چل رہی ہے کہ وہ اپنے صدر کا مواخذہ کریں یا اس کے ساتھ کیا سلوک کریں۔ وہ ہر جگہ جاتا ہے‘ بدتمیزی کر کے آ جاتا ہے۔ دنیا دیکھتی رہ جاتی ہے۔ بڑی بڑی قومیں جو تہذیب کا مینارۂ عظمت کہلاتی ہیں تہذیب سے کوسوں دور انسانیت کا مذاق بنا رہی ہیں۔ جہاں چاہتے ہیں تاریخ کو مسخ کر دیتے ہیں۔ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا دیتے ہیں۔ جنگیں چھیڑنے اور جاری رکھنے کے لئے جھوٹ بولتے ہیں۔ واقعے اور افواہیں گھڑتے ہیں۔ اس لحاظ سے کون کس بات کا اعتبارکرے۔ کیا تاریخ ایسی جھوٹی ہے۔ ایسے میں کون سوچ سکتا ہے کہ اکیسویں صدی کا انسان خود کو مہذب کہہ سکے گا۔