سوچا تھا اب سیاست پہ کبھی کچھ نہ لکھیں گے۔اس لئے کہ قوم سیاست کے دلدل میں پچھتّر برسوں سے اتری ہوئی ہے۔جتنا نکلے کی کوشش کرتی ہے اتنا ہی اندر دھنستی جاتی ہے۔اخبار ہو‘ ٹی وی ہو‘ نجی محفل ہو‘ تقریبات ہوں۔ ہر جگہ سیاست ہی سیاست ہے۔اس سے نجات کی کوئی صورت ممکن ہی نہیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سیاست و حکومت کے معاملات ایک طبقہ سنبھالتا اور عوام اپنی زندگی سکون و اطمینان سے گزارتے۔سیاست کے معاملات کو اہل سیاست دیکھتے‘ وہی فیصلے کرتے۔ملک میں زیادہ سے زیادہ دو تین پارٹیاں ہوتیں۔قوم ان ہی میں سے کارکردگی کی بنیاد پر کسی ایک کو الیکشن میں حکومت کے لئے چن لیا کرتی ۔تاحال صورت ایسی ہے کہ ہر شخص سیاست میں گردن تک ڈوبا ہوا ہے۔جسے سیاست کی الف ب کا نہیں پتہ وہ بھی سیاست پر اس طرح تبصرے کرتا ہے جیسے وہ اس مضمون کا ماہر ہو۔ان مبصروں کا نہ ملکی تاریخ کا علم ہے اور نہ یہ معلوم ہے کہ کون سی پارٹی کب بنی،اس کا منشور اور سیاست میں اس کا کردار کیا رہا ہے۔کوئی ان سے پوچھے کہ بھائی کیا آپ کو ریاست اور حکومت کا فرق معلوم ہے؟ آئین اور قانون کس چڑیا کا نام ہے‘ کیا آپ جانتے ہیں؟ کہ ہمارے ملک میں آئین اتنی تاخیر سے کیوں بنا اور بننے کے بعد اس میں اب تک کتنی ترامیم ہو چکی ہیں اور کیوں ہوئی ہیں۔ تو پھر کوئی انہیں سمجھائے کہ پیارے بھائی ! جب تمہیں سیاست کی اے بی سی ڈی نہیں آتی تو کیوں اس کھکھڑ میں پڑتے ہو۔کاہے کے لئے اس دلدل میں اترتے ہو۔اپنے کام سے کام رکھو اور سیاست کو سیاست دانوں پر چھوڑ دو۔یہ مشورہ کوئی نہیں مانے گا کیوں کہ حکومت اور سیاست سے ان کی روٹی روزی بندھی ہے۔ حکومت کی کارکردگی اچھی تو عوام کی زندگیاں پر سکون ہو جاتی ہیں اور کارکردگی صفر ہو تو عوام مضطرب اور پریشان رہتے ہیں اس لئے ہر شخص سیاسی امور پہ دخل دینا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ مہنگائی‘ امن و امان کا مسئلہ‘ عدل و انصاف کی فراہمی‘ روزگار کی دستیابی غرض ہر چیز ‘ ہر معاملہ جا کر حکومت سے جڑ جاتا ہے۔سیاست اور حکومت کی اتھل پتھل قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی مجبور کرتی ہے کہ وہ سیاست میں دخل انداز ہوں۔جب صورت ایسی ہو تو پھر شکایت کس سے کریں۔کیا سیاست دانوں سے؟ کیا سیاسی جماعتوں سے؟ کیا اسٹیبلشمنٹ سے؟ کون ہے جو اس شکایت کو دور کر سکتا ہے؟ پچھتّر برسوں میں ہم نے ہر طرح کے تجربے سیاست و حکومت کے میدان میں کر لئے لیکن نتیجہ ڈھاک کے تی وہی تین پات۔پارلیمانی جمہوریت‘ صدارتی طرز حکومت‘ بنیادی جمہوریت‘ ناظمین کا نظام‘ مجلس شوریٰ کیا نہیں ہوا لیکن منزل کھوٹی ہی رہی۔اب بھی جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے اس کے بارے میں آپ کا خیال کیا ہے؟ کیا اس سے ہمارے سیاسی مسئلے حل ہو جائیں گے یا ہم ایک بڑے بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں۔تصادم اور ٹکرائو کی فضا ہر طرف ہے۔انصاف اور عدل ایک تماشا بن چکے ہیں۔ کہا جا رہا ہے عوام باشعور ہو چکے ہیں‘ انہیں اب مزید بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔لیکن سوال یہ ہے کہ مقتدر حلقے عوام کو اہمیت دینے پر تیار ہی کب ہیں؟ عوام کیا چاہتے ہیں اس کی پروا ہی کس کو ہے۔ ملک کو ایک تماشا بنا دیا گیا ہے اور خرد کا نام جنوں اور جنوں کا نام خرد رکھ دیا گیا ہے۔ہم اور آپ تو محض تماشائی ہیں اس لئے نہیں لگتا کہ جلد صورت احوال میں بہتری آئے گی۔سیاست کے بازار میں ایک ہاہا کار ہے‘آدمی کسی سیدھے راستے کو اختیار کرے۔فتنے بھی کوئی دو ایک تو ہیں نہیں۔ہر طرف فتنے ہی فتنے ہیں۔سیاست و حکومت پر ہی کیا موقوف،زندگی کا ہر شعبہ فتنوں کی لپیٹ میں ہے۔ہر روز نت نئے سوالات ہیں‘ نت نئے بحران جو منہ کھولے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں کن کن سوالوں سے الجھا جائے اور کس کس بحران کا سامنا کیا جائے۔زندگی پریشان ہو کر رہی گئی ہے۔نیکی‘نیکی نہیں رہی۔برائی ‘ برائی نہیں رہی۔اچھے اقدامات بھی بری نیت کے ساتھ کئے جاتے ہیں تو یہ اقدامات بھی بابرکت نہیں رہتے۔بُرے ہی ہو جاتے ہیں۔وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور صحیح فیصلے کرنے کا وقت ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے اگر اب بھی درست سمت میں قدم نہ اٹھایا گیا تو زمانہ قیامت کی چال چل جائے گا اور ہم مُنہ دیکھتے رہ جائیں گے۔ ہم کسی کے طرفدار نہیں‘ زندگی بھر نہ کسی کے حق میں نعرے لگائے اور نہ کسی کے خلاف نعرہ زن ہوئے۔ہاں مگر یہ ضرور ہے کہ ہر ظلم و استحصال کے خلاف اندر ایک غصہ اور اشتعال ضرور پیدا ہو جاتا ہے ہر جھوٹ اور فریب کے خلاف یہ خیال ضرور ذہن میں آتا ہے کہ اس کا پردہ چاک کر دیا جائے۔ اجتماعی بہتری ‘ اجتماعی اصلاح کی ضرورت کے ہم بھی قائل ہیں لیکن یہ تو اسی وقت ممکن ہے جب صدق دل سے خود کو درست کرنے کی فکر کریں ۔یہ کہنا تو بہت آسان ہے کہ فرد کے بدلنے سے معاشرہ بدلتا ہے۔لیکن فرد کو کون بدلے۔ہر شخص یہی چاہتا ہے کہ دوسرا بدلے تو میں خود کو بدلوں۔یا یہ کہ ایک میرے بدلنے سے کیا ہو جائے گا۔ تو یہ انڈے اور مرغی والی بحث ہے اصلاع کی ابتدا کہاں سے ہو؟ اصل بات تو یہ ہے کہ سب کو درست ہونے کی ضرورت ہے اور سب کا مطلب ہے پورے معاشرے میں ایک شمع روشن کر دی جائے تو ساری شمعیں روشن ہو سکتی ہیں۔یہ سمجھنے کی بات ہے اور اس پرعمل کرنے کی ضرورت ہے۔عمل یعنی اچھا عمل خود ایک عبادت ہے اور اعمال اچھے نہ ہوں تو یہی اعمات ہمارے حکمران بن جاتے ہیں، جس دن اعمال اچھے ہو گئے حکمراں بھی اچھے ہو جائیں گے۔جو کچھ ہو رہا ہے کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے۔پیمانۂ صبر لبریز ہوتا ہے تو ہوتا رہے۔کرنے والے کو اس سے کیا غرض کہ سہنے اور برداشت کرنے والے کیا سوچتے اور کیا محسوس کرتے ہیں۔ ابتری کے بطن سے بہتری نکالنے کی قدرت تو اسے ہی حاصل ہے اس لئے مایوس بیٹھ جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر عمل نہیں کر سکتے‘ اپنے آپ کو بدل نہیں سکتے تو دعا کا سہارا لو۔دعا رائیگاں نہیں جاتی۔جن حکمرانوں کو برا بھلا کہنے میں اپنا وقت ضائع کرتے ہو۔ان کی اصلاح اور ہدایت کے لئے دعا کرو کہ نفرت سے حالات نہیں بدلتے حالات تو محبت اور خیر خواہی کے جذبات ہی سے تغیر پذیر ہوتے ہیں۔سب کچھ اسی کے اختیار میں ہے۔ہمارے پاس تو ایک بے بسی اور بے کسی کے سوا کچھ نہیں ہے۔تو دعا کوئی بھی ہو رد نہیں کی جاتی۔دعا میں شدت اور حدت ہو اور نیک دلی سے کی جائے تو اپنے نتائج ضرور پیدا کرتی ہے ۔پس اتنا بہت ہے کہ ہم اپنے اندر کو پراگندہ ہونے سے بچائیں اور صاف دلی اور نیک دلی کے ساتھ ان کے لئے دعا کریں جن کی طرف سے ہم مایوس ہیں۔