آج بھی میرا نہیں اور میراکل بھی نہیں سچ تو یہ ہے کہ مرے ہاتھ میں اک پل بھی نہیں وہ کہ تسلیم تو کرتا ہے محبت میری میں ادھورا بھی نہیں اور مکمل بھی نہیں ہائے ہائے کیا کہہ دیاوزیر اعظم نے کہ الیکشن کمشن نے جمہوریت کو نقصان پہنچایا۔ ڈھونڈنے کی بات تو یہ ہے کہ کس نے فائدہ پہنچایا یا کس نے نقصان نہیں پہنچایا۔ بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے، اب تو گننے سے بھی گئے اور پھر تولتے ہیں تو پیسوں کے ساتھ یعنی اب تو حسب نسب بھی دولت ۔ حصول اقتدار کے لئے کسی بھی سطح پر جایا جا سکتا ہے آپ نظریاتی اور ایماندار لوگوں کی ٹیم کے ساتھ میچ نہیں کھیل سکتے کہ یہ کھیل ہی ایسا ہے الیکشن کمشن لوگوں کو ایماندار اور دیانتدار نہیں بنا سکتا۔ ایہہ گلاں تے پہلاں سوچن والیاں سن۔ ایماندار لوگ اسمبلی میں آتے ہی نہیں کہ وہ عام الیکشن لڑنے کی سکت ہی نہیں رکھتے، ویسے بھی یہ کام عزت داروں کا نہیں رہا۔ وہاں بھی تو لوگ قیمے والا نان یا بریانی کھا کر ووٹ دیتے ہیں اور امیدوار تو قربانی کا گوشت بھی اسی مقصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ وہی بات کہ اوپر محنت ہونے والی ہے یہ محنت مگر کون کرے کہ ہم تو غریبوں اور مزدوروں کی محنت بھی کھا جاتے ہیں جون ایلیا یاد آئے: حرف کن سے بنا جہاں خراب یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں کسی نے قوم پر محنت ہی نہیں کی ۔قائد اعظم کے بعد کچھ اچھی جھلکیاں ضرور ملیں مگر پھر ڈھلوان سے ہم لڑھکتے گئے۔ جمہوریت کو کسی نے پنپنے ہی نہیں دیا کبھی جمہوریت جورو بنی تو کبھی موقع ملنے پر اس نے آمریت کی شکل اختیار کر لی، سب سے اہم بات کہ ادارے ملک کا نظام چلاتے ہیں اور فرد کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ مگر کیا کیا جائے کہ خاندانی اور موروثی سیاستدانوں نے صرف اپنی آل اولاد اور برادری ہی کو قوم پر مسلط نہیں کیا بلکہ اپنے حاشیہ برداروں اور خوشامدیوں کے سپرد ادارے کر دیے۔ جو طاقتور تھے ان کی نظر اپنے حصے پر رہی کہ اس کی ترسیل نہیں رکنی چاہیے، ہائے ہائے بڑا المناک سفر ہے ہمارا: مت ہمیں چھیڑ کہ ہم رنج اٹھانے کے نہیں زخم وہ دل پہ لگے ہیں کہ دکھانے کے نہیں چلیے چھوڑیے میں کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہو گیا اور یہ رویہ فی زمانہ احمقانہ ہے یہاں کسی کو کسی کا درد نہیں۔بنیادی بات اتنی سی ہے کہ سیاستدان اصل میں گھوڑے ہیں اور عوام ان کا چارہ‘نظام ناکارہ ‘ غریب بے چارہ اور اہل فکر پارہ پارہ یعنی اتنا کھیل ہے۔سارا اصول قانون اور اخلاقیات صرف اسے یاد رہتی ہیں جو حکومت میں ہو یا حکومت جا رہی ہو۔ وگرنہ پی ڈی ایم میں سب کے سب دانشوران شہر ہیں۔ یہ تو ممکن نہیں کہ جناب چاہیں یوٹرن لیتے جائیں اور اس کو حکمت و دانائی سے تعبیر کرتے جائیں اور اپنے ماننے والوں سے صراط مستقیم پر چلنے کی توقع رکھیں۔دوسری بات یہ کہ بے پیندے لوٹے تو سب کے استعمال کی چیزیں ہیں ۔یہ گھو منیکے عادی ہو چکے ہیں آپ کو سوچنا چاہیے تھا کہ ان کی گھٹی میں کیا ہے۔ یعنی ان کو جنہیں الیکٹیبلز کہتے ہیں ’’گڑھتی‘‘ کس نے دی ہوئی ہے یہ پرندے ہیں ،کبھی اس چھتری پر اور کبھی اس چھتری پر اور پھر کچھ چھاتہ بردار ہیں جو ان سے بھی اوپر کا کھیل ہے۔ وہ جو الیکشن سے بھی ماورا ہیں۔ جو طوق کی صورت کہیں سے حکمرانوں کے گلے میں ڈال دیے جاتے ہیں کس قدر مضحکہ خیز اور شرمناک یہ منظر تھا کہ ایک بیمار شخص بریف کیس پکڑ کر وائسرائے کے طور پر آیا وزارت عظمیٰ کا لطف اٹھایا اور پھر اپنا بریف کیس اٹھا کر حکم حاکم پر واپس پلٹ گیا۔ باقی ڈرے ہوئے اور سہمے ہوئے کہ چور ہیں: خود مصنف نے اسے لا کے کہیں مار دیا ایک کردار جو کردار سے آگے نکلا ویسے یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ پہلے عمران خان نے کہا کہ وہ چوہوں کی طرح حکومت نہیں کریں گے اور اب اس میں خود فواد چودھری نے بھی سنگت کی اور یہی عندیہ دیا۔ میں سوچتا رہا کہ کیا اتفاق ہے کہ شیر اور چوہے کی کہانی ہماری ثقافت و ادب کا حصہ ہے۔ ظاہر شیر کے مقابلے میں شیر ہی ہونا چاہیے کہ شیر مردانہ وار مقابلہ کرتا ہے جب اس کو لگڑ بگڑ پڑ جاتے ہیں تو وہ بھاگتا نہیں بلکہ لڑتے لڑتے مر جاتا ہے ،چوہا تو لڑائی میں کہیں ہے ہی نہیں۔چوہا تو شیر کا ممنون احسان تھا اور اس نے برے وقت پر شیر پر پڑا جال کاٹ دیا۔ یہ لہجہ بہت غور طلب ہے اور سوال اٹھاتا ہے کہ اس بیان کا کیا مطلب کہ وہ چوہوں کی طرح حکومت نہیں کریں گے۔آپ یہ کس کو کہہ رہے ہیں؟صبا حمید نے بڑی خوبصورت بات کی کہ پاکستانی ڈرامہ تباہ نہیں ہوا تبدیلی آئی ہے۔ دیکھا جائے تو بس یہی کچھ ہے آپ کو ذرا سا جھٹکا دے دیا گیا ہے۔ وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا۔ اپوزیشن سر چڑھ کر بول رہی ہے کہ عدم اعتماد کب اور کہاں ہو گا!ہم بتائیں گے فی الحال تو وہ جشن منانے میں مصروف ہیں، ویسے ان کی نذر ایک شعر ضرور کروں گا: ایسے لگتا ہے کہ کمزور بہت ہے تو بھی جیت کر جشن منانے کی ضرورت کیا تھی سنجیدہ لوگ تو اس سارے غلیظ منظر نامے سے لاتعلق اور اداس نظر آتے ہیں کہ بنے گا کیا مگر کچھ لوگ محظوظ بھی ہو رہے ۔ اپنے نظریاتی اور محبت کرنے والوں سے منہ موڑنے کا نتیجہ۔ ناز مظفر آبادی کہتے ہیں: اس نے یو ٹرن لے لیا ورنہ دو قدم پر غریب خانہ تھا اب الیکشن کمشن کو برا کہنے سے کیا حاصل ۔ دوسری بات یہ کہ الیکشن کمیشن نے کون سا کوئی نیا کام کیا ،روایت بلکہ درخشندہ روایات کے مطابق الیکشن کروا دیا۔ م حسن لطیفی کا بڑا پرانا شعر یاد آ یا: اچھا کیا کہ مجھ کو فراموش کر دیا وابستہ میری یاد سے کچھ تلخیاں بھی تھیں یہ درست کہ سب ایکس پوز ہو گئے اور سب میں سے حکومت باہر نہیں کیا ہم اندھے تو نہیں کہ حکومت وقت میں بھی وہ سارے کام ہوئے جو رفتہ حکومتوں نے کیے۔ حکومت عوام کو خوش کرنے میں ناکام ر ہی ، عوام سخت ناراض ہیں۔ حکومتی پالیسیوں نے عوام کو اتنا پامال کیا کہ ایک بار پھر ڈاکوئوں اور چوروں کو نجات دھندا سمجھنے لگے۔ مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے ا۔وپر کا رویہ نیچے تک آ چکا ہے ۔صبح کے درس میں ہمارے دوست سعید ملک نے تمام لوگوں کو اعلیٰ نسل کی مٹھائی کھلائی اور یہ بات پھیلا دی کہ ہمارے ایک دوست خان صاحب نے جو کہ پی ٹی آئی کے ہیں نے ،یوسف رضا گیلانی کی فتح کی خوشی میں کھلائی ہے۔ محمد عباس مرزا کا ایک بہت پیارا شعر: صبح سویرے پھل گلاباں نوں چل تکیے اک بوٹے نے پوری غزل سنبھالی اے