ٓٓاس تیزی سے تو کورونا بھی نہیں پھیلا جس تیزی سے طالبان اٹھے اور چھا تے چلے گئے،سب ہی حیران ، انگشت بدنداں کہ یہ ہو ا کیا،طالبان کو کسی بھی صوبے پر قبضے کے لئے بلکہ زیادہ درست قبضہ چھڑانے کے لئے بس اتنی ہی محنت کرنا پڑی کہ وہاں تک پہنچنے کی زحمت اٹھانا پڑی اور دنیا نے دیکھا کہ عام سی موٹرسائیکلوں ،گاڑیوں پر ڈھیلے ڈھالے کرتا شلوار والے ہاتھوں میں کلاشن کوفیں لئے کاندھے پر گنڈاسے کی طرح راکٹ لانچر رکھے کہیں پہنچتے ہیں اورپھر سکوت چھا جاتا ہے۔ وہ افغان فوج جس کی تربیت دنیا کی اکلوتی سپر پاور نے کی اور یوں لاڈ اٹھائے کہ امریکی شہریوں کے ٹیکس سے وردیاں تک سلوا کر دیں کہ انہوں نے ہمارے جانے کے بعدخطے میں ہمارے اسٹرٹیجک پارٹنرنئی دہلی کے ساتھ مل کر ہمارے مفادات کا تحفظ کرنا ہے، پاکستان کی پسلیوں میں چرکے لگانا ہے، چین کو پریشان رکھنا ہے لیکن سب کچھ الٹ گیا قرآن میں ہے نا ں کہ ’’وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے‘‘ سو اللہ نے اپنی تدبیر کی اورجذبے کے سامنے قبضے کو ڈھیر کردیا ،بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق امریکہ نے افغانستان میں ان کے دفاعی اداروں، پولیس کی تنظیم نو اور انہیں مضبوط کرنے پر83بلین ڈالر خرچ کئے امریکہ کو افغانستان میں پڑاؤ مجموعی طور پر 145بلین ڈالر کا پڑاہے، اس خطیر رقم کے خرچ کے بعد جب امریکہ کے ہاتھ کیا آیا ؟شکست خوردہ فوجی ،تھکے ماندے کھوجی کتے اورتاریخی ہزیمت وشرمندگی ۔ایسی ہی ہزیمت اسے ویتنام کی جنگ میں بھی ملی تھی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ واشنگٹن اور پینٹاگون تاریخ سے سبق سیکھتا خود کو افغانستان کی جنگ میںدھکیلنے سے گریز کرتاکہ جس سوراخ سے انہیں بچھو نے ڈسا تھا وہاں دوبارہ ہاتھ نہ ڈالتے لیکن انہوں نے ہاتھ کیا ہٹانا تھا، سر گھسا دیا۔ یہ ایک بھیانک غلطی تھی امریکیوں کو کابل ،ننگر ہار ،قندھار میں فوجیں اتارنے سے پہلے سرخ آرمی کا حشر یاد رکھنا چاہئے تھا۔ 15فروری1989زیادہ پرانی بات تو نہ تھی ،سی آئی اے کے مطابق روس نے افغان بالشویکیوں کی مدد کے لئے دریائے آمو عبور کر کے افغانستان آنے کی قیمت 18بلین روبل ادا کی تھی ،پندرہ ہزار سوویت فوجیوںکے تابوتوں کی قیمت کسی کرنسی میں ویلیو نہیں کی جاسکتی،35000زخمیوں کا شمار الگ اور 11000تووہ تھے جو عمر بھر کے لئے معذور ہوکر واپس لوٹے ۔جنگ مقصد،جذبہ اور مورال سے لڑی جاتی ہے، امریکیوں کے پاس سب کچھ تھا لیکن جذبہ تھا نہ مقصد، ان کے سپاہی خود کوپرائی آگ کا ایندھن سمجھتا تھا ،اب اس مورال کے ساتھ وہ افغانستان میں اپنے اہداف کیا پورے کرتے ،انہوں نے افغان فوج اور پولیس کو کھڑا کرنا چاہا لیکن ایک اکتایا ہوا بیزار استاد اپنے شاگردوں کا سکھا ہی کیا سکتا ہے ؟اس پر افغانستان کے مفرور صدر اشرف غنی نے سارا انحصار ہی واشنگٹن پر کر رکھاتھا، امریکہ کے بگرام ائیرپورٹ کے انخلاء پر بوڑھا افغان صدر بوکھلا گیا اسکی اسی بوکھلاہٹ نے طالبان کو ہوشیار کیا کہ معاملہ اتنا مشکل بھی نہیں ۔یہ اشرف غنی تو امریکی بیساکھیوں کے بغیر چار قدم بھی نہیں چل سکے گا،بگرام ائیرپورٹ سے امریکی ایسی خاموشی سے نکلے کہ افغانوں کو بھی دو گھنٹے بعد پتہ چلاوہ بوکھلا گئے اوراسی بوکھلاہٹ نے طالبان کے حوصلے بلند کر دیئے ،امریکیوں کے جانے کے ارادے سے افغان فوج کا مورال پہلے ہی نیچے آگرا تھا،اب اشرف غنی کے پاس جوش و جذبہ تھامورال اور نہ ہی کوئی مقصد۔دوسری جانب خشک روٹی کے لقمے توڑ کر قہوے کے ساتھ نگلنے والے طالبان تھے انہیں کسی افغان فوجی کی طرح تمغوں کا حرص تھا نہ کاندھوں پررینک کا اضافہ کرنے والے ستاروں کی لالچ ،انہوں نے ہاتھوں میں کلاشن کوف ،زڑکئے،پشپارائفلیں اور راکٹ لانچر اٹھا رکھے تھے ۔جہاد کا تصور ہی انہیں پرجوش رکھتا اور ان کا مورال بلند رکھتا تھا ،ایک بے حوصلہ جدید اسلحے سے لیس فوج کا سامنا حوصلہ مند پرجوش جنگجو لڑاکوں سے تھاوہ جان دینے پر تلے ہوئے تھے اور یہ کسی نہ کسی بہانے جان بچالینا چاہتے تھے۔ اسی فرق نے کابل پر قابض بوڑھے صدر کے سارے کس بل نکال دیئے اور وہ چار گاڑیوں میں بھری کرنسی لے کر قوم کو اسکے حال پر چھوڑ کر اڑان بھر گیا۔اس بار سب کچھ خلاف توقع اور اندازوں کی پہنچ سے باہر ہورہا ہے ،طالبان کے نام کے ساتھ جو ’’جاہل،سخت گیر،ہٹ دھرم اور متشدد ‘‘ کے سابقے لاحقے لگائے جاتے تھے وہ سب بے معنی ہورہے ہیں ،مغرب حیران ہے کہ یورپین میڈیا کی خاتون رپورٹر برقعہ پہن کر ’’سنسنی خیز‘‘رپورٹنگ کر رہی ہے لیکن افغانستان کے سب سے بڑے چینل طلوع نیوز کی نمائندہ زہرارحیمی کو برقعے کی ضرورت نہیں پڑتی وہ بلا خوف و خطراپنے فرائض انجام دے رہی ہے، طالبان رہنماؤں نے جا کرلیڈی ڈاکٹر وں سمیت طبی عملے سے بھی ملاقات کی ان سے درخواست کی کہ اپنا کام جاری رکھیں ،خواتین نرسوں اور ڈاکٹروں سے کہا کہ آپ ہماری بیٹیاں اور بہنیں ہو،بلاخوف و خطر اپنی ذمہ داریاں ادا کرو،ہم تمہارے محافظ ہیں میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں اور میرا فون مجھے اطلاع دے رہا ہے کہ طالبان رہنما عبدالحمید حماسی تاجروں سے ملاقات میں انہیںجان و مال کے تحفظ کی یقین دہانی کرار ہے ہیں اور تو اور کابل میں گذشتہ روز عاشور کی مجلس بھی منعقد ہوئی، عزاداروں نے ماتم کیا سینہ کوبی کی اور اس سارے عمل میں کوئی مداخلت نہیں ڈالی گئی ،کابل میں طالبان کی موجودگی میں نوجوانوں نے والی بال کھیلا لیکن کسی نے لہو لعب قرارنہیں دیا،طالبان کی آمد کے کے دوسرے دن ٹریفک پولیس اہلکار بھی وردی پہن کر سڑکوں پر آگئے اور جب طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کہتے ہیں۔ کہ ہم کرکٹ کی بحالی کو خوش آمدید کہیں گے تو سن کر خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔ ذبیح اللہ مجاہدکی پہلی نیوز کانفرس سے پیغام مل رہا ہے کہ وقت نے طالبان کو بہت کچھ سکھا دیا ہے ان کے مزاج میں نرمی آئی ہے۔ لہجے کی کرختگی عمل میں سختی ماضی کا حصہ ہوئی، اب وہ سب کوساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ کابل کا قبضہ چھڑانے سے بڑی خبر کابل کو چلانا ہے اور یہی تو بریکنگ نیوز ہے !