باکو ہوائوں کا شہر ہے ۔ اسے باکو کہتے بھی اسی وجہ سے ہیں ۔ وہیں سے سنا کہ یہ اصل میں ’’ بادِ کُو ‘‘ تھا ۔ ’’ باد ‘‘ یعنی ہوا اور ’’کُو‘‘ یعنی شہر ۔ یہ بعد میں بگڑتے ہوئے باکو ہو گیا ۔ باکو میں چلنے والی یہ مست ہوا آپ کو شہر بھر میں ہر جگہ برابر محسوس ہوتی ہے ۔ دن کے چوبیس گھنٹوں میں کوئی لمحہ ایسا نہیں کہ آپ اپنے ہوٹل یا گھر سے باہر نکلیں اور یہ ہوا آپ کا استقبال نہ کرے ۔اتنی مسلسل چلنے والی اور ایسی لطیف اور نفیس ہوا کہیں اور محسوس نہیں کی۔ ۔ تھوڑا غور کریں تو لگتا ہے کہ یہ ہوا یہاں کا ایک زندہ کردار ہے ۔ یہ یہاں آنے والے سیاحوں کو خوش آمدید کہتی ہے ۔ اُن کے ساتھ کھیلتی ہے ۔ اُن سے باتیں کرتی ہے ۔ دوسری طرف سیاح بھی اس ہوا کو مسلسل اپنے ارد گرد محسوس کرتے رہتے ہیں ۔ یہاں کوئی اس کی ’ اٹھکیلیوں ‘ سے تنگ ہوکے اپنی ’ بیزاری کی شکایت بھی نہیں کرتا ۔ یہ ہوا جیسے ہر کسی میں زندگی کی ایک نئی لہرسی دوڑائے رکھتی ہے ۔ یہ بدن میں ایسی تازگی بھرتی ہے کہ گھنٹوں یہاں چلتے رہو تھکاوٹ نہیں ہوتی ۔ یہ آپ کے بالوں سے کھیلتی ہے، گالوں کو چومتی ہے اور کسی دیرینہ بچھڑے دوست کی طرح بار بار گلے ملتی ہے ۔اس میں اپنائیت بھرا ایسا لمس ہے کہ بندے پہ سحر سا طاری ہو جاتاہے ۔یہ مسحور کُن ہوا Caspian Sea کی خوشگوار تراوٹ لیے جب آپ کے چہرے کو لگاوٹ سے مَس کرتی ہے تو بدن میں عجیب سرشاری پیدا کرتی ہے ۔ باکو میں لوگ مجموعی طور پہ زندگی سے لطف اندوز ہونے آتے ہیں لیکن سچی بات ہے کہ اگر صرف اسی ہوا سے دل بہلانے کے لیے باکو کا سفر کیا جائے تو بھی یہ سودا بُرا نہیں ۔مجھے وہاں نیپال سے آئے ایک پروفیسر ٹائپ صاحب ملے ۔ یہ موصوف بڑے سادہ سے ، بھلے مانس اور تھوڑے دانشور سے دکھائی دیتے تھے ۔اِن سے بات ہوئی تو کہنے لگا کہ یہ پچھلے کئی سالوں سے باکو میں صرف اس مدہوش کُن ہوا کی خاطر آتے ہیں۔ یہ ہفتہ دس دن یہاں رہتے ہیں اور باکو کی گلیوں میں اُٹھتے بیٹھتے ، پھرتے پھراتے یونہی ’ ہوا خوری ‘ کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح یہ ادھر کے ایک دو چکر لگا کے اس پاگل کر دینے والی ہوا کا اتنا زخیرہ جمع کر لیتے ہیں جو انہیں سال بھر کام دیتا رہتا ہے ۔ نیپالی پروفیسر جب یہ بتا رہے تھے کہ یہ صرف اس ہوا کی خاطر یہاں آتے ہیں تو یہ ’ صرف ‘‘ پر باقاعدہ زور دے رہے تھے ۔میں ان کے نفیس ذوق کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ان کا صرف ہوا خوری کی طلب میں یہاں آنا اور اسی پہ اصرار کرنا تھوڑا حیران کُن لگا۔ یار لوگوںکے نزدیک باکو میں دل لبھانے کے کئی اور سامان بھی موجود ہیں جن سے صرفِ نظر سے ذ وقِ جمال پہ حرف آتا ہے ۔لیکن ہر کسی کے نصیب میں یہ ذوق بھی کہاں۔ استاد غالب ؔ یاد آتے ہیں ’’ فرصتِ کاروبار ِشوق کسے ۔۔ذوقِ نظارہ جمال کہاں ۔۔ان دانشور صاحب نے ہی بتایا کہ وہ کئی ممالک میں پھرتے رہے ہیں لیکن جو مزہ انہیں نظامی سٹریٹ پہ بیٹھے کافی کے سِپ لیتے ہوئے اس ہوا سے لُطف اندوز ہونے میں آیا ہے وہ کہیں اور نہیں ملا ۔ یہاں مجھے ان سے مکمل اتفاق ہے ۔ میں سوچتا رہا کہ آذربائیجان کے قدیم باکمال شاعر نظامی گنجوی کی بے مثال رومانوی شاعری میں بھی اس لاجواب ہوا کا کتنا عمل دخل رہا ہوگا اُن کی لجواب فارسی مثنویوں میں اس ہوا کی مٹھاس شامل ہے ۔ شام ڈھلتے ہی اس ہوا کے مزے کچھ اور بھی بڑھ جاتے ہیں ۔ اس کی اٹھکیلیوں میں اور بھی مستی در آتی ہے ۔ غالبؔ کا یہ شعر تو گویا یہاں مجسّم ہو جاتا ہے : ۔ اقبال ؔ نے بادبیابانی کو جو نقشہ کھینچا ہے وہ کافی حد تک اس ہوا کو بھی بیان کرتا ہے ۔ باکو اگرچہ بیاباں نہیں ہے لیکن اس کی ہوا میں قریب وہی خصائص ہیں جو اقبال ؔ نے اپنے اس لاجواب شعر میں بیان کیے ہیں : اے بادِ بیابانی مجھ کو بھی عنایت ہو خاموشی و دلسوزی سرمستی و رعنائی پیر وارث شاہ نے ہیر کا سراپا بیان کیا تو ساتھ ہی قلم توڑ کر رکھ دیا۔شاہ صاحب نے اس کے نین نقش اور لب و رخسار کی ایسی تصویریں بنائیں کہ ہر پڑھنے والا رانجھا بنا پھرتا ہے ۔ لیکن میرے خیال میں پیرصاحب کہیں باکو کاایک آدھ چکر لگا لیتے توحسنِ عالم کا جو تاج انہوں نے اکلوتی ہیر کے سر پہنایا تھا اس پہ نظرثانی کرتے ہوئے اس میں ’ شیئرنگ ‘ کے بارے میں غور فرماتے کہ یہاں ہر دوسری خاتون حسن کے معاملے میں ہیر کے آس پاس ہی کہیں Fall کرتی ہے ( اور پہلی بھی کوئی زیادہ دور نظر نہیں آتی ) ۔ سچی بات ہے یہاں پہنچ کر معاملاتِ حُسن کے بیان میں میرؔ کے مصرعے ’’ پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے ‘‘ کے سمیت اُن کا پورا دیوان بھی پھیکا سا لگا ۔میر ؔ نے اپنے عہد کی دلی میں موجودحسن کے بارے کہا تھا ، ’’ دلی کے نہ تھے کوچے اوراق ِ مصور تھے ۔۔۔جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی ۔ ۔لیکن یہاں تو بات تصویر وغیرہ سے آگے نکل گئی تھی۔ باکو سے واپسی پر ہر صاحب ِ ذوق سیّاح اپنے آپ کو کھینچ کر شہر سے باہر نکالتا ہے ۔ اس کے پائوں اس کا ساتھ نہیں دیتے۔مست ہوا پائوں سے لپٹتی ائر پورٹ تک پیچھا کرتی ہے ۔نظامی سٹریٹ پر آخری ، الوداعی نظر عجیب اُداس کُن سماں پیدا کرتی ہے اور مسافر بہت سی حسیں یادیں سمیٹے رُخصت ہو جاتا ہے ۔ حبیب جالبؔ نے کہا تھا : چلے آئے ان راہگزاروں سے جالبؔ مگر ہم وہاں قلب و جاں چھوڑ آئے