اسلام آباد(خبر نگار،مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ منتخب رکن پارلیمنٹ کے خلاف آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہلیت کے ڈیکلریشن کا اختیار عدالت عظمی کو حاصل ہے ۔جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں جسٹس اعجا زالاحسن اور جسٹس قاضی محمد امین احمد پر مشتمل 3 رکنی بنچ نے پی ایس 11لاڑکانہ سے سندھ اسمبلی کے رکن معظم علی خان کو نااہل کرنے کے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ گو کہ سپریم کورٹ ایک آئینی عدالت ہے لیکن اسے کورٹ آف لا کی حیثیت بھی حاصل ہے اسلئے کسی منتخب رکن کو بددیانتی اور غلط بیانی کرنے پر سپریم کورٹ سے 62ون ایف کے تحت تاحیات نااہل کیا جاسکتا ہے ۔ تفصیلی فیصلہ جسٹس اعجاز الاحسن نے تحریر کیا۔ عدالت اپنے فیصلے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلیت کے فیصلے کی مثال بھی دی اور کہاکہ وہ تنخواہ جو نہ نکالی گئی ہو وہ بھی اثاثہ ہوتا ہے اورکیپیٹل ایف زی ای سے حاصل ہونیوالی تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر نواز شریف کو نااہل کیا گیا۔فیصلے میں شیخ رشید کواہل قرار دینے کے فیصلے کا بھی ذکر کیا گیا اور کہا گیا کہ شکیل اعوان کی اپیل اسلئے مسترد ہوئی کیونکہ غلطی جمع و تفریق میں ہوئی تھی اور شیخ رشید نے غلط بیانی نہیں کی تھی۔عدالت نے قرار دیا کہ خاندان میں تقسیم کے بعد زمین 2014میں معظم علی خان کے نام منتقل ہوگئی تھی اس لئے ان کایہ موقف تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ زمین انکے والد کے قبضے میں تھی اور انہیں اس انتقال کا کوئی علم نہیں تھا۔فیصلے میں کہا گیا کہ غلط بیانی پر نااہلی تاحیات ہے ۔سپریم کورٹ نے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں تفصیلات چھپانے نے سسٹم اور لوگوں کو کرپٹ بنایا۔ کاغذات نامزدگی میں امیدواروں کو کوئی بھی رعایت تباہ کن ہو گی، امیدواروں کو پہلے ہی بہت رعایت مل چکی ہے جسکے اچھے نتائج نہیں نکلے ، انتہاء کو چھوتی صورتحال کیلئے انتہائی اقدامات کرنا ہوں گے ۔ عوامی عہدیدارکا جان بوجھ کراثاثے چھپانا اورغلط بیان حلفی دینا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔