میں نے گزشتہ کالم میں بابا فرید کا حوالہ دیا تھا جنہوں نے کہا تھا کہ دُکھ سجھائے جگ۔ ان خطوں میں دو بڑے دکھ ہیں۔ وطن سے دوری کا دکھ اور تنہائی کا دکھ۔ آخر یہ حب الوطنی کیا ہے۔ ایک بیماری ہے۔ ایک روگ ہے کیا ہے۔ کیا وطن کے خدا کی پرستش جائز ہے یا انسان کو اس سے ماورا ہو کر ایک کائناتی سچ کا حصہ بن جانا چاہیے۔ انگلستان میں ایتھوپیا کا رہنے والا ایک افریقی میرا دوست تھا اور وہ دن رات اپنے کسی اجاڑ سے کچے گائوں کی یاد میں آہیں بھرتا رہتا تھا جہاں کوئی ذریعہ روزگار نہ تھا۔ زمین بنجر تھی اور بچھو اور سانپ کثرت سے پائے جاتے تھے۔ کہتا کہ میں اپنے گائوں میں اڑتی دھول کو ترستا ہوں۔ لندن کی شفاف فضائوں میں مجھے سانس نہیں آتا۔ بالآخر واپس چلا گیا۔ مانچسٹر کے ایک وکٹورین مکان میں ساہیوال کے کسی چک کا باسی حنیف‘ پڑھا لکھا تھا۔ بیکاری سے تنگ آ کر انگلستان کی راہ لی۔ وہاں خوشحال ہو گیا لیکن اکثر گرمیوں کی چاندنی راتوں میں کوٹھے کی چھت پر لیٹے کھلے آسمان پر دمکتے تاروں کا ذکر کرتا اور رونے لگتا۔ امریکہ اور یورپ میں ایک مدت سے مقیم بوڑھے خواہش کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد ہمیں ہمارے آبائی گائوں یا شہر میں دفن کیا جائے۔ چچا فیروز تارڑ نے وطن چھوڑتے ہوئے اپنی اولاد سے وعدہ لیا کہ اگر میں امریکہ میں مر گیا تو مجھے میرے باپ دادا کے گائوں مانو چک میں دفن کیا جائے۔ بلکہ وصیت میں لکھا کہ اگر بچے مجھے یہاں دفن کر دیں تو ان کو جائیداد میں سے کچھ نہ دیا جائے۔ اور تو اور لوگ مقدس سرزمین پر آخری سانس لیتے ہوئے وصیت کر جاتے ہیں کہ مجھے وطن لے جانا۔ کیا حب الوطنی ایک روگ ہے؟خشونت سنگھ اور کلدیپ نائر نے بہتوں کے بول سہے مگر ہمیشہ کہا کہ بے شک ہندوستان ہمارا ملک ہے لیکن پاکستان ہمارا وطن ہے۔ گلزار بوڑھے ہو گئے لیکن دینہ کی یاد میں دکھی ہوتے رہتے ہیں۔ سامنے کے گولف کورس کے کناروں پر ایک سکھ میاں بیوی رہتے ہیں جن میں بلال سکھ انکل کہتا ہے۔ ایک روز سیر کرتے ہمارے ہاں آ گئے نہایت گورے چٹے۔ اس عمر میں بھی ہینڈسم سکھ انکل نے بہت اصرار کیا کہ میرے گھر آئیے۔ میں بھول گیا تو یاد دہانی کے لئے پھرچلے آئے۔ من موہن سنگھ سوڈھی نے چوبیس برس کی عمر میں پنجاب چھوڑا۔ انگلستان میں بہت کاروبار کئے۔ جائیداد بنائی پھر امریکہ چلے آئے۔ صبح اور شام تنہا سیر کرتے ہیں اور کبھی کبھار اپنی سلور رولز رائس پر یونہی گھومتے دکھائی دے جاتے ہیں۔ سردار صاحب نے نہایت اشتیاق سے اپنے گھر میں سجے پاکستان کے اونک پتھر سے تراشیدہ ستون‘ میزیں اور مجسمے دکھائے۔ ہمیں کچھ اشتیاق تو نہ تھا لیکن ان کا دل رکھنے کی خاطر سب کچھ بظاہر دلچسپی سے دیکھا۔ چندی گڑھ میں ان کے اس گھر کی ویڈیو بھی جس میں فلم ’’مبارکاں‘‘ کی شوٹنگ ہوئی تھی جس میں انیل کپور اور جتندر بھنگڑے ڈالتے پھرے تھے۔ ان کی شادی کی تصویریں ان کی اہلیہ گریٹا گاربو کی مانند خوش نظر دکھائی دیتی تھیں۔ اب بھی خوبصورت دکھائی دیتی تھیں۔ ہمہ وقت ہماری تواضع میں بھاگتی پھریں۔ اگرچہ ان کے تینوں بیٹے آرلینڈو میں مقیم تھے لیکن پھر بھی اس شاہانہ گھر میں تنہائی کی سوگوار مہک تھی۔ سردار سوڈھی کہنے لگے’’میری پیدائش کیبمل پور کی ہے۔ جسے اب اٹک کہا جاتا ہے‘‘ اور پھر انہوں نے نہایت فخر سے راولپنڈی سے اٹک تک کے تمام ریلوے سٹیشنوں کے نام سنائے۔ ان کے والد انہیں ہمیشہ اردو میں خط لکھتے تھے۔ وہ خود بھی تھوڑی بہت اردو پڑھ لیتے ہیں‘ کہنے لگے آپ نے اگر پنجاب کے بارے میں کچھ لکھا ہے تو پڑھنا چاہوں گے۔ میں نے ’’پیار کا پہلا پنجاب‘‘ ان کی خدمت میں پیش کر دی اور وہ ان دنوں اس میں ننکانہ صاحب کا باب نہایت عقیدت سے پڑھ رہے ہیں۔ تارڑ صاحب‘ میں اتنی مدت انگلینڈ میں رہا۔ سو سے زیادہ گھروں کا مالک تھا لیکن میں نے کبھی برطانوی شہریت حاصل نہ کی کہ مجھے انڈین ہونے پر فخر تھا۔ پھر اندرا گاندھی نے ظلم کمایا اور ہمارے دربار صاحب پر حملہ کر کے اسے مسمار کر دیا۔ بعدازاں اس کے قتل کے بعد ہزاروں سکھوں کو جس بیدردی سے ہلاک کیا گیا تب مجھے انڈین کہلانے پر شرم آنے لگی۔ میں نے سوچامیں انڈین نہیں صرف ایک پنجابی سکھ ہوں اور میں نے ہندوستانی شہریت ترک کر کے برطانوی پاسپورٹ حاصل کر لیا۔’’سوڈھی صاحب ہندو مذہب پر شدید تنقید کرتے رہے کہ دیکھئے یہ کیسے جاہل لوگ ہیں۔ کہیں سے مٹی کھود کر لاتے ہیں۔ اسے گوندھ کر عجیب شکلوں کے بندر اور ہاتھی بنا کر کہتے ہیں کہ یہ خدا ہیں۔ ان کی دیویاں دیکھئے یہ لمبی لمبی خوفناک خون آلود زبانوں والی۔ شکر ہے میں ہندو نہیں ہوں ورنہ میں تو ان مٹی کے خدائوں کو متھا نہ ٹیکتا۔ تمامتر سہولتوں اور امارت کے باوجود جب کہ ان کے بچے سب کے سب یہاں امریکہ اور کینیڈا میں مقیم ہیں۔ سردار من موہن سنگھ پھر بھی چندی گڑھ لوٹ جانا چاہتے ہیں بلکہ ایک مرتبہ جب بیوی نہ مانی تو اسے چھوڑ کر پنجاب چلے گئے۔ بڑی مشکل سے واپس آئے۔ کہتے ہیں ان گوروں کے ساتھ سواد نہیں آتا۔ سواد اپنے لوگوں میں ہی آتا ہے۔ میں یہی سوچتا رہا کہ سردار صاحب کو یہاں کسی شے کی کمی نہیں۔ محل نما مکان میں رہتے ہیں۔ سلور رولز رائس پر گھومتے پھرتے ہیں تو پھر کیوں اپنی مٹی کو ترستے ہیں۔ کیا اس بے بسی کو حب الوطنی کہتے ہیں۔ اس کا ضمیر کہاں سے اٹھتا ہے؟ زبان سے؟ ثقافت سے یا مذہب سے؟ آرلینڈو میں جتنے بھی پاکستانی آباد ہیں ان کی واحد پہچان پاکستان ہے۔ ہم سے کہیں بڑھ کر پاکستان سے دیوانگی کی حد تک عشق کرتے ہیں‘ مذہب سے بہت منسلک ہیں۔ رات کے کھانے کی دعوت آئے تو سمجھ لیجیے کہ نماز مغرب ادا کرنے کے بعد کھانے کی میز سجے گی۔ میری بیٹی کا کہنا ہے کہ جن دنوں ہندوستان نے اپنے تئیں پاکستان پر ایک ’’سرجیکل سٹرائیک‘‘ کر کے سینکڑوں لوگوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تو یہاں کے پاکستانی گہری رنجیدگی میں چلے گئے اور جب خبر آئی کہ پاکستان نے ہندوستان کے دو طیارے نہ صرف مار گرائے ہیں بلکہ ایک بلدار مونچھوں والے انڈین پائلٹ کو گرفتار کر کے اس کی تواضع چائے سے کر رہے ہیں تو اس روز پاکستانی سر اٹھا چلے۔ اپنے انڈین کولیگز سے مذاق کیا کہ ہم آپ سے بہت ڈرتے ہیں کہ کہیں آپ سرجیکل سٹرائیک ہی نہ کر دیں۔ ایک روز ڈاکٹر سعدیہ ذکر کر رہی تھی کہ میں اپنے بچوں کو لے کر جب ورلڈ کپ کے میچز دیکھنے کے لئے انگلینڈ گئی تو بہت لطف آیا۔ میں نے پوچھا کہ تم کرکٹ کی اتنی دیوانی ہو کہ ہسپتال سے چھٹی کر کے ایک زرکثیرخرچ کر کے انگلینڈ چلی گئیں تو وہ کہنے لگی ‘نہیں انکل کرکٹ سے تو مجھے کچھ خاص دلچسپی نہیں‘ میں تو بچوں کو پاکستان سے ملانے کے لئے لے گئی تھی۔ ان میچوں میں پاکستانیوں کے ہجوم ہاتھوں میں قومی پرچم لئے جب ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے تھے‘ یا جب پاکستان نے انگلینڈ کو شکست دی تھی تو ان مناظر کا میرے بچوں پر گہرا اثر ہوا اور پھر وہ خود جذباتی ہو کر نعرے لگانے لگے۔ میں ان کا تعارف اس جذبے سے کروانے کی خاطر انہیں انگلینڈ لے گئی تھی۔ورنہ مجھے تو کرکٹ سے خاص لگائو نہیں ہے۔ ڈاکٹر سعدیہ کی پاکستان دیوانگی کا یہ حال ہے کہ جب وہ ہسپتال میں میری خبر گیری کے لئے آئی تو سب سے پہلے اس نے ہسپتال کا مہیا کردہ گائون وغیرہ جو میں نے پہن رکھا تھا اسے چیک کیا۔ اس پر میڈ ان انڈیا لکھا ہوا تھا اس نے ناک چڑھا کر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ لیکن جب اس نے میرا کمبل چیک کیا تو اس پر ’’میڈ ان پاکستان‘‘ لکھا دیکھ کر اس کا موڈ ٹھیک ہو گیا۔ کہ یہ ہوئی ناں بات۔ آرلینڈو میں روزانہ تقریباً بلاناغہ پچھلے پہرچاربجے کے قریب بارش آ جاتی ہے اور یہی بارش اس کی بے پناہ ہریاول کا سبب ہے۔ یعنی یہ جو اُگ رہا ہے درو دیوار پر سبزہ‘ یہ باقاعدہ بارشوں کا کمال ہے۔ آج بھی بارش برس رہی تھی تو میمونہ کہنے لگی۔ پاکستان میں بھی تو ان دنوں بارشیں ہو رہی ہیں اور مجھے پاکستان یاد آ رہا ہے۔ میں نے کہا چھوڑو ہرے آرلینڈو کی بارشیں‘ صاف ستھری‘ جل تھل ہوا اور پھر لمحوں میں گمان بھی نہیں ہوتا کہ یہاں بارش اتری تھی۔ بارشیں تو ہماری ہوتی ہیں۔ موٹر سائیکلیں ڈوب رہی ہیں کاروں کے انجنوں میں پانی جا رہا ہے اور انہیں دھکے لگائے جا رہے اور گٹر ابل رہے ہیں اور ہر جانب گٹروں کے گندے پانیوں کی بو پھیل رہی ہے۔ مزا آیا ناں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گٹروں کی بدبو بارشوں میں یاد کرنا بھی کیا حب الوطنی میں شمار ہو گی؟