تو گویا یہ بات طے ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہم ابھی تک جیت نہیں سکے۔ ہم تو ہم اس دنیا نے اس صدی کے آغاز میں جس کروفر سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان کیا تھا‘ اس کے بارے میں چار چھ برس پہلے یہ یہ اعتراف کر لیا ہے کہ ہم نے دہشت گردوں کو تو بہت مارا ہے۔ مگر دہشت گردی کو شکست نہیں دے سکے۔ پتا یہ چلا کہ دہشت گردی کا خاتمہ صرف دہشت گردوں کے خاتمے کے ساتھ مشروط نہیں ہے یا اس کا صرف یہ حتمی طریقہ نہیں ہے۔ کراچی میں چینی سفارت خانے پر حملے نے جہاں اس بات کو ہمیں یاد دلایا ہے کہ ہم ابھی تک دہشت گردی کے حصار میں ہیں‘ وہاں کئی اور سوال اٹھا دیئے ہیں ۔ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے کہ ایک طرف ہم کرتار پور کے بارڈر کو کھولنے کا خوشی خوشی اعلان کر رہے ہیں دوسری طرف یہ بتا رہے ہیں کہ چینی قونصل خانے پر حملے کا ماسٹر مائنڈ اس تنظیم کا سربراہ جس نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس وقت دلی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ بلوچستان لبریشن آرمی کے اس کمانڈر کے ہلاک ہونے کی خبر کچھ عرصہ پہلے آئی تھی۔ اب ہم نے تصدیق کی ہے کہ وہ دلی میں زندہ سلامت ہے۔ اس بات میں کبھی شک نہیں رہا کہ بلوچستان میں جو تحریکیں چل رہی ہیں اس میں یہ نام نہاد لبریشن آرمی کو بھارت سے مدد ملتی ہے۔ ایک اور بات کی بھی تصدیق ہوئی ہے کہ حملہ آوروں میں کم از کم ایک ایسا ہے جس کا نام ہمارے ہاں لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہے۔ ان لاپتہ افراد کے بارے میں عام تاثر یہ پھیلایا جاتا ہے کہ انہیں ہماری کسی ایجنسی نے اغوا کر کے یا تو عقوبت خانوں میں ڈال رکھا ہے یا مار ڈالا ہے۔ حالانکہ بعض باخبر افراد اس بات پر اصرار کرتے تھے کہ ایسا نہیں ہے۔ ان میں بہت سے افغانستان فرار ہو گئے ہیں اور وہاں پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ان میں بعض افغانستان سے بھی آگے کہیں نکل جاتے ہیں۔ یہ سب کام بھارت کی مدد سے ہوتا ہے۔ بعض ایسے بھی ہیں جنہیں قبائلی یا گروہی جھگڑوں میں مار ڈالا جاتا ہے۔ تاہم انہیں لاپتہ افراد کے خانے میں ڈال کر ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ بعض تو ایسے ہیں جو کہیں نہیں گئے۔ یہیں کہیں روپوش ہیں اور دہشت گردی کی مختلف وارداتوں میں حصہ لیتے رہتے ہیں۔ بہرحال حالیہ واقعات جہاں ہیں یہ بتاتے ہیں کہ ہمارے ملک میں دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوا۔ وہاں ان سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ دہشت گردی میں اچانک تیزی آ گئی ہے۔ ہمارا ایک پولیس افسر اسلام آباد سے اغوا کر کے غائب کر دیا گیا۔ ہم ٹومک ٹوئیاں مارتے رہے کہ ایک دن پتا چلا کہ اس کی نعش افغانستان میں ملی ہے۔ اس پر ستم یہ کہ افغانستان یہ میت حکومت پاکستان کے حوالے کرنے میں لیت و لعل سے کام لے رہا ہے خود افغانستان کی زمین دھماکوں سے گونج اٹھی۔ اچانک کراچی میں چین کے قونصل خانے پر حملے کی کوشش ہوئی‘ اور اسی دن خیبر پختونخواہ میں درجنوں لوگ آگ و خون میں نہا گئے۔ بلوچستان میں بھی راوی چین نہیں لکھتا ہے۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے۔ عموماً آج کل زور اس بات پر ہے کہ سی پیک دشمن کو ہضم نہیں ہو رہا۔ عمران خاں نے تو یہ تک کہا کہ چین میں ہمارا دورہ اتنا کامیاب رہا کہ ہمیں لگتا تھا کہ کچھ نہ کچھ ہو رہے گا۔ مگر یہ اندازہ نہ تھا کہ کب اور کہاں ہو گا۔ حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے اس بات کا ہوکا لگا ہوا ہے کہ وزیر اعظم کے تمام غیر ملکی دوروں کو کامیاب گنا جائے۔ کامیابی سے مراد یہ ہے کہ ہم لدے پَھدے آتے ہیں۔ ہم بتا نہیں سکتے مگر ہماری جھولی بھر دی گئی ہے۔ وہاں کے لوگ بچھ بچھ گئے ہیں اور گویا بار بار یہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں تو بس آپ ہی کا انتظار تھا۔ اب آ گئے ہو تو بولو کیا چاہیے۔ ہم بھی ان کو بتاتے تھے کہ ہم نے اگرچہ کشکول توڑنے کا اعلان کیا تھا۔ مگر آپ کے اصرار پر ہم نے اپنا یہ ارادہ بدل ڈالا ہے۔ ہمیں یہ ثابت کرنے کی جلدی ہے کہ ہمارے سب مسئلے طے ہو گئے ہیں اور اب ہم ترقی کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ اسد عمر ٹھیک کہتے ہیں کہ انہوں نے سی پیک کے بارے میں کھل کر کوئی بات نہیں کی۔ اگرچہ زیر لب وہ بھی بہت کچھ کہتے رہے ہیں‘ تاہم حکومت مسلسل یہ تاثر دیتی رہی ہے کہ سابق حکومت نے سی پیک کی آڑ میں بہت دھاندلیاں کی ہیں‘ اس لئے کیا حرج ہے کہ اس معاہدے کا ازسر نو جائزہ لیا جائے اور ہو سکے تو اسے کچھ عرصے کے لیے معطل کر دیا جائے۔ وہ تو خدا کا کرم ہوا کہ پاک فوج اس معاہدے کی ضامن ہے اور ہمارے پاس اور کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔ یہی چراغ جلے گا تو روشنی ہو گی۔ سو جس معاہدے کے ہم خود ہی دشمن بنے بیٹھے ہوں۔ اس کے بارے میں دشمنوں کی کیا شکایت کرنا۔ ہمیں اب سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارا اصل چیلنج کیا ہے اور اس چیلنج کا معاملہ ہوائوں میں تلواریں چلا کر نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی نہیں کہتا کہ کرپشن کے خلاف جنگ ختم کر دی جائے تاہم اس بات کو سمجھ لیا جائے کہ یہ جنگ ملک میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کر کے نہیں جیتی جا سکتی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی ہم نے یہ سمجھ لیا تھا کہ صرف طاقت کے استعمال سے اسے جیتا جا سکتا ہے۔ طاقت کا استعمال کرنے والوں نے اگرچہ خود کہہ دیا تھا کہ ہماری کارروائی کے بعد اصل کام تو حکومت کو کرنا ہے۔ جب سوات آپریشن ہوا تو ہم کتنے خوش تھے کہ دنیا بھر میں اس کامیاب آپریشن کی تعریف ہو رہی ہے اور اسے دنیا کی ملٹری اکیڈمیوں میں ایک کامیاب آپریشن کے طور پر بڑھایا جاتا ہے۔ ہمیں مگر یہ اندازہ بھی ہو جانا چاہیے تھا کہ یہ جو ہزاروں لوگ بے گھر ہوئے ہیں‘ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ہم نے پاکستان میں پہلی بار آئی ڈی پی کا لفظ سنا یعنی انٹرنلی ڈس پلیسٹڈ پرسنز۔ وہ لوگ جو اپنے ہی گھر میں بے گھر ہوئے اپنے ہی وطن میں دربدر ہوئے۔ یہ آپریشن جوں جوں قبائلی ایجنسیوں تک بڑھتا گیا توں توں نئے انسانی مسائل جنم لیتے رہے۔ آخر ایک وقت آیا جب ہمارے عسکری اداروں نے آگے بڑھنے میں تذبذب کا ثبوت دیا۔ ہم نے اسے بھی غلط سمجھا ان کارروائیوں پر نہ صرف بے پناہ وسائل خرچ ہوئے تھے بلکہ ان گنت انسانی مسائل بھی جنم لیتے تھے۔ کراچی میں اللہ کا شکر ہے کہ ساری آبادی کو بے گھر کرنے کی نوبت نہ آئی۔ بلوچستان کے معاملہ اور بھی نازک تھا۔ کوئی پتہ نہیں کہ کون آئین پاکستان کے تحت آبادیوں میں رہ رہا ہے اور کون پہاڑوں پر چڑھ کر علم بغاوت بلند کئے بیٹھا ہے۔ یاد رکھیے یہ جنگ اس وقت تک نہیں جیتی جا سکتی جب تک پوری قوم اکٹھی نہ ہو اس کے لیے حکومت کو اپنا رویہ بدلنا پڑے گا۔ میں نہیں جانتا‘ سچ مچ نہیں جانتا کہ حکومت بیک وقت دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف اعلان جنگ کر کے پوری قوم کو کیسے اکٹھا رکھ سکتی ہے۔ میرا مطلب ہے کہ جس طرح یہ کرپشن کے خلاف جنگ کر رہی ہے اس نے بقول حکومت کے ‘ قوم کو تقسیم کر دیا ہے۔ پھر یہ جنگ کیسے لڑی جائے کہ قوم تقسیم نہ ہو۔ یہی تو ایک اچھے سیاستدان اور مدبر کی شان ہوتی ہے۔یاد رکھیے کہ چین‘ ملائشیا یا سعودی عرب کا ماڈل ہمارا ماڈل نہیں ہو سکتا۔ میں ابھی طالب علم تھا جب میں نے چین کا مطالعہ شروع کیا اور اس پر پہلی بار اس وقت طویل مضامین لکھے جب میں غالباً سال دوم یا سال سوم کا طالب علم تھا۔ ان دنوں مائوزے تنگ کی نظموں کا ترجمہ بھی کیا جو آج تک اس کے بہترین ترجموں میں گنا جاتا ہے۔ مجھے چین کی تاریخ سے بڑی رغبت رہی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ان دنوں میں نے فرانسیسی خاتون وجودی مفکر سموں دی بوار کا ایک فقرہ نقل کیا تھا کہ چینی تاریخ کا مقصد یا مطلب تاریخ کو صرف اس کے مدار پر رکھنا ہے۔ یہ چین کی پرانی تاریخ کی بات ہے۔1912ء میں چین میں جو انقلاب آیا وہ سن یات سن‘ مائوزے تنگ‘ ڈن ژائوپنگ سے ہوتا ہوا آج ہم تک پہنچا ہے۔ اس کا پس منظر مختلف ہے۔ اتنا دور بھی نہ جائیں‘ صرف آج کا نقشہ دیکھیں تو یہ کمیونزم سے کیپٹلزم کی طرف آیا ہے۔ ہمارا ماڈل مختلف ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب سے بہت مختلف ہے۔ یہ بھی یاد رکھئے ملائشیا سے بھی مختلف ہے۔ وہاں ایک لمبا عرصہ یک جہتی حکومت قسم کا نظام رہا۔ کل کا انوار ابراہیم جو مہاتیر محمد کا نائب تھا۔ جب معتوب ہوا تو اس پر کیا کیا الزام لگے۔ ایسے الزام جن کا تذکرہ بھی گراں گزرتا ہے۔ آج وہی انوار ابراہیم مہاتیر کا ساتھی ہے اور جس نجیب رزاق کو اپنی جانشینی سونپی تھی آج اس پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ ہمارے لئے ملائشیا کرپشن کے خلاف ماڈل نہیں‘ ترقی کے لئے ماڈل ہو سکتا ہے۔ ہمیں مگر اپنی پڑی ہوئی ہے۔ جب تک ہم یہ سوچ نہیں لیتے کہ اس دہشت گردی کے خلاف قوم کو کیسے اکٹھا کرنا ہے۔ اس وقت تک کامیابی کی امید چھوڑ دیجئے۔ رہی کرپشن تو اس کا خاتمہ ہونا چاہیے‘ مگر عقل سے‘ عقل استعمال نہ کی جائے تو دہشت گردی ختم نہیں ہوتی‘ کرپشن خاک ختم ہو گی۔