قوموں کے جذبات اور خواہشات اپنے ہوتے ہیں اور حکمرانوں کی ضرورتیں اور مجبوریاں الگ۔البتہ ایک بات مشترک یہ ضرور ہوتی ہے کہ ان کو ماضی کی بوئی ہوئی فصل کاٹنا پڑتی ہے۔آج امت مسلمہ نہتے ،معصوم فلسطینی بچوں اور بزرگوں کے خون سے ہولی کھیلنے پر دن رات اسرائیل کی تباہی کے لئے دعائیں اورمسلمان حکمران بمباری رکوانے کے لئے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل سے التجائیں کر رہے ہیں۔ اسلامی دنیا بالخصوص پاکستان کی حکومت،عوام،دانشور اور لکھاری بھی فلسطینیوں کے کرب کو محسوس کرتے ہوئے اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ ایک محترمہ نے اسرائیل کی توپوں اور بموں میں کیڑے پڑے کے کوسنے دیے تو ہمارے ایک فاضل دوست نے فلسطین کے حق میں اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قرار دادیں گنوانے کے بعد سوال اٹھایا کہ اگر ایک اور قرارداد منظور ہو بھی جاتی ہے تو شاہ محمود قریشی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے یہ پوچھیں گے حضور قراداد پاس ہو گئی اب اس کی کیا کریں ؟اسرائیل تو غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کو غزہ کی عمارتوں کی راکھ کے ڈھیر میں دفن کرتا جا رہا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ 57مسلمان ممالک کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں اور علماء کرام کی دعائیں بارگاہ الٰہی میں قبول ہو رہی ہیں نا ہی اقوام متحدہ میں وسائل سے مالا مال 57 مسلم ممالک کے حکمرانوں کی درخواستیں سنی جا رہی ہیں ۔ویسے تو اس کا ایک آسان اور سادہ جواب یہ قدرت کسی کے لئے بھی اپنی سنت نہیں بلا کرتی۔رہی بات اقوام متحدہ کی تو یہ دنیا ایسا جنگل ہے جہاں صرف طاقت کا قانون چلتا ہے۔ پھر بھی اگر 57مسلمان ممالک کے لاچاری اور بے بسی کو سمجھنا ہو تو اس کا جواب ماضی میں ہی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اٹھارویں اور انیسویں یورپ کی صدیاں تھیں برطانیہ فرانس سمیت یورپی ممالک میں پوری دنیا کو فتح کرنے کا مقابلہ ہو رہا تھا مگر یورپ اور ایشیا کے درمیان سلطنت عثمانیہ ان کے عزائم میں مسلسل رکاوٹ بنی ہوئی تھی ۔برطانیہ سلطنت عثمانیہ کو کمزور کرنے کے لئے روس سے حملے کروا کر اور عثمانی خلیفہ کی مدد کے بدلے سلطنت میں موجود پٹرول کے ذخائر تک رسائی چاہتا تھا۔ انیسویں صدی تک افریقہ اور یورپ کے کئی علاقے چھین لئے گئے تھے مگر خلافت مقامات مقدسہ اور امت کی ملکیت پٹرول کے ذخائر کی حفاظت کے لئے لڑ رہی تھی۔ سلطنت پر بیرونی حملوں کے علاوہ خلافت کواندر سے کمزور کرنے کی سازشیں عروج پر تھیں ان حالات میں یہودیوں کے سربراہ تھیوڈور ہرزل نے خلیفہ عبدالحمید دوئم کو سلطنت کے قرضوں کی ادائیگی کے علاوہ ایک جدید یونیورسٹی کے قیام کی پیش کش کی، بدلے میں وہ فلسطین کے علاقے میں یہودیوں کو آباد کرنا چاہتا تھا ۔سلطان نے ارض مقدس سے یہودیوں کو دور رکھنے فلسطین میں 30دن سے زائد قیام پر پابندی لگا رکھی تھی۔ سلطان نے ہرزل کی پیش کش تو ٹھکرا دی مگر برطانیہ کی سازشوں کا مقابلہ نہ کر سکا۔ برطانیہ نے لارنس آف عریبیہ کو مسلمانوں کے عقائد پر حملوں کی جو ذمہ داری سونپی تھی اس کے اثرات آنا شروع ہوئے عرب علاقوں میں برطانیہ نے آل سعود خاندان جو سلطنت عثمانیہ کے خلاف صدیوں سے لڑ رہا تھا اور خلافت عثمانیہ کی جانب سے مقرر کئے جانے والے والی مکہ مکرمہ شریف حسین بن علی سے خلافت کے خلاف جنگ کا 1891ء میں معاہدہ کیا اور عربوں کی حکومت دینے کا دونوں سے وعدہ کر لیا۔ آل سعود کو علاقہ کی حکمرانی اور شریف مکہ حسین بن علی کو امیر المومنین بنانے کا لالچ دے کر خلافت کے خلاف جنگ شروع کی گئی چنانچہ خلافت کے خاتمے کے لئے دونوں گروپوں نے بھر پور جنگ لڑی۔ عرب علاقے خلافت سے نکل گئے تو برطانیہ نے عرب آل سعود کو سونپ دیے ۔ شریف مکہ کے بیٹے کے سپرد اردن کا علاقہ دیا گیا اور شریف مکہ امیر المومنین کی حسرت لیے دنیا سے رخصت ہوا۔ امت مسلمہ کے اس دکھ کو اقبال نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا: یہی شیخ حرم ہے جو چرا کے بیچ کھاتا ہے گلیم بوذرؓ و دلق اویسؓ و چادر زہراؑ جب برطانیہ مسلمانوں کے پیٹرول کے ذخائر پر قبضہ مستحکم کرنے کی کوششوں میں مصروف تھا اسی دوران 1913ء میں امریکہ میں جان بی واٹسن نے دعویٰ تھا کہ مخصوص حالات پیدا کر کے انسان کے کردار کو اپنی مرضی میںڈھالا جا سکتا ہے ۔ اس کا دعویٰ تھا کہ اس کو ایک جیسے بچے دیے جائیں تو وہ ان کو ڈاکٹر، انجینئر، ڈاکو ،چور جو چاہے بنا سکتا ہے۔ واٹسن کا فلسفے اور برطانیہ کی پہلی جنگ عظیم میں عرب خطے میں بالادستی اور سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ایک ہی عہد کے قصے ہیں۔واٹسن کے فلسفے کا کرشمہ دنیا نے دوسری جنگ عظیم کے دوران چرچل کے عالمی قیادت روز ویلٹ کو پلیٹ میں رکھ کر دینے پر مجبور ہونے کی صورت میں دیکھا۔ عالمی قیادت سے برطانیہ کی دستبرداری کے بعد امریکہ نے برطانیہ کی طرح دنیا کے کمزورممالک پر قبضے کے بجائے ان کے عوام اور حکمرانوں کو غلام بنانے کے لئے واٹسن کی کرداریت کی نفسیات کو آزمایا۔ دنیا کی محکوم اقوام کو بظاہر آزادی کی نعمت عطا کی مگر ان کو ذہنی غلام رکھنے کے لئے بھی پورا بندوبست کر دیا گیا۔ امریکی حکمران کیونکہ جانتے تھے کہ ان کے استبداد اور عالمی حاکمیت میں مسلمان بڑی رکاوٹ ہوں گے اس لئے مسلمانوں پر گرفت مضبوط کرنے کے لئے ان کے عقائد پر غیر محسوس انداز میں چوٹ لگائی گئی مسلمانوں کی قوت کو زائل کرنے کے لئے ضروری تھا کہ اگرچہ وہ اپنے عقائد پرتو قائم رہیں مگر ان کے اند سے جہدعمل کوختم کر دیا جائے۔ لارنس آف عریبیہ شریف مکہ ایسے نام مسلم کرداروںکو استعمال کیا گیا تاکہ دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمان عقائد پر تو کاربند رہیںاور اپنی حالت بدلنے کی دعا بھی کریں مگر عملاََ بے عملی اور دنیا کی بدلتی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے قابل نہ رہیں۔ امریکہ چاہتا تھا اور چاہتا ہے کہ مسلمان جتنا چاہے راسخ العقیدہ ہو جائے مگر بے عمل رہے۔ اس بات کو شاعر مشرق نے بیسویں صدی میں ہی بھانپ لیا تھا اس لئے تو کہا: الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن ملا کی اذان اور مجاہد کی اذان اور امریکہ نے مسلم علما کو حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہنے کے لیے ڈٹ جانے کے بجائے منبر پر تقریروں اورچلّے کانٹے اور مسلمان حکمرانوں کو اقتدار کے لیے امریکہ کی طرف دیکھنے کا سبق ایسا پڑھایا ہے کہ آج مسلمان مذہبی طور پر آزاد ہے مگرذہنی طور پر غلام اور بے عمل۔ امریکہ نے مسلمان کے ہاتھ میں تسبیح تو رہنے دی مگر دوسرے ہاتھ سے تلوار چھین لی۔ آج ہم اسرائیل کی تباہی کے لئے گڑ گڑا رہے ہیں تو حکمران اقوام متحدہ کا طواف اور اسرئیل کی تباہی کے لیے کسی معجزے کا انتظارکر رہے ہیں،قرآن پاک نے سب کے لئے یہ آفا قی قانون طے کردیا ہے کہ خدا اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو خود اپنی حالت نہ بدلنا چاہتی ہو۔